0
Saturday 17 Nov 2018 21:49

اسرائیل کی فلسطینی مزاحمت کے مقابلے میں بے بسی

اسرائیل کی فلسطینی مزاحمت کے مقابلے میں بے بسی
تحریر: محمود حکیمی

گذشتہ ہفتے اتوار (11 نومبر) کی رات اسرائیلی کمانڈوز کی ایک ٹیم غزہ کی پٹی میں واقع مشرقی خان یونس میں داخل ہوئی جس کا مقصد اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے ملٹری شعبے القسام بریگیڈز کے ایک اعلی سطحی کمانڈر کو اغوا کرنا تھا۔ لیکن القسام بریگیڈز کے مجاہدین پہلے سے ہی باخبر تھے لہذا انہوں نے اس ٹیم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ جھڑپ شروع ہونے کے بعد اسرائیلی کمانڈوز کی ٹیم نے ہوائی مدد کی درخواست کی جس کے نتیجے میں اسرائیلی جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹرز وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے مجاہدین کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس جھڑپ میں القسام بریگیڈز کے اسسٹنٹ چیف کمانڈر مروان عبدالکریم عیسی ابوبرکہ اور سات دیگر مجاہد شہید ہو گئے جبکہ اسرائیلی کمانڈو ٹیم کا سربراہ لیفٹیننٹ کرنل ایم بھی مارا گیا اور ایک اور افسر بھی زخمی ہو گیا۔ اس کے بعد اگلے دو دن تک حماس اور اسرائیل کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں۔ اسرائیل نے بمباری کر کے غزہ میں واقع الاقصی نیوز چینل کا دفتر تباہ کر دیا اور حماس نے بھی اسرائیلی بستیوں پر تقریباً 400 رکٹ برسائے۔ آخرکار مصر اور قطر کی میانجی گری سے جنگ بندی کا اعلان ہو گیا۔
 
اسلام مزاحمت کی تنظیم حماس نے اس جنگ بندی کو اپنی فتح قرار دیا ہے جبکہ اسرائیلی حکومت پر لرزہ طاری ہو گیا ہے اور وزیر دفاع اویگڈور لیبرمین کے استعفی کے بعد وزیراعظم بنجمن نیتین یاہو کی کابینہ انتہائی متزلزل ہو چکی ہے اور وقت سے پہلے الیکشن کے انعقاد کی باتیں سنائی دے رہی ہیں۔ پہلی نظر میں یہ جنگ بندی جولائی کے آخر میں برقرار ہونے والی اس جنگ بندی کی طرح ہی دکھائی دیتی ہے جس میں پیش ہونے والے چھ نکات حماس کی فتح اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی شکست قرار دیئے جا رہے تھے۔ اس کے بعد جب اسرائیلی فوج نے فلسطینی مظاہرین پر فائرنگ کی تو یہ جنگ بندی ختم ہو گئی اور حماس نے دوبارہ اسرائیلی بستیوں کو راکٹوں کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد ایک بار پھر جنگ بندی برقرار ہوئی جس میں اسرائیلی حکومت نے غزہ کے سرحدی راستے کھولنے کے علاوہ غزہ کے اہالی کیلئے سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کیلئے علاقے کی توسیع بھی قبول کر لی۔ اسرائیل کے اندر وزیراعظم نیتن یاہو کو فلسطینیوں کو یہ مراعات دینے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ لیبر پارٹی کے سربراہ اسحاق ہرزوگ نے تو بنجمن نیتن یاہو کو غدار اور جھوٹا شخص تک کہہ دیا جبکہ شاس پارٹی کے رہنما اریہ دری نے نیتن یاہو کی کابینہ ٹوٹنے کی پیشن گوئی کر دی تھی۔
 
اسرائیل کے اندر وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنائے جانے کی وجہ صرف یہ نہیں کہ انہوں نے فلسطینیوں سے جنگ بندی کی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حالیہ دو روزہ جنگ کے دوران زمینی حقائق میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے اور اسلامی مزاحمت حماس نے اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کر دیا ہے جو اسرائیلی شدت پسند حلقوں کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ لبنانی روزنامے "الاخبار" نے اس دو روزہ جنگ کا جائزہ لیتے ہوئے اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کی تین بڑی کامیابیوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک انٹیلی جنس کے میدان میں حماس کی کامیابی یعنی ان کا اپنی حدود میں اسرائیلی کمانڈو ٹیم کے داخلے کی اطلاع ہونا ہے۔ دوسرا اسرائیل سے جھڑپ کے دوران حماس کی جانب سے نیا اسلحہ متعارف کروانا ہے۔ حماس نے اسرائیلی فوجیوں کی حامل بس کو کارنٹ میزائل سے نشانہ بنایا جو گائیڈڈ میزائل ہے اور کندھے پر رکھ کر فائر کیا جاتا ہے۔ حماس کی تیسری فتح اسرائیل میں موجود پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم کو شکست دینا ہے۔ دو روزہ جنگ میں حماس نے تقریباً چار سو راکٹ فائر کئے جن میں سے صرف سو راکٹ پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹم کے ذریعے روکے جا سکے جبکہ تین سو راکٹ اسرائیلی زمین پر جا گرے۔
 
حماس کی پہلی فتح کے نتیجے میں غزہ کی حدود میں داخل ہونے والی اسرائیلی کمانڈوز کی ٹیم نہ صرف مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی بلکہ اسے شدید جانی اور مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ دوسری طرف حماس کی جانب سے کارنٹ میزائل کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ یہ تنظیم جدید قسم کے ہتھیاروں سے بھی لیس ہو چکی ہے۔ یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ کارنٹ گائیڈڈ میزائل ہر قسم کی فوجی گاڑیوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا حماس کی جانب سے اس کا استعمال اسرائیل کیلئے ڈراونا خواب بن گیا ہے۔ حالیہ دو روزہ جنگ میں اسرائیل کو لگنے والا سب سے بڑا دھچکہ حماس کی جانب سے فائر کئے گئے راکٹس کا مقابلہ کرنے میں ناکامی تھا۔ ان دو روز میں فلسطینی راکٹس کے باعث جنوبی اسرائیل میں بڑی تعداد میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد سے ظاہر ہوتا ہے کہ آج کے بعد اسرائیل کو فلسطینیوں پر جارحیت بہت مہنگی پڑے گی۔ اب اسرائیل ماضی کی طرح یکطرفہ کاروائیاں نہیں کر سکتا بلکہ اسے مقابلے میں بھی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس نے اپنی جدوجہد کے ذریعے اسرائیل کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ہے جس کے بعد اسرائیلی عوام حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی ہیں اور غاصب اسرائیلی رژیم شدید سیاسی زلزلے کی زد میں آ چکی ہے۔ اب اسرائیلی شہری شدید خوف و ہراس کا شکار ہو چکے ہیں اور وہ خود کو غیرمحفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔ یہ امر اسرائیل کی نابودی کا باعث بن سکتا ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 761839
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش