0
Sunday 18 Nov 2018 09:55

اندھی تقلید اور اسکے برے نتائج

اندھی تقلید اور اسکے برے نتائج
تحریر: فدا حسین بالہامی

وادی کشمیر کا یوں تو چپہ چپہ جنت نشان ہے لیکن پوری وادی میں جنوبی کشمیر کو خوبصورتی میں ایک خاص حصہ قدرت نے بخشا ہے۔ یہاں کے وافر آبی ذخائر اس قدرتی حسن و جمال میں چار چاند لگاتے ہیں اور بیشتر سیاحتی مقامات کی اصل رونق وہ صاف و شفاف پانی ہے، جسے کسی شاعر نے بجا طور پر بہتی ہوئے چاندنی سے تشبیہ دی ہے۔ ان سیاحتی مقامات میں بس چند ایک مقامات مشہور و معروف ہیں اور قدرتی حسن و جمال سے مالا مال بہت سی جگہیں قدرتی جمال کی متلاشی نگاہوں سے ابھی پوشیدہ ہیں۔ اسی لئے جب کوئی قدرتی خوبصورتی کا قدر داں ان غیر معروف جگہوں میں سے کسی جگہ اپنے آپ کو پاتا ہے تو وہ ایک ایسی خوشگوار کیفیت سے لطف اندوز ہوتا ہے کہ جس کا بیان الفاظ کے تنگ قالب میں نہیں سما سکتا۔ چند سال قبل راقم الحروف کو بھی ایک ایسے ہی مقام تک اتفافاً رسائی نصیب ہوئی اور اسی بہانے حیرت انگیز مسرت و انبساط نصیب ہوئی۔ یہ علاقہ جنوبی کشمیر کے مشہور قصبہ قاضی گنڈ کے نہایت ہی قریب ہے۔ بر سبیل تذکرہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ قصبہ قاضی گنڈ کو وادی کشمیر کے صدر دروازہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہر تعمیر گر کے نزدیک صدر دروازہ خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے صدر دروازے کی تعمیر کا کام بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ وادی کو زمین پر جنت بنانے والے نے بھی گویا کشمیر کے صدر دروازے کو بااہتمام تعمیر کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر جمال پسند نگاہ قاضی گنڈ کو دیکھتے ہی خیرہ ہو جاتی ہے۔ اسی قصبہ قاضی گنڈ کی بالکل بغل میں وہ خوبصورت گاؤں ہے جہاں راقم کو ایک دعوت کے سلسلے میں جانا تھا۔ قاضی گنڈ قصبہ سے قریباً تین چار کلو میٹر کے فیصلے پر واقع اس گاؤں کو ایک لنک روڑ سرینگر جموں قومی شاہراہ سے ملاتا ہے۔ جب ہم نے گاڑی کو اسی قدرے تنگ اور لچکدار راستے پر دوڑایا تو دل ہی دل میں خیال آیا کہ ہو نہ ہو اس ٹیڑھے میڑھے راستے کی منزل ضرور کسی خاص بات کی حامل ہوگی کیونکہ لچکدار راہیں ہمیشہ عجیب و غریب منزلوں پر منتج ہوتی ہیں۔ بالفاظِ دیگر وسیلہ کا ٹیڑھ پن بسا اوقات انسان کو کسی اچھوتے سر چشمے تک پہنچا دیتا ہے۔ بہرحال میرا یہ خوبصورت سا گماں اس وقت حقیقت کا روپ دھار کر میرے سامنے آگیا جب ہم اس مختصر مگر لچکدار راستے کو طے کرتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ ہماری یہ خوبصورت منزل ’’پانزتھ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس گاؤں کی جغرافیائی ہیئت کو دیکھ کر ایسا لگا کہ ابھی یہاں قدرت کی بے عیب کاری گری انسان کی دست اندازی سے بہت حد تک محفوظ ہے اور قدرتی رکھ رکھاؤ پر بناوٹی اور مصنوعی بناؤ اور سنگھار ہنوز غالب نہیں ہوا ہے۔ جہاں تک اس گاؤں کی وجہ تسمیہ کا تعلق ہے وہاں کے مقامی باشندوں کے مطابق ’’پانزتھ‘‘ اصل میں ’’پانژ ہتھ ‘‘ کا مخفف ہے۔ کشمیری زبان میں’’پانژ ہتھ ‘‘ کا معنیٰ پانچ سو کے ہیں اور چونکہ تنہا اس گاؤں میں پانچ سو چشمے نکلتے ہیں، اسی لئے اس گاؤں کا نام پانزتھ رکھا گیا ہے۔

قابلِ ذکر ہے کہ کسی بھی بستی کے لئے پانی کا ایک بھی صاف و شفاف ذخیرہ یا سرچشمہ نعمتِ عظمٰی کا درجہ رکھتا ہے۔ پانی کا آئینہ نما وافر ذخیرہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے عطائے پروردگار جوش میں آگئی ہو اور اس نے پانچ سو چشموں پر مشتمل ایک ایسی سوغات مذکورہ گاؤں کو عطا کی کہ جس کے تئیں اس کے مکین جتنا بھی شکرِ خدا بجا لائیں کم ہے۔ یہاں پانچ سو چشموں کا پانی مل کر ایک ایسی بہتی ندی کو وجود بخشتے ہیں کہ جس کی روانی کا خوشنما منظر ہر جمال پسند آنکھ میں نہ صرف اتر جاتا ہے بلکہ اس میں گھر کر جاتا ہے۔ اس ندی کے پانی کی شفافیت، مٹھاس اور خنکی ہر چکھنے والے کو جیسے کوثر و تسنیم کی لذت سے روشناس کراتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو ایک بار اس ندی کا میٹھا اور صاف و شفاف پانی پی لے بار بار پینے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے، چونکہ راقم الحروف اپنے چند دوستوں کے ہمراہ دعوت کے لئے مقررہ وقت سے چند گھنٹے پہلے ہی اس مقام پر پہنچا تھا، لہٰذا ایک ڈیڑھ گھنٹہ جو وہاں ہمیں رکنا پڑا اس ڈیڑھ دو گھنٹہ میں اس ندی کے ساتھ ساتھ اسے منسلک پس منظر اور پیش منظر کو تکتہ رہا اور لگاتار اس کے میٹھے پانی کو چکھتا رہا۔ اس دعوت کا خاص پہلو یہ تھا کہ اس کا اہتمام اسی خوبصورت ندی کے کنارے پر کیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے میرے لئے یقیناً یہ دعوت خاص اہمیت کی حامل تھی اور زندگی کی یادگار دعوت بھی۔ چنانچہ مہمانوں کی خاظر تواضع کے لئے بر لبِ نہر سائبان نصب کیا گیا تھا۔ اس سائبان کی عارضی ڈیوڑھی بھی اسی ندی کی جانب بنائی گئی تھی۔ جس سے ہوتے ہوئے بیشتر مہمانوں کی نظریں بلاناغہ اسی نہر پر جا پڑتی تھی۔ اس ندی کے پانی کی خراماں خراماں روانی سے پیدا ہونے والا قدرتی اور شیریں ساز لگاتار سماعتوں کی نذر تھا اور اس پانی سے ٹکرا کر آنے والی ٹھنڈی اور مدہم رفتار ہوائیں موسم سرما کی تپش کے لئے سمِ قاتل تھیں۔

خیر جب ضیافتوں سے پُر دسترخوان بچھ گیا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان ضیافتوں میں پانی کی سیل بند پلاسٹک بوتلیں بھی شامل تھیں یہ بوتلیں پانی کو مصفاکرنے والی کسی مشہور اور غیر ریاستی کمپنی سے خریدا گیا تھا۔ راقم نے مہمانوں کی خاظر تواضع پر مامور ایک نوجوان سے جب پانی کا تقاضا کیا تو اس نے اس پانی کی بوتل کی سیل توڑی اور زیر لب ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ پانی کا گلاس بھر کر میری جانب بڑھایا۔ اس مسکراہٹ کی تعبیر میرے سمجھ میں یہی آئی کہ میں نے پانی کی بوتل پاس ہوتے ہوئے بھی اسے پانی کا تقاضا کیا۔جو حصولِ حاصل والا معاملہ ہے لیکن میں نے جب اسے یہ کہا کہ میں اس نہر کا پانی ہی پیوں گا تو اس کی حیرانگی میں ضرور دو چند اضافہ ہوا ہوگا۔ اس نے خیر میری اس حرکت کا جو بھی من ہی من عنوان دیا ہو۔ میرے ذہن میں میزبانوں کے متعلق ایک سوال نے جنم لیا کہ آخر کیوں آبِ شیریں سے لبا لب پانچ چشموں کے ہوتے ہوئے انہیں پانی کی یہ بوتلیں بازار سے خرید کر لانے کی مجبوری لاحق ہوئی؟ بظاہر معمولی نوعیت کا یہ معاملہ ایک ایسی منفی سوچ اور طرز عمل کو ظاہر کرتی ہے کہ جس کے فروعی نتائج بھی ایک معاشرہ کے لئے بہت ہی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔یہ منفی طرزِ عمل عام اصطلاح میں اندھی تقلید کہلاتا ہے۔ اس اندھی تقلید کے نتیجے میں وہ لوگ غیر شعوری طور دو اور سماجی برائیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اول: اسراف دوم : ایک عظیم نعمت کی ناقدری۔

دیکھا جائے تو یہاں پر اصل معاملہ اندھی تقلید کا ہی ہے اور دیگر دو برائیاں یعنی نعمت کی ناقدری اور اسراف اسی اندھی تقلید کے ہی ذیلی نتائج ہیں۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے یہاں کشمیر میں شادی بیاہ یا دیگر دعوتوں پر ’’وازہ وان‘‘ سے موسوم ایک خاص قسم کا پکوان پکایا اور پھر مہمانوں کو کھلایا جاتا ہے۔ ’’وازہ وان ‘‘ بہت ساری پکوانوں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں آئے روز نئی نئی چیزیں شامل ہوتی رہتی ہیں۔ پانی کی سیل بند بوتلیں بھی اسی لمبی چوڑی فہرست میں کسی نے اضافی طور پر شامل کردیں ۔پھر کیا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ اضافی چیز بھی ’’وازہ وان‘‘ کی بنیادی فہرست میں جگہ پا گئی۔ ایک نے شامل کر دی تو سب نے بلا پوچھے اسے جزوِ ضیافت قرار دیا۔ چنانچہ کسی بھی رسم میں کوئی بھی اضافہ ہو اور اس رسم کو من و عن بغیر یہ دیکھے لوگوں کی اکثریت اختیار کرے کہ آیا یہ رسم ان کے لئے بھی لازمی ہے یا نہیں۔ تو اسے اجتماعی سطح پر اندھی تقلید کا نام دیا جا سکتا ہے۔ مندرجہ بالا مسئلہ میں بھی اس لحاظ سے اندھی تقلید کا محّرک نمایاں ہے کیونکہ جو چیز پہلے سے پروردگار عالم نے اس سے بھی بہتر صورت میں انہیں مفت میں عنایت کی تھی۔ اسی چیز کو وہ خرید کر وہ محض اس لئے لے آتے ہیں کیونکہ اسے پہلے بھی سماج میں دیگر افراد نے بھی یہی کام انجام دیا ہے۔ چنانچہ جس شخص کے پاس صاف و شفاف پانی دستیاب نہ ہو اگر وہ مصفٰی کیا ہوا پانی خرید کر لے آئے اور مہمانوں کو پلائے، تو یہ فعل عقل کے عین مطابق ہے۔

بصورت دیگر یہ معاملہ اندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں ہو گا اور اس کے پیچھے یہی سوچ کار فرما ہوتی ہے کہ اگر فلاں شخص نے کسی موقع پر کوئی کام انجام دیا ہے تو ہم سب پر یہ فعل لازم آجاتا ہے۔ کہ ہم بھی وہ کام دوسروں کی دیکھا دیکھی میں انجام دیں۔ دوسرا منفی پہلو اس حوالے سے اسراف سے تعلق رکھتا ہے، چنانچہ جو چیز اس کی اصل، حقیقی اور قدرتی شکل میں آپ کے پاس وافر مقدار میں موجود ہو اور آپ اس وافر مقدار کو نظر انداز کر کے اس کی مجازی اور کم تر درجہ کی چیز بازار سے خرید کر لائیں۔ یہ اسراف نہیں ہے تو کیا ہے، بہرحال پانی کے سرچشمے سے حاصل شدہ قدرتی طور پر صاف و شفاف پانی کی قدر و قیمت اور ذائقہ یقیناً ایک خاص امتیاز رکھتا ہے اور چند ایک کیمیائی ادویات کی مدد سے صاف کیا گیا پانی اسکا حقیقی نعمل البدل نہیں ہو سکتا ہے۔ اس قدرتی نعمت کو نظر انداز کرنا اور اسے خاطر ہی میں نہ لانا کفرانِ نعمت کے زمرے میں آتا ہے، اور نعمت کی ناقدری کی ایک شکل یہ بھی ہے۔ کہ آپ کم تر کو اعلٰی تر شئے پر ترجیح دیں۔ متذکرہ بالا معاملے میں یہی ہوا ہے۔ پانچ سو چشموں کے بے لاگ پانی پر بسلیری کی بوتلوں کو ترجیح دے کر دراصل میزبان قدرت کی عطا کردہ نعمت کی ناقدری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہاں قارئین کرام کے ذہنوں میں یہ خیال گزرے کہ یہ چھوٹا سا معاملہ اور اس پر یہ لمبی سی تمہید باندھنے کی کیا ضرورت آن پڑی۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ بقولِ امام علیؑ کسی بھی چھوٹی غلط روش کو چھوٹا سمجھنا اسے بڑا بنا دیتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ چھوٹے چھوٹے فاسد اجزاء ایک بڑی بدعت کو وجود بخشتے ہیں۔ چنانچہ بدعتوں کے ریلے کے چند قطرے پہلے پہل سماجی باندھ کو سوئی کی نوک کے برابر چھیدتے ہیں اور پھر یہی چھوٹا سا چھید ایک بڑے درے کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اس باندھ کی رکھوالی پر معمور افراد کو اس قدر باریک بین ہونا چاہے کہ وہ چھید کو درہ بننے سے قبل ہی درک کر سکیں اور اس کو بند کرنے کا اہتمام کریں۔
خبر کا کوڈ : 761910
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش