QR CodeQR Code

خیبر پختونخوا حکومت کی اُڑان صرف 100 روزہ پلان تک محدود

19 Nov 2018 19:24

اسلام ٹائمز: 100 روزہ پلان کیوجہ سے عام طور پر سرکاری امور سست روی کا شکار نظر آتے ہیں۔ لوگوں میں بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس 100 روزہ پلان نے وزراء اور سرکاری افسران کو کسی اور طرف ہی لگا دیا ہے اور انکے معمول کے سرکاری امور متاثر ہو رہے ہیں، ساتھ ہی یہ تاثر بھی عام ہوتا جارہا ہے کہ پشاور کے معاملات اسلام آباد سے چلائے جا رہے ہیں، یہ تار ختم کرنا بھی صوبائی حکومت کا کام ہے۔ 100 روزه پلان کی تشکیل اور منظوری کے بعد تمام محکموں کو اس حوالے سے تفصیل سے میڈیا کے ذریعے اپنے اہداف سامنے لانے چاہئیں، تاکہ ووٹروں کو یہ صورتحال کا اندازہ کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔


رپورٹ: ایس علی حیدر

پہلی بار جب پاکستان تحریک انصاف نے مرکز میں حکومت بنائی تو وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ پانچ سال کے حکومتی معاملات چلانے کیلئے 100 روز کے اندر تمام محکمے خصوصی پلان تشکیل دیکر مستقبل کی حکمت عملی کا تعین کریں گے، جس کے بعد اب تک مرکزی اور خیبر پختونخوا حکومت کا تمام تر زور صرف 100 روزہ پلان کی تشکیل پر چلا آرہا ہے۔ اس حوالے سے پہلے 15 نومبر کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی، تاہم بعض محکموں کی طرف سے مزید منصوبے شامل کرنے اور اس حوالے سے فنڈنگ کے معاملات کے باعث کچھ تاخیر ہوئی، تو اب صوبائی حکومت نے 100 روزہ پلان کی تیاری کی ڈیڈ لائن میں مزید توسیع کرتے ہوئے تمام محکموں کو فوری طور پر تیاریاں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے 6 دسمبر کی نئی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے۔ حکومت سازی کے بعد سے تمام محکمے 100 روزہ پلان کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور نہ صرف پشاور بلکہ اسلام آباد میں بھی مشاورتی اجلاس ہو رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ وزیراعلٰی محمود خان ہر منصوبے کا خود جائزہ لے رہے ہیں، 100 روز و پلان کے اختتام پر عوام دوست اور مفصل رپورٹ جاری کی جائے گی، جس میں تمام اقدامات کی منصوبہ بندی اور آئندہ پانچ سال میں اہداف کے حصول کا طریقہ کار وضع ہوگا۔ اس سلسلے میں وزیراعلٰی خود میڈیا کو بریفنگ دیں گے، البتہ پلان کی نئی ڈیڈ لائن میں مزید توسیع نہیں ہونی چاہیئے، کیونکہ 100 روزہ پلان کی وجہ سے عام طور پر سرکاری امور سست روی کا شکار نظر آتے ہیں۔ لوگوں میں بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اس 100 روزہ پلان نے وزراء اور سرکاری افسران کو کسی اور طرف ہی لگا دیا ہے اور ان کے معمول کے سرکاری امور متاثر ہو رہے ہیں، ساتھ ہی یہ تاثر بھی عام ہوتا جا رہا ہے کہ پشاور کے معاملات اسلام آباد سے چلائے جا رہے ہیں، یہ تاثر ختم کرنا بھی صوبائی حکومت کا کام ہے۔ 100 روزه پلان کی تشکیل اور منظوری کے بعد تمام محکموں کو اس حوالے سے تفصیل سے میڈیا کے ذریعے اپنے اہداف سامنے لانے چاہئیں، تاکہ ووٹروں کو یہ صورتحال کا اندازہ کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

100 روزہ پلان کی تیاری سے کہیں زیادہ اہم امر اس پر مکمل طور پر عملدرآمد ہے، اس لئے تمام وزراء کو اس حوالے سے بھی کوئی میکنزم تشکیل دینا ہوگا، کیونکہ اس کے بغیر اس تیاری کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ویسے بھی صوبائی حکومت نے لوگوں کو جو خواب دکھائے ہیں، اس کے تناظر میں اب مزید تاخیر یا کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں نظر آتی۔ صوبائی حکومت کی اڑان کا تمام دار و مدار اب 100 روزہ پلان پر ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں مکمل سنجیدگی اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف 100 روزه پلان کے تحت صوبائی دارالحکومت کی ترقی کیلئے پشاور ڈویلپمنٹ پلان پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔ اسوقت بڑی مدت بعد صوبائی وزیر خزانہ کا تعلق پشاور سے ہے۔ حاجی محمد عدیل پشاور سے تعلق رکھنے والے آخری وزیر خزانہ تھے، جس کے بعد 2 عشروں تک پشاور کے کسی ایم پی اے کو یہ منصب نہ مل سکا۔ اب پاکستان تحریک انصاف نے پشاور سے تعلق رکھنے والے تیمور سلیم جھگڑا کو اس منصب پر فائز کیا ہوا ہے، تو توقع رکھی جا رہی ہے کہ وہ صوبائی دارالحکومت کو ماضی میں نظرانداز رکھنے کی تلافی ہر صورت کریں گے۔

ان کے علاوہ وزیر جنگلات و ماحولیات اشتیاق ارمڑ، ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی محمود جان اور معاون خصوصی برائے آئی ٹی کامران بنگش کا تعلق بھی پشاور سے ہے، جبکہ گورنر شاہ فرمان بھی پشاور کے باسی ہیں، اس لئے توقع کی جا رہی ہے کہ اس بار پشاور کیلئے اس کے استحقاق کے مطابق ترقیاتی منصوبے لائے جائیں گے، جو اس پر احسان نہیں ہوگا، کیونکہ صوبے کا سب سے بڑا شہر ہونے کی وجہ سے حکومتی توجہ کا سب سے زیادہ مستحق بھی ہے۔ بی آر ٹی سے ہٹ کر بھی پشاور کیلئے کئی اہم منصوبوں کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں اور اب تحریک انصاف کی حکومت کو ہی یہ انصاف کرنا پڑے گا۔ ایک طرف اگر صوبائی کابینہ میں توسیع کا مرحلہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے تو دوسری طرف بہت سے اہم خواہشمندوں کی امیدیں بھی دم توڑ گئی ہیں، کیونکہ پارٹی نے اس سلسلے میں واضح پالیسی کا اعلان کر دیا ہے، عام انتخابات اور اس کے بعد حالیہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر جس طرح پارٹی ٹکٹ اپنوں میں بانٹے گئے تھے، اس پر کافی لے دے ہوئی تھی، جس کے بعد اب پاکستان تحریک انصاف نے موروثی سیاست کی حوصلہ شکنی کیلئے اہم اقدامات کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت وفاقی حکومت کا حصہ بنے والے پارٹی رہنماؤں کے رشتہ داروں کو صوبائی حکومت کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔

اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلٰی محمود خان کے درمیان مشاورت ہوچکی ہے۔ واضح رہے کہ ضمنی انتخابات میں وزیر دفاع پرویز خنک کے صاحبزادے اور بھائی، جبکہ سپیکر اسد قیصر اور وفاقی وزیر امین گنڈا پور کے بھائیوں نے کامیابی حاصل کی تھی اور ان کے صوبائی کابینہ کا حصہ بننے کے حوالے سے خبریں آرہی تھیں، تاہم اب ان کی شمولیت کے راستے بند کر دیئے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں خود وزیراعلٰی محمود خان نے پشاور میں میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران تصدیق کی تھی کہ جسے مرکز میں وزارت یا کوئی عہدہ ملا ہے، اس کے کسی رشتہ دار کو صوبے میں کوئی وزارت یا عہدہ نہیں ملے گا۔ اس سلسلے میں وزیراعظم سے بات ہوئی ہے، جبکہ کابینہ کی توسیع پر ایک ملاقات میں مزید بات ہوگی۔ اگر پی ٹی آئی اپنے اس فیصلے پر عملدرآمد کرتی ہے تو یقیناََ یہ ایک مثبت پیغام ہوگا۔ اس کے کارکنوں کیلئے جو ضمنی الیکشن میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر مایوسی کا شکار تھے، اسی طرح اب اگلے بلدیاتی انتخابات میں بھی وزراء اور اراکین اسمبلی کے رشتے داروں کے راستے مسدود کرکے دیرینہ کارکنوں کو آگے کیا جاسکتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 762130

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/762130/خیبر-پختونخوا-حکومت-کی-ا-ڑان-صرف-100-روزہ-پلان-تک-محدود

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org