0
Monday 19 Nov 2018 16:59

رسولِ رحمت ۖ اور ہمارا کردار

رسولِ رحمت ۖ اور ہمارا کردار
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
 ظہورِ اسلام سے قبل اقوامِ عالم کی جو حالت تھی، اس کے بارے تاریخ کے اوراق سے پوچھو تو یہ سامنے آتا ہے کہ قبل از بعثت نبوی ۖ انسانی گردنوں میں طرح طرح کے پھندے، قسم قسم کی بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں؟ نسلِ انسانی اس وقت رنگ رنگ کی جکڑ بندیوں میں جکڑی ہوئی تھی، ان کے بوجھ کیوجہ سے انکی کمریں دو تہہ ہوئی جاتی تھیں اور انسانی کاندھوں پر ایسے بوجھ لدے ہوئے تھے، جنہوں نے ان کی زندگیوں کو تلخ ترین بنا ڈالا تھا، ہاں ایسا ہی تھا، اس وقت کی صدہا اقسام کی مذہبی و قانونی جکڑ بندیاں ایک لعنت بن کر نسلِ انسانی و نوعِ بشری کے ساتھ چپک گئی تھیں اور انسانوں کے ساتھ انسانیت کا بھی خون ہو رہا تھا، ایسے ماحول و معاشرے میں توحید خالص کی طرف سے "وما ارسلنک اِلا رحمة لِلعالمِین" کا ظہور اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمة للعالمین، تمام نوعِ انسانی کے لئے رحمت بن کر ظاہر ہوئے۔

روایتی طور پہ آپ ۖ کسی ایک ٹکڑے، کسی ایک گوشے کے لئے نہیں، تمام نوعِ انسانی کے لئے، مشرق و مغرب کے لئے، اسود و احمر کے لئے، کسی ایک خاص قوم کے لئے نہیں، اقوامِ عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے، اللہ کا یہ اعلانِ حق ہے، قرآن کے اس اعلانِ حق سے آج تک کوئی منکر بھی انکار نہیں کرسکا، بلکہ تاریخ کے جتنے ابواب و اوراق الٹے گئے، اس اعلان کی صداقت و حقانیت واضح بلکہ واضح تر ہوتی گئی اور اس وجودِ گرامی کا رحمة للعالمین ہونا ہر اعتبار سے اور ہر نوعیت سے ثابت و درست ہوتا گیا۔ کسی محقق کی بھی خواہ وہ کتنا ہی مخالف ہو، یہ مجال نہیں ہوئی کہ قرآنِ کریم کے اس معیار کو غلط ثابت کرسکے اور اس وجودِ اقدس کے اعمالِ حسنہ پر خوف رکھ سکے، اس کا ہر عمل بجائے خود دلیل بن کر پکارا کہ ہاں میں رحمت ہوں!
 
اگر کسی نوعیت سے یہ رحمت نہ ہو تو پھر رحمت کون ہے اور رحمة للعالمین تمام جہانوں کیلئے رحمت؟ تاریخ کو کون جھٹلا سکتا ہے، کوئی بھی تاریخ اٹھائو تو دیکھو گے کہ ہر امتیاز، ہر پرکھ ایک ابھری ہوئی نشانی ہے، ہر عمل عملِ خیر اور معیارِ رحمت ہے، ایسا کہ ہر نظر، ہر نگاہ، ہر دل، ہر دماغ، اعتراف و تسلیم کرے گا کہ بلا شک و شبہ یہی وجودِ گرامی رحمتِ الہی ہے۔۔ وماارسلنک اِلا رحمة لِلعالمِین! کونسی رحمت، وہی جو سرزمین مکہ سے ظاہر ہوئی، ہاں سرزمینِ مکہ سے ہی ایک آواز بلند ہوتی ہے، جو طالبانِ نجات کے لئے وجہ نجات ثابت ہوتی ہے۔ یہ اعلان کوئی معمولی اعلان نہیں تھا، کیا اعلان؟ اعلان کہ ایک ہستی آئی ہے، کیوں آئی ہے؟ کرہ ارضی پر بسنے والی نوعِ انسانی کے لئے پیامِ رحمت لے کر، زمین کی پیٹھ پر، اس طبقہ انسانی کے لئے، جس کی گردنوں میں ظالمانہ قانون کے پھندے اور پائوں میں بے رحمانہ احکام کی بیڑیاں، کندھوں پر مصائب و آلام کے اور مشقت و مصیبت کے ناقابل برداشت بوجھ لدے ہوئے ہیں، پیغامِ آزادی لے کر۔

ہر اس کمر کے لئے جو بوجھ سے خمیدہ اور ہر اس گردن کے لئے جو طرح طرح کے ظالمانہ جکڑ بندیوں میں کڑی ہوئی ہے، نویدِ امن لے کر آئی ہے۔، کون نہیں جانتا کہ عرب کا جاہل ماحول کس قسم کا تھا، جہاں نبی رحمت کا نزول مبارک ہوا، جہاں خانہ خدا بت کدہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا، جہاں معاشرہ قبائلی و دیگر عصبیتوں میں جکڑا ہوا تھا، لوگ پسے ہوئے تھے اور کچھ لوگ ان پر خدا کی طرح حاکم تھے، جن کا حکم حرف آخر سمجھا جاتا تھا، جو اپنی خدائی کو چیلنج کرنے والی ہر طاقت و قوت کو ختم کر دیتے تھے، جنہیں اپنے آبا ئو اجداد کی رسومات پہ فخر تھا، جو جبر و اکراہ سے بھرپور زندگی گزارنے پہ مجبور تھے، ایسے پسے ہوئے، غلامی میں جکڑے، رسومات کے قیدیوں میں آپ ۖ کا ظہور واقعی معجزہ تھا۔
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسین وہی طہٰ
 
مخلوقات میں یہ جذبہء رحمت سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمایا اور آپ کی رحمت کو زمان و مکان، دوست و دشمن، انسان و حیوان کی تمام تر قیودات سے الگ کر کے بیان فرمایا:و ماارسلنٰک الا رحمة للعالمین۔ اے محبوب ہم نے آپ کو دونوں جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا دائرہ کسی خاص قوم اور کسی خاص جماعت کے لئے محدود نہ تھا بلکہ آپ جس طرح اپنے دوستوں کے لئے رحمت تھے، ویسے ہی اپنے دشمنوں کے لئے بھی، جیسے تمام انسانوں کے لئے رحمت تھے، ویسے ہی تمام حیوانوں کے لئے بھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے ہر پہلو میں آپ کی رحمت کے جلوے کو دیکھا جا سکتا ہے، آپ کی زندگی کا ہر ہر لمحہ واقعی سراپا رحمت ہے۔

آپ آج بھی باعث رحمت و بخشش ہیں، آپ کا پیغام رحمت ہے، آپ کا قرآن رحمت ہے، آپ کا نام رحمت ہے، آپ کا جہان رحمت ہے، آپ نے جس معاشرے و ماحول میں اسلام کی تبلیغ اور اللہ کے دین کی ترویج کی وہ معاشرہ و سوسائٹی جن جکڑ بندیوں کا شکار تھا، ان میں رحمت و شفقت اور محبت و اخوت، بھائی چارہ و برادری کو اہمیت و ارزش دے کر اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی، وگرنہ کفر کے ان مراکز میں اللہ کی وحدانیت کا پیغام سننے والا کوئی نہ ہوتا، یہ آپ کا کردار و عمل تھا کہ لوگ بالخصوص پسے ہوئے، پا برہنہ لوگ آپ کیساتھ آن کھڑے ہوئے، انہوں نے اسلام قبول کرکے تکالیف بھی برداشت کیں، مگر آپ کو چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔
 
آج اگر ہم امت مسلمہ کی حالت زار بالخصوص اپنے ملک میں تقسیم، فرقہ بندی اور تفریق کا جائزہ لیں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم جس نبی رحمت کا کلمہ پڑھتے ہیں اور ان کی محبت کا دم بھرتے ہیں، ان کے اسوہ سے کس قدر دور ہیں، ہمارے اعمال و کردار دوغلے ہیں، ہم ہر وہ کام کرتے ہیں، جس سے نبی رحمت نے منع فرمایا اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلاتے ہیں، نبی سے محبت کے دعوے بھی کرتے ہیں جبکہ ساری زندگی رحمت بن کر انسانوں و مخلوقات کو اپنے فیوض بخشنے والے پاک پیغمبر نے تو کسی انسان کجا حیوان کو بھی تکلیف پہنچانا گوارا نہیں کیا اور ہم ہیں کہ لوگوں کو اپنے ذاتی مقاصد کیلئے تکلیف پہنچاتے ہیں، ان پر لاٹھیاں برساتے ہیں، انکا راستہ روکتے ہیں، بیماروں اور مریضوں کو اسپتالوں میں پہنچنے سے روکتے ہیں، لوگوں کی ذاتی و سرکاری املاک کو آگ لگا دیتے ہیں اور نام ہوتا ہے محبت نبوی کا، کونسے نبی سے محبت کا یہ طریقہ ہے، کس نبی نے یہ گوارا کیا کہ کسی بے گناہ انسان کو ایک معمولی تھپڑ بھی مارا جا سکتا ہے، نبی تو کجا کوئی عام انصاف پسند حکمران یا پیر فقیر بھی ایسا نہیں کرنے دیگا۔

مگر ہم نے دیکھا کہ چند دن پہلے کیسے اسی ملک میں نبی رحمت کے نام پر کروڑوں کی نجی و سرکاری املاک کو جلا دیا گیا، کیا یہی اسلام ہے، جس کی دعوت ہم غیر مسلموں کو دینا چاہتے ہیں اور پرچم نبوی ۖ کو دنیا بھر میں لہراتا دیکھنا چاہتے ہیں، اللہ کے دین کی سربلندی کا یہی طریقہ ہے؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ تو کسی ابو جہل کا طریقہ ہوسکتا ہے، یہ کسی ابو سفیان کی راہ ہوسکتی ہے، یہ بنو امیہ کا انداز ہوسکتا ہے، ہمارے پیارے نبی اور جو تمام انسانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے، ان کا طریقہ اور اسوہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ہمیں اگر اسلام عزیز ہے، اگر نبی کا دین عزیز ہے، اگر الہیٰ پیغام عزیز ہے، توحید کی نمائندگی عزیز ہے تو پھر اسوہ نبوی کو اختیار کرنا ہوگا اور اس پرفتن دور میں سازشوں کو سمجھنا ہوگا، موجودہ پرفتن دور میں ہمیں رسول رحمت ۖکے اس جذبے کو اختیار کرتے ہوئے انسانیت کو انسانوں کے ہاتھوں غلامی سے نجات کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اس لئے کہ جدید دنیا میں جدید غلامی کے اطوار سے انسان اپنے مقصد تخلیق کو بھلا چکا ہے۔

جس طرح عرب کے جاہل معاشرے میں رسول رحمت نے آکر وقت کے طاغوتوں اور ظالموں کو اپنے بلند کردار اور حکمت عملی سے شکست سے دوچار کیا، اسی طرح آج کے جدید طاغوتوں اور ظالموں کو ان کے جدید وسائل کے ذریعے اور ان کی حکمت عملیوں کو انہی پر پلٹاتے ہوئے شکست سے دوچار کرنا ہوگا، استعمار کا بہت پرانا حربہ ہے کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو، آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، امت مسلمہ اس وقت مختلف گروہوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کر دی گئی ہے، جو ان ظالمین کی خدمت کے مترادف ہے، ہم اس وقت تک فتح مند نہیں ہوسکتے، جب تک باہمی اتحاد، وحدت، اخوت اور بھائی چارگی کا وہ سبق یاد نہ کر لیں، جو رسول اکرم ۖ نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہمیں دیا اور اپنے معاشرے میں عملی کیا تھا، مسلمانوں کو باہمی اخوت اور بھائی چارگی کے رشتے میں بدل کر آپ نے تمام تفرقات کو ختم کر دیا تھا پھر اللہ کی مدد شامل حال ہوئی، خدائی وعدہ پورا ہوا اور مسلمان فتح مند ہوئے۔

آج بھی فتح کا یہی راز ہے، آج بھی امت کی مشکلات و مصائب اور مسائل کے حل کا یہی ایک نسخہ ہے، یہ معمولی فرد کا نسخہ نہیں، یہ الہیٰ نسخہ ہے، جسے قرآن نے حبل اللہ سے تعبیر کیا ہے، آج حبل اللہ کو تھامے بغیر یہ امت سرخرو نہیں ہوسکتی، سلام ہے جمہوری اسلامی ایران کے بنیان گزار امام راحل امام خمینی اور ان کے وارث برحق حضرت علی حسینی الخامنہ ای پر، جنہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو وحدت کا پیغام یاد کرایا ہے، امت اگر ان بزرگان کی رہبری و قیادت میں اتحاد، وحدت، اخوت، بھائی چارہ اور یکجہتی کا دامن پکڑ لے تو وقت کے ابوجہل، ابو سفیان اور امیہ کے عمال کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دھر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے
خبر کا کوڈ : 762279
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش