0
Tuesday 20 Nov 2018 01:36

گلگت بلتستان کی 71 سالہ محرومیاں اور سپریم کورٹ سے توقعات

گلگت بلتستان کی 71 سالہ محرومیاں اور سپریم کورٹ سے توقعات
تحریر: شیر علی انجم

پاکستان کے زیر انتظام مسئلہ کشمیر سے منسلک ریاست جموں کشمیر کی سب بڑی اور وسیع اکائی سرزمین گلگت بلتستان کی تاریخ پر بہت کچھ لکھا چُکا ہے۔ آج ہمارا موضوع بحث یہ نہیں ہے کہ یہ خطہ ماضی بعید میں کئی ریاستوں پر مشمل ایک عظم ملک ہوا کرتا تھا، ہم اس بحث میں بھی نہیں جائیں گے کہ تقسیم برصغیر اور ریاست جموں کشمیر اور تبت ہا کا شیرازہ بکھیر کر ریزہ ریزہ ہونے سے پہلے گلگت اور لداخ (موجودہ بلتستان اور بھارت زیر قابض کرگل) دو قانونی اور آئینی صوبے تھے، ہماری بحث اس پہ بھی نہیں ہوگی کہ گریٹ علی شیر خان انچن کے دور سلطنت میں لداخ سے لیکر کوہستان تک ایک ریاست کے طور پر وجود رکھتے تھے۔ آج ماتم اُس وقت سے شروع کروں گا جب یکم نومبر 1947ء کو عظیم دھرتی کے دلیر سپوتوں نے گلگت سے تعلق رکھنے والے گریٹ کرنل مرزا حسن خان کی قیادت میں قدرتی، معدنی اور آبی ذخائر سے مالا مال خطے کو بھارت کے دامن میں جانے سے بچایا اور دنیا کے نقشے پر ایک نئی لکیر کھینچ کر جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی اور اس نومولود مملکت کو صرف 16 دنوں میں برطانوی سامراجی ایجنٹوں کی سازشوں، اپنوں کی سادگی اور لاشعوری طور پر مذہبی منافرت اور منافقت کے ساتھ گلگت بلتستان کے میروں اور راجاوں کی غداری کی بھینٹ چڑھا گیا۔ یوں 16 نومبر1947ء کو ایک غیر مقامی پختون تحصلیدار رابطہ افسر نے اس خطے کا پہلا پولٹیکل ایجنٹ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال کر سرحدی قانون FCR نافذ کرکے ایک کالونی کی بنیاد رکھی، جو مختلف ادوار میں پیکج اور آرڈر کے زیر سایہ سفر کرتے کرتے مسلم لیگ نون کی حکومت نے گلگت بلتستان آرڈر 2018ء نامی ایک حکم نامہ نیا کالونیکل نظام نافذ کرکے اس خطے کو اکیسویں صدی میں مزید قیدی بنا دیا۔

گلگت بلتستان کی متازعہ حیثیت اور اس خطے کی محرومیوں کی طویل داستان ہے، اور یہ داستان بڑ کربناک اور تکلیف دہ بھی ہے کیونکہ اس خطے کی اکہتر سالہ محرومیوں کی ایک وجہ جہاں مملکت پاکستان کے حکمران اور مسئلہ کشمیر ہے، وہیں مقامی سطح پر عوام سے ووٹ لیکر کر حکومت کرنے والوں کا من حیث القوم ایک نظریئے پر اتفاق کرتے ہوئے خطے کی سیاسی، سماجی اور معاشی محرومیوں کو ختم کرنے کی کوشش میں ناکامی ہے۔ ستم یہ ہوا کہ یہاں اسلام آباد سے جو بھی نظریہ امپورٹ کیا گیا اُس نظریئے کو کبھی قومیت کے نام پر، کبھی علاقائیت اور مسلک کی بنیاد پر عوام میں پرچار کرتے رہے اور سادہ لوح عوام چونکہ سیاسی طور پر لاشعور تھے اور ہیں، یہی سمجھتے رہے کہ یہی بہروپ لوگ اور نظریہ ہی دراصل اس خطے کی اصل ضرورت اور مسائل کا حل ہے۔ بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے عوام کو ان اکہتر سالوں میں اصل مسئلے کی طرف متوجہ ہونے ہی نہیں دیا اور جب جب یہاں کے عوام نے اُن سازشوں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے کی کوشش کی یہاں پر قیامت برپا کرتے رہے اور عوام اُنہی اُلجھنوں میں اُلجھ کر آج اکیسوں صدی میں بھی عجیب و غریب قسم کے غیر عقلی، غیر منطقی اور قانون سے ہٹ کر دلیل پیش کرکے اپنی لاعلمی کو محبت کا نام دیکر خوش ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں سیاسی اصلاحات کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عوام کی مرضی کے بغیر 28 اپریل 1949ء کو اُس وقت کی کشمیری قیادت کے زیر دستخطی گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے رائے شماری تک وفاق پاکستان کے سپرد کرنے تک کے بعد پہلی بار 1961ء میں سیاسی نظام کی بنیاد رکھ کر پہلی مرتبہ انتخابات کروائے گئے۔ اسی طرح 1979ء میں پہلی مرتبہ شمالی علاقہ جات ایڈوائزری کونسل تشکیل دی گئی۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات لاتے ہوئے گلگت بلتستان کو الگ الگ اضلاع کا درجہ دیا اور ایف سی آر اور ایجنسی نظام ختم کر کے لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا۔ 1972ء اور 1974ء کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کا خود دورہ کیا اور بھرپور عوامی مطالبات پر ضلع دیامر، ضلع غذر اور ضلع گانچھے کا قیام عمل میں لایا اور گلگت بلتستان کی قومی جماعتوں کو ختم کرکے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 1977ء میں جب پاکستان میں مارشل لاء لگایا گیا تو متنازعہ گلگت بلتستان کو کشمیر سے ہٹ کر مارشل لاء کا پانچواں زون قرار دے کر یہاں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ 1979ء میں گلگت بلتستان میں ناردرن ایریاز لوکل گورنمنٹ آرڈر نافذ کیا گیا۔ اسی طرح 1984ء میں گلگت بلتستان سے تین افراد کو پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ میں مبصر نامزد کیا گیا۔ 1991ء میں پہلی بار ناردرن ایریاز کونسل میں خواتین کے لئے دو نشستیں مختص کئے جانے کے باعث ارکان کی تعداد سولہ سے بڑھ کر اٹھارہ ہو گئی۔

1994ء میں شہید بےنظیر بھٹو نے ایک پیکج دیا، جس کے تحت پہلی مرتبہ ناردرن ایریاز کونسل کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے اور ارکان کونسل کی تعداد کو سولہ سے بڑھا کر 26 کر دیا گیا، جس کے تحت غذر اور گانچھے کے اضلاع کو تین تین جبکہ دیگر تین اضلاع اسکردو، گلگت، دیامر، کو چھے چھے سیٹیں دی گئیں۔ گلگت بلتستان کے وفاقی وزیر کو چیف ایگزیکٹو بنایا گیا اور ناردرن ایریاز کونسل سے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو اور پانچ مشیر منتخب کئے گئے۔ عدالتی اصلاحات میں ایک چیف کورٹ کا اضافہ کیا گیا جو ایک چیئرمین اور دو ممبران پر مشتمل تھی۔ اسی طرح ایک اور پیکج معرکہ کارگل کے دوران 28 مئی 1999ء و سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دیا گیا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم جاری کیا کہ وہ شمالی علاقہ جات کے عوام کو بنیادی حقوق فوراً فراہم کرے اور حکومت کا اختیار وہاں کے منتخب نمائندوں کے سپرد کیا جائے اور بنیادی حقوق کے نفاذ کے لئے آزاد عدلیہ قائم کی جائے۔ وفاقی حکومت نے اکتوبر 1999ء کو سیاسی، عدالتی اصلاحاتی پیکج کا اعلان کیا لیکن وہ تمام حقوق نہیں مل سکے، جسکا سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا (آج بھی وہ کیس زیر سماعت ہے)۔ جس کے مطابق ناردرن ایریاز کونسل کو قانون ساز کونسل کا درجہ دے دیا گیا۔ کونسل کو 49 شعبوں میں قانون سازی کا اختیار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ایک اپیلٹ کورٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ جبکہ کونسل میں خواتین نشستوں کو 2 سے بڑھا کر5 کر دیا گیا۔ تیسرا پیکج صدر مشرف کے دور میں مرحلہ وار آیا۔ جس میں پہلے پانچ سال کے دوران 1999ء سے 2004ء تک ترقیاتی فنڈ کو 86 کروڑ سے بڑھا کر ساڑھے چار ارب کردیا گیا۔ جبکہ اکتوبر2003ء میں کونسل کے لئے ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ دیا گیا۔ 2004ء میں لیگ فریم ورک آرڈر میں ترمیم کے ذریعے قانون ساز کونسل میں سے 6 خواتین اور پہلی مرتبہ6 ٹیکنو کریٹ کی نشستیں دی گئیں، جس سے ارکان کونسل کی تعداد 26سے بڑھ کر 36 ہو گئی اور ضلع دیامر کے سب ڈویژن استور کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی جعرافیائی اہمیت کے پیش نظر2007ء میں 32 سال بعد کونسل کو ورک آرڈر ختم کرکے ناردرن ایریاز گورننس آرڈر نافذ کیا گیا۔ جس کے تحت قانون ساز کونسل کو اسمبلی کا درجہ دیا گیا۔ سپریم اپیلٹ کورٹ قائم کیا گیا اور وفاقی وزیر کو چیئرمین اور ڈپٹی چیف کو چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دیا گیا۔

چوتھی بار ستمبر 2009ء میں گلگت بلتستان (ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر جاری کیا جس کے تحت گلگت بلتستان کو چار صوبوں والے ملک کا پانچواں بے اختیار وزیراعلٰی اور گورنر نصیب ہونے کے ساتھ ساتھ شمالی علاقہ جات کا نام پہلی بار تبدیل کرکے گلگت بلتستان کے نام سے اس خطے کو شناخت ملی جو کہ اس خطے کی عوام کا دیرنیہ مطالبہ تھا۔ اسی طرح اس پیکج میں سیاسی خودمختاری کا نعرہ لگایا لیکن عملی طور پر آج بھی گلگت بلتستان کے حوالے سے اہم فیصلے ایک غیر منتخب غیر مقامی وزیر اور غیرمقامی بیوروکریٹس کرتے ہیں۔ اُس پیکج میں گلگت بلتستان کیلئے گورنر اور وزیراعلٰی کا انتخاب ہوا اور وزیراعلٰی کی معاونت وزیراعلٰی کو دو مشیر اور پارلیمانی سیکرٹری مقرر کرنے کا اختیار بھی دیا گیا۔ گورنر کا تقرر وزیر اعظم پاکستان کی مشاورت سے صدر پاکستان کرتے ہیں جبکہ منتخب اسمبلی کو وزیراعلی منتخب کرنے کا اختیار دیا۔ قانون ساز اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد 38 ہو گی۔ جس میں سے 24 براہ راست منتخب ہوںگے جبکہ سات سات نشستیں، خواتین اور ٹیکنو کریٹس کی ہوں گی جس میں ہر ضلع کی نمائندگی شرط ہے اور جن امور پر قانون ساز اسمبلی قانون سازی کر سکتی ہے۔ ان کی تعداد 49 سے بڑھا کر 61 کر دی ہے۔ کشمیر کونسل کی طرز پر گلگت بلتستان کونسل قائم کیا گیا جس کے چیئرمین وزیر اعظم پاکستان گورنر اُس کے وائس چیرمین وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کو بھی اس کے ممبر ہونے کا اختیار دیا۔ اسکے علاوہ اور بھی کئی اہم شقیں موجود ہیں مگر اس پیکج سے بھی گلگت بلتستان کے عام عوام کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی، معاشرتی ترقی اور تعمیر کی ایک جھلک بھی نظر نہیں آئی بلکہ یہاں کرپشن، اقرباء پروری کی ایک نئی تاریخ رقم ہوگئ، تعلیم نظام کا بیڑا غرق ہوگیا، نوکریوں کی بولی لگ گئی۔ گلگت بلتستان کی متازعہ حیثیت پھر بھی برقرار ہے مگر دیگر تین تین ریجن کی طرح متنازعہ حیثیت پر حقوق ملنے سے ناکام رہے، جس کے سبب اس خطے میں انوسٹمنٹ اور صنعتوں کا قیام آج بھی ناممکن ہے۔

وفاق میں پیپلزپارٹی کا سورج غروب ہوتے ہی گلگت بلتستان میں ایک مرتبہ پھر حقوق دلانے کے نعروں میں تیزی آگئی اور مسلم لیگ نون کو پہلی بار گلگت بلتستان میں حکومت کرنے کا موقع ملا اور یہ موقع کیا ملنا تھا کہ وزیراعلٰی حفیظ الرحمٰن نے ماضی کے وہ تمام انتقام سیاسی طاقت کا استعمال کرکے لینے شروع کر دیئے، متنازعہ حیثیت کی بنیاد پر حقوق مانگنا ایک طرح سے جرم بلکہ ملک سے غداری ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، یہاں تک کہ شائد دنیا کی تاریخ میں پہلی بار بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت مقدمے درج ہوئے، فورتھ شیڈول کو سیاسی انتقام کے طور پرآج بھی خوب استعمال کیا جارہا ہے، گلگت بلتستان کی کئی نامور غیر سیاسی اور سماجی خدمتگار علمائے کرام کو مسلم لیگ نون کی حکومت نے دہشتگرد بنا کر فورتھ شیڈول میں ڈال دیا۔ یوں حفیظ الرحمٰن کی حکومت گلگت بلتستان کیلئے ایک طرح سے آمریت ثابت ہوئی اور لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ جو کچھ ضیاءالحق کے دور میں پاکستان میں ہوتا تھا وہی کچھ حفیظ الرحمٰن نے گلگت بلتستان میں سی پیک بچانے کے نام پر کیا ہے، لیکن وہ سی پیک میں گلگت بلتستان کو حقوق نہیں دلا سکے۔ البتہ اُس آڑ میں گلگت بلتستان میں بنیادی حقوق کی مطالبے کیلئے کرنے والے سیاسی جلسوں اور عوامی احتجاج کو بھی بھارت نوازی سے جوڑا گیا، جنہوں نے اس خطے کو بھارت کی جھولی میں جانے سے روکا تھا، اُن کی اولاد تک کو غدار ثابت کرنے کی ناداں کوشش کی گئی۔ یوں اکہتر سالہ تاریخ میں جہاں گلگت بلتستان سیاسی حقوق اور معاشی مسائل سے دوچار ہے، وہیں 2013ء میں مسلم لیگ نون کی حکومت آنے اور حفیظ الرحمٰن کے وزیر اعلٰی بننے سے اس خطے کو کالونی بنانے کی راہ مزید ہموار ہو گئی۔

گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا دعوٰی چونکہ مسلم لیگ نون نے بھی کیا تھا لہٰذا نواز شریف کا کئی بار گلگت چکر لگانے کے بعد گلگت بلتستان کی سیاسی محرومیاں ختم کرنے کیلئے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دی گئی جو سرتاج عزیز کمیٹی کے نام سے جانے جاتے ہیں اور بدقسمتی سے اُس کمیٹی میں گلگت بلتستان کے کسی عوامی نمائندے کو نمائندگی یا یہاں کی اسمبلی سے رائے تک لینے کی زحمت نہیں کی گئی۔ یوں اُس کمیٹی کی سفارشات پر گلگت بلتستان سیلف ایمپاورمنٹ آرڈر 2009ء کو کالعدم قرار دیکر 27 مئی کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گلگت آکر گلگت بلتستان آرڈر 2018ء مسلط کردیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جب یہ حکم نامہ نافذ کرنے گلگت آئے تو عوام نے شدید احتجاج کیا، یہاں تک کہ اُن کے ہیلی کاپٹر تک پر جوتے پھینکے گئے، عوامی ایکشن کمیٹی نے سڑکوں پر جبکہ متحدہ اپوزیشن نے قانون ساز اسمبلی کے اندر خوب ہنگامہ آرائی کی، لیکن اُنہوں نے نہ عوامی احتجاج کی پرواہ کی، اور نہ ہی متحدہ اپوزیشن کی کوئی بات سُنی بلکہ یہاں تک کہاکہ اتنا اچھا پیکج بنایا ہے جو عوام اور اسمبلی میں بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے یوں اُس آرڈر گلگت بلتستان کے عوام ایک طرح سے 2018ء کا ایف سی آر سمجھتے ہیں، کیونکہ اُس آرڈر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور ایک غیرمنتخب وزیراعظم کو گلگت بلتستان کے بادشاہ کے طور پر اختیارات دیئے گئے ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین مولانا سلطان رئیس کو اسی غصے کی پاداش میں گذشتہ روز دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے، اُنکا جرم یہ نہیں کہ اُنہوں نے تحریک لبیک والے مولویوں کی طرح آرمی چیف اور چیف جسٹس کے خلاف فتوٰی جاری کیا یا این ایل آئی کے جوانوں کو بغاوت پر اُکسایا ہو، کسی قسم کی دہشتگردی میں ملوث ہوں، بلکہ اُنکا جرم نئی نسل کو شعور اور آگاہی دینا اور گلگت بلتستان سے مسلکی سیاست کو ختم کرکے بین المسالک ہم آہنگی کیلئے ایک فضاء قائم کرتے ہوئے اکہتر سالوں سے منتشر عوام کو قومی ایجنڈے پر اکھٹا کرنا ہو سکتا ہے۔

اب چونکہ گلگت بلتستان کی اکہتر سالہ محرومیوں کا مقدمہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے اور اس حوالے سے دو سماعتیں باقاعدہ طور پر ہو چُکی ہیں، اس دوران بھی وفاق کیجانب سے سپریم کورٹ میں گلگت بلتستان کے حوالے سے معاملے کو ٹالنے کی مسلسل کوششیں کی گئی ہیں، لیکن گلگت بلتستان کے عوام کی نظریں اس وقت سپریم کورٹ کے لارجر بنچ اور چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی طرف ہیں، کیونکہ اُنہوں نے گلگت بلتستان کو حقوق دینے کا وعدہ کیا ہے اور وفاقی حکومت کو بھی 3 دسمبر تک مکمل رپورٹ پیش کرنے میں ناکامی کی صورت میں فیصلہ سُنانے کی دھمکی بھی دی ہے جو کہ گلگت بلتستان کے عوام کیلئے ایک اُمید کی کرن سے کم نہیں۔ گلگت بلتستان میں عوامی سطح پر اس حوالے سے کیا سوچتے ہیں؟ مختصر جائزہ لیں تو جیسے خود چیف جسٹس نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام لاہوریوں سے زیادہ پاکستان سے پیار کرتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے لیکن وفاقی حکمرانوں نے اس پیار کو آج تک جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔ یہاں کے عوام پانچواں آئینی صوبے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں لیکن اب چونکہ عوام کو معلوم ہو گیا ہے مسئلہ کشمیر پر مملکت پاکستان کی پالیسی اور بین الاقوامی قوانین کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن نہیں، لہٰذا مسئلہ کشمیر کو خراب کئے بغیر گلگت بلتستان کے عوام کو قومی شناخت دینا خاص طور پر معاشی بدحالی کے شکار اس خطے میں معاشی انقلاب لانے کیلئے جامع منصوبہ بندی وقت کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان میں سیاسی او ر مذہبی مراعات یافتہ طبقے کے علاوہ اب ہر شخص یہ کو معلوم ہے کہ نعرہ لگانا آسان ہے لیکن اُس نعرے کی بنیاد پر حقوق کا حصول ایک مشکل عمل ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی اثاث ہے اور کشمیریوں کی قربانیوں کے حوالے سے مملکت پاکستان کا موقف بھی دنیا کے سامنے واضح ہے۔ ایسے گلگت بلتستان جو کہ ریاست جموں کشمیر کا 65 فیصد رقبہ ہے، کو کاٹ کر بغیر کسی اقوام متحدہ کی موجودگی اور رائے شماری کے پاکستان میں شامل کرنا عالمی سطح پر مملکت پاکستان کیلئے بہت زیادہ مسائل پیدا کر سکتا ہے اور اس حوالے سے دفتر خارجہ کئی بار اعلان بھی کر چُکا ہے، دفتر خارجہ یہاں تک کہہ چُکا ہے کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے اور اس خطے کی قسمت کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قوانین کے مطابق ہی ہوگا۔

اس حوالے سے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کئی بار گلگت اور اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرکے گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کو غلامی کا طوق قرار دیکر آئینی صوبہ ناممکن ہونے کی صورت میں کشمیر طرز کے سیٹ اپ کا مطالبہ چُکے ہیں، جس سے مسئلہ کشمیر پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ متحدہ اپوزیشن کئی بار کہہ چُکی ہیےکہ اصلاحاتی آرڈر 2018ء کے تحت تمام تر اختیارات اور تمام انتظامی اور آئین سازی کے اختیارات وزیراعظم کے ہاتھوں میں دیکر تمام آئینی اور قانونی تقاضوں کو پامال کرکے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔ اسی طرح عوامی ایکشن کمیٹی کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ گلگت بلتستان کو آرڈرز، پیکیجز، اور گرانٹس پر چلانے کی کوشش کرنے کی بجائے کوئی بھی سیٹ اپ صرف ایکٹ آف پارلیمنٹ، آئین پاکستان میں ترمیم کے ذریعے دیں یا دفاع کرنسی اور خارجہ پالیسی وفاق کے پاس رکھ کر مسئلہ کشمیر کے حل تک کیلئے وفاق سے تمام اختیارات گلگت بلتستان منتقل کریں۔ گلگت بلتستان میں سیٹ سبجیکٹ قانون کی خلاف ورزیوں کو روکیں، یہی مطالبہ پاکستان پیپلزپارٹی کا بھی ہے، گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلزپارٹی کے صدر امجد حسین ایڈوکیٹ بھی مسئلہ کشمیر کے حل تک کیلئے سیٹ سبجیکٹ رول کے ساتھ کشمیر کے طرز پر عبوری بااختیار نظام کا مطالبہ کرچُکے ہیں۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان کی تمام طلبہ تنظیموں یوتھ اور دیگر سیاجی سماجی رہنماوں اور سرکاری نوالہ نہ کھانے والے اہل قلم اور دانشوروں کا بھی یہی مطالبہ ہے۔ اب اس وقت گیم سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے کہ فیصلہ مسئلہ کشمیر کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی اور دفتر خارجہ کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے UNCIP کے ریزولیشن کے تحت گلگت بلتستان کی اکہتر سالہ محرومیوں کو ختم کرنے اور اس خطے کو قومی شناخت دلانے میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 762287
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش