2
2
Wednesday 21 Nov 2018 21:48

استشراقِ سیاسی و استعماری

استشراقِ سیاسی و استعماری
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

تعریف کے بعد تطبیق کا مرحلہ ہے، علمی دنیا میں جب کوئی محقق اپنے سکول آف تھاٹ کے مطابق کسی چیز کی علمی تعریف کر دیتا ہے تو اس کے بعد اس تعریف کو خارج میں تطبیق دینے، اس کی انواع و اقسام کو دریافت کرنے اور علمی انکشافات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہم نے ایک کالم سے مستشرقین کی بحث کا آغاز کیا تھا، اس بحث کے آغاز کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے اردگرد پیش آنے والے واقعات کے پس منظر میں جھانکنے اور ان کی فکری بنیادوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ چونکہ کہیں پر بھی نظریاتی انحراف، دہشت گردی، اغوا، ٹارگٹ کلنگ، تکفیر اور خودکش دھماکوں کی نوعیت قدرتی آفات یعنی زلزلے اور سیلاب کی مانند نہیں ہے، بلکہ جہاں پر بھی نظریاتی انحراف، دہشت گردی، اغوا، ٹارگٹ کلنگ، تکفیر اور خودکش دھماکے ہوتے ہیں، ان کے پیچھے ایک فعال، مدبر اور منصوبہ ساز انسانی دماغ اپنا کام کر رہا ہوتا ہے۔

موجودہ ملکی صورتحال کے تناظر میں گذشتہ کالم میں ہم نے اپنے مکتب (School of Thought) کے مطابق مستشرقین کی تعریف میں یہ کہا تھا کہ ہر وہ غیر مسلم جو اسلام کے بارے میں تحقیق کرتا ہے، اسے مستشرق کہتے ہیں۔ اس تعریف کے بعد قارئین کے ذہنوں میں یہ سوالات ابھر سکتے ہیں کہ عصر حاضر میں مستشرقین کہاں کہاں پائے جاتے ہیں؟ مستشرقین کی کون کون سی انواع و اقسام ہیں؟ کیا مغربی ممالک اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں میں بھی مستشرقین موجود ہیں؟ کن شعبوں میں مستشرقین کا کیا کردار ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے اپنے قارئین کی اس ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور مستشرقین کے بارے میں تحقیق کرنے والے ادارے گروہ قرآن و مستشرقان (امام خمینیؒ یونیورسٹی قم) سے اس بارے میں مزید سوالات کئے، اس کے علاوہ قبلہ ڈاکٹر مجتبیٰ زمانی اور ڈاکٹر محمد جواد اسکندرلو سے بھی اس طرح کے سوالات پوچھے، تاکہ اس موضوع کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی اپنے قارئین تک پہنچائی جا سکے۔

محقیقین کی تحقیقات اور ماہرین کی آراء کے مطابق مغربی ممالک اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے وہ کارندے جو اسلامی ممالک کو کمزور کرنے نیز مسلمانوں میں فرقہ واریت اور شدت پسندی ایجاد کرنے کے لئے اسلامی ممالک اور مسلمانوں کی معلومات کی جمع آوری اور جاسوسی کرتے ہیں اور ان کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں مسلمانوں کے خلاف منصوبہ سازی کی جاتی ہے، انہیں مستشرقین سیاسی و استعماری اور اس شعبے کو استشراق ِ سیاسی و استعماری کہتے ہیں۔ اگر قارئین کو یاد ہو تو گذشتہ کالم میں ہم نے مستشرقین کی تقسیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجموعی طور پر تین طرح کے مستشرقین ہیں:
1۔ عیسائی مبلغین
2۔ مختلف حکومتوں کے جاسوس
3۔ سچائی کی کھوج لگانے والے
یہ جو دوسرے نمبر پر مختلف حکومتوں کے جاسوس ہم نے ذکر کئے ہیں، انہیں مستشرقین سیاسی و استعماری کہتے ہیں۔ ایسے مستشرقین، میڈیا، انٹرنیٹ، سفارتخانوں، خفیہ ایجنسیوں، ریڈیو، ٹیلی ویژن، نیوز ایجنسیز اور اخبارات و مجلات کے ذریعے اپنی فعالیت انجام دیتے ہیں۔ ان کی فعالیت کے بارے میں مصری محقق محمد غزالی اپنی کتاب دفاع عن العقیدہ  والشریعۃ ضد مطاعن المستشرقین کے صفحہ3 پر لکھتے ہیں کہ جس طرح توپ خانہ، دور سے گولہ باری کرکے پیادہ فوج کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے، اسی طرح یہ مستشرقین،  اسلامی معاشرے کے اذہان کو استعمار کے داخلے و نفوذ کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔

ہم آپ کو یہ بھی یاد دلاتے چلیں کہ گذشتہ ہفتے برادر اسد عباس نے اپنے کالم میں مغربی ذرائع ابلاغ کے بارے میں لکھا تھا کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے انداز کو سمجھنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے۔ وہ لوگ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اپنی خبروں کو ایسا رنگ دیتے ہیں، جس سے ادارہ خبر دیتا ہوا ہی محسوس ہوتا ہے، تاہم وہ رائے عامہ کے استوار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہمارے معاشروں میں نفوذ کے سبب اب جنگ فقط ہتھیاروں کی جنگ نہیں رہ گئی۔ یہ جنگ، جنگ نرم میں بدل چکی ہے۔ اسی حقیقت کو  حضرت امام خمینی ؒ نے اس طرح بیان فرمایا تھا:"امریکہ یہاں پر فوجی نہیں لائے گا، امریکہ یہاں لکھاری لے کر آئے گا، امریکہ بات کرنے والے اور بولنے والے لے کر آئے گا، امریکہ ہمارے ملک کو درہم برہم کرنے کے لئے ان لوگوں کو بھیجے گا کہ جن کی اس نے کئی سال تربیت کی ہے۔ امریکہ فوجیوں سے بدترین لوگوں کو یہاں بھیجے گا، یہ فوجیوں سے بدترین ہیں۔"[1] مندرجہ بالا سطور سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ استشراقِ سیاسی و استعماری  ایک معاشرتی ناسور ہے، جس کا مقابلہ اس کی شناخت اور اس کے بارے میں علم و آگاہی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سخنرانی امام برای دانشجویان دانشگاہ اصفھان،(صحیفہ نور، چاپ وزارت ارشاد، سال ۷۱،ج ۶، ص ۲۳۳
خبر کا کوڈ : 762597
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Atiqa mohsin
Pakistan
نادر معلومات اور سب کے لئے مفید تجزیہ۔ البتہ ان افکار کو عام کرنے اور عوام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
United Kingdom
ہفتہ وحدت میں ایسے موضوعات بہت مفید ہیں۔ ہمیں فرعی اختلافات میں الجھنے کے بجائے دین اسلام کے حقیقی دشمنوں، ان کے اداروں، جاسوسوں اور ان کی سازشوں کو پہچاننا چاہیے۔ ایسے موضوعات کا اردو میں فقدان ہے۔ بصیرت افزائی کے لئے عوام کے سامنے ایسی گفتگو ضروری ہے، ورنہ صرف خبریں سننے اور ہاتھ ملنے کا آئندہ بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
ہماری پیشکش