0
Friday 3 Jun 2011 15:25
حضرت امام خمینی رہ کی 22 ویں برسی کے موقع پر:

سپاہی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں

سپاہی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں
تحریر: مہدی محمدی
اس سال 4 جون (امام خمینی رہ کی برسی) کا دن نئے معانی کا حامل ہے اور گذشتہ سالوں سے کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ گذشتہ تمام سالوں میں صورتحال ایسی تھی کہ 4 جون کے موقع پر پوری دنیا خاص طور پر ایران میں امام خمینی رہ سے عقیدت رکھنے والے لاکھوں افراد یہ محسوس کرتے تھے کہ انہین اپنی جان سے زیادہ عزیز شخصیت کے ساتھ اظہار محبت کی ایک اور فرصت مل گئی ہے۔ یہ محبت خاص طور پر جوانوں اور نوجوانوں کے دلوں میں کہیں زیادہ ہے جنہوں نے حتی امام خمینی رہ کو دیکھا تک نہیں ہے۔ اسی وجہ سے جب امام خمینی رہ سے عقیدت رکھنے والے افراد پر ایک نظر دوڑاتے تو دیکھتے کہ ان میں اکثریت ایسے جوانوں کی ہے جو نہ انقلابی سابقے کی بنیاد پر بلکہ اپنے دل و جان میں گزرنے والے حالات کی وجہ سے اکثر انقلاب اور خط امام خمینی رہ کا پیروکار ہونے کے داعی افراد سے کہیں زیادہ انقلاب کے شیدایی اور امام خمینی رہ کے بیان کردہ اصول اور مبانی کے پابند ہیں۔ اس سال امام خمینی رہ سے اظہار محبت و ارادت سے بڑھ کر ہمیں کچھ دیکھنے کو ملے گا۔
ایرانی عوام اس سال ایسے حال میں امام خمینی رہ کے مزار کی جانب رواں دواں ہیں جب مشرق وسطی کے مختلف حصوں میں رہنے والے افراد کی بڑی تعداد امام خمینی رہ کی برسی میں شرکت کرنے اور ان سے اظہار ارادت کرنے کی آرزومند ہے۔ خمینی کبیر رہ 4 جون کو ایسے مہمانوں کی میزبانی کریں گے جو نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ مشرق وسطی میں انقلاب برپا کرنے والے اور امام خمینی رہ کی راہ میں جان نچھاور کرنے والے لاکھوں مرد و خواتین کی نمائندگی بھی کر رہے ہیں۔
جس دن امام خمینی رہ نے یہ کہا تھا کہ ایران میں برپا ہونے والا اسلامی انقلاب ایران کی حدود تک باقی
نہیں رہے گا بلکہ پوری امت مسلمہ کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا شاید اکثر افراد یہ سوچتے ہوں کہ انکا یہ جملہ یا تو صرف ایک جوشیلہ نعرہ ہے اور یا پھر امام خمینی رہ ایسے دور کے زمانے کی بات کر رہے ہیں جسکے محقق ہونے کی فی الحال امید نہیں رکھنی چاہئے۔ خاص طور پر امریکی تو اس بات کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور اب بھی انہیں یقین نہیں آتا کہ ایسے مرد و خواتین جو کچے گھروں اور مٹی کی گلیوں سے ننگے پاوں اور خالی ہاتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ان میں اس قدر طاقت ہو کہ انکے مفادات پر مبنی پیچیدہ اور جدید نیٹ ورکس کو نابود کر دیں اور اسکی حفاظت پر مامور افراد کو اتنی کم مدت میں کہ انہیں اسکا مقابلہ کرنے کی فرصت بھی نہ مل سکے، مسند قدرت سے نیچے اتار پھینکیں گے۔
وہ سوال جسکا جواب امریکیوں کو دینا چاہئے لیکن وہ اسکا جواب دینے سے قاصر ہیں یہ ہے کہ یہ عظیم طاقت اور توانائی کہاں سے آئی ہے؟۔ اس عظیم سیلاب کا منشاء اور منبع جو مشرق وسطی میں انکے تمام مفادات کو بہا لے گیا ہے اور تیزی سے مشرق وسطی سے بھی آگے بڑھتے ہوئے یورپ کے مرکز تک آن پہنچا ہے، کیا ہے؟۔ آیا ان تمام عظیم تبدیلیوں کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایک تیونسی جوان نے بن علی کے خاندان کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر خود کو آگ لگا لی؟۔ کیا ایسا چھوٹا سا واقعہ اس قدر عظیم تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے؟۔ جو چیز واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے وہ یہ کہ امریکیوں نے اپنا سر برف کے اندر چھپا رکھا ہے تاکہ حقیقت کو نہ دیکھیں۔ حقیقت کیا ہے؟۔ حقیقت وہی ہے جو اسرائیل کے مشکلات کا شکار وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے دیکھی ہے:
"ہم خمینی کی آواز کو اپنی سرحدوں کے قریب سے سن رہے ہیں"۔
ایک وقت وہ تھا جب امریکہ اور اسرائیل اس
وجہ سے پریشان تھے کہ تہران میں کچھ ایسے افراد موجود ہیں جو انکے مفادات کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ البتہ ایسا ہی تھا اور گذشتہ سالوں میں مغربی دنیا کے کان کھینچنے کیلئے انتہائی پیچیدہ اور دقیق منصوبے بنائے بھی گئے اور آئندہ بھی بنائے جائیں گے۔ لیکن وہ یہ توقع نہیں رکھتے تھے کہ ایسا وقت بھی آن پہنچے گا جب قاہرہ کی گلیوں، کرانہ باختری، سعودی عرب کی مشرقی سرحدوں، صنعا کے مرکز اور اردن کے مختلف حصوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اسکے بارے میں سوچ کر انکی سانسیں رک جائیں گی اور پھر ایران کے ساتھ ٹکر لینے کی سوچ تک انکے ذہن سے پرواز کر جائے گی۔
اس جدید دور کا سرآغاز کیا ہے اور کہاں ہے؟۔ امام خمینی رہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے سپاہی گہوارے میں ہیں۔ بعض افراد یہ سن کر سوچتے تھے کہ یہ جملہ صرف اس نسل سے متعلق ہے جو 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب برپا کرنے میں پیش پیش تھی۔ لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ جب تک امام خمینی رہ زندہ رہے گہواروں کے اندر سپاہیوں کی تربیت کا کام جاری رہا اور یہ کام کبھی بھی اختتام پذیر نہیں ہو گا۔ درست انہیں دنوں جب امریکی ایران کے خلاف جنگ کے شعلے بھڑکانے میں مصروف تھے، ایران پر اقتصادی پابندیاں لگائے ہوئے تھے، ملک کی معروف اور بڑی شخصیات کو قتل کروا رہے تھے، ایران کو گوشہ گیر اور منزوی کرنے کیلئے ہر طرح کی کوششوں میں مصروف تھے، ایران کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے تھے، مختصر یہ کہ ہر ذریعے سے ایران کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف تھے، اس تمام مدت میں مغربی دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ امام خمینی رہ کا دور ختم ہو چکا ہے جیسا کہ ملک کے اندر انکے پٹھو بھی یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ امام خمینی رہ کے تفکرات
کو اب میوزیم کا حصہ بن جانا چاہئے۔ لیکن یہ سب غلطی کر رہے تھے۔ گہواروں کے اندر ایسی نسل کی تربیت جاری تھی جو پکا فیصلہ کر چکی تھی کہ کس چیز کو زندگی کا حصہ بنائے اور کس چیز کو میوزیم کی نذر کر دے۔ آج وہ نسل اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ وہ نسل جو امریکیوں پر یہ ثابت کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے کہ اب تک جو حالات سامنے آئے ہیں وہ آنے والے حالات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
سعودی عرب کے اندر، جو خطے میں مغربی مفادات کا ٹھیکے دار اور امریکی اقتصاد کی رگوں میں خون سپلائی کرنے والا ملک ہے، ایسی نسل معرض وجود میں آ چکی ہے جو ملک پر Fossilized antiques کی حکومت باقی رہنے کو ہر گز قبول نہیں کرتی۔ ایسی حکومت جو ملکی دولت اور وسائل سے یا تو اپنا پیٹ اور جیبیں بھرنے اور یا پھر انہیں امریکہ کی گود میں ڈالنے میں مصروف ہے۔ یمن (وہ ملک جسے امریکی چھوٹا اور انتہائی پراہمیت خطہ کہتے ہیں) میں بھی غیرت مند مرد و خواتین انسانی احترام و حقوق کے احیاء کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور امریکی نوکر کو حکومت سے ہٹانے تک پیچھے ہٹنے یا تھک جانے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے۔ بحرین میں، جہاں اہل تشیع کی غیرت اور شجاعت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے کے مسلمانوں کی آہنی روح کی عکاسی کرتی ہے، ابھی ابتدا ہوئی ہے اور اپنے شہری حقوق کے حصول تک یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ لیبیا میں ایسے جوان سامنے آئے ہیں جو اپنی تاریخ کے خونریز ترین ڈکٹیٹر سے ذرہ بھر خوف نہیں کھاتے اور اسکے ہرکاروں کی جانب فائر کرنے والی ہر گولی کے ساتھ "اللہ اکبر" کا نعرہ لگاتے ہیں۔ مصر میں عوام غم زدہ لیکن امیدوار ہیں۔ وہ ہر روز نئے جوش اور ولولے سے ان قوتوں کا مقابلہ کر رہے ہیں جو انکے انقلاب کو اغوا
کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یہ تمام حالات اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ امریکہ امام خمینی رہ کے پیغام کو دنیا بھر کے انسانوں کے دلوں میں اترنے سے روکنے میں ناکام رہا ہے۔ امام خمینی رہ کا پیغام یہ تھا کہ اٹھ کھڑے ہوں اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں، خداوند عالم نے مثبت نتائج کی ضمانت فراہم کی ہے۔ اب جبکہ وہ پیغام عالمی سطح پر عوامی اقدامات میں تبدیل ہو چکا ہے اور امام خمینی رہ کے نظریات عوامی تحریکوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں امریکہ خود کو انکے مقابلے میں بالکل بے بس اور لاچار محسوس کر رہا ہے۔
یہ جملہ معروف ہے کہ امام خمینی رہ وقت کے بدن میں الہی روح تھے۔ اس روح کی تجلی کا مشاہدہ جب وہ مومنین کو کفار کے سامنے ڈٹ جانے پر اکساتی ہے اور اس جدوجہد کے آخری لحظے تک انکی جان اور ایمان کو تروتازہ رکھتی ہے حقیقتا حیرت آور اور لذت بخش ہے۔ امریکی آج ایسی نسل سے روبرو ہیں جو امام خمینی رہ کے اس فرمان کو کہ ہماری ذمہ داری اپنا وظیفہ انجام دینا ہے نہ نتیجہ حاصل کرنا، اپنی روح میں اتار چکی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ نسل اس وقت اپنا وظیفہ انجام دیتے ہوئے وہی لذت محسوس کرتی ہے جو نتیجہ حاصل کرتے وقت محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نسل کا ظاہر ہونا اور سیاست کے میدان پر مسلط ہونا وہ سب سے بڑا خطرہ ہے جس سے عالمی استکباری قوتیں اپنی کئی سو سالہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ روبرو ہوئی ہیں۔ یہ موجودہ نسل انہیں مرد و خواتین کی تکامل یافتہ شکل ہے جنہوں نے انتہائی گمنامی اور مشقت میں ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے وظیفے پر عمل کیا تھا اور انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ ایک دن انکا عمل عالمی سطح پر ماڈل بن جائے۔
دلچسپ منظر
یہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں امریکی کس طرح اس عظیم توانائی کو ظاہر ہونے سے روکنے یا اسے اپنی اصلی راستے سے منحرف کرنے کیلئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں تاکہ انکے مفادات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ وہ ایک دفعہ مالی امداد کی بات کرتے ہیں اور خود سے یہ نہیں پوچھتے کہ اگر انقلاب کا راستہ اختیار کرنے والے عوام کا مسئلہ صرف روٹی ہوتا تو پھر تیونس یا سعودی عرب میں جہاں عوام کا مسئلہ بھوک نہیں ہے کیوں حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں؟۔ بعض اوقات وہ یہ کہتے ہیں کہ خطے کی عوام کا مسئلہ "آزادی" ہے اور یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ حکومتوں کو مزید لبرل ہونا چاہئے۔ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ اگر خطے کی عوام آزادی کے درپے ہیں بھی تو وہ امریکہ سے آزادی اور امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی آزادی ہے۔ وہ امریکہ جو نہ صرف انکی دنیا بلکہ انکے دین اور انکی آخرت پر بھی حملہ ور ہو چکا ہے۔ لیکن مغربی دنیا کی جانب سے دکھائے جانے والے یہ راستے اس شاہراہ کے مقابلے میں جو امام خمینی رہ اور انکے خلف صالح حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظله العالی نے خطے کی عوام کو دکھائی ہے بیراھے کی مانند ہیں، اور خطے کی عوام اب بیراھے کو اصلی شاہراہ کے نام پر ہر گز قبول کرنے کو تیار نہیں۔
نیا دور آن پہنچا ہے۔ امام خمینی رہ کو خدا سے ملے بیست سالوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، اور انکے عقیدت مند افراد اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انکو صدائیں دے رہے ہیں۔ چونکہ وہ اپنی صداوں کا جواب سن رہے ہیں لہذا اپنے اندر اس قدر حرارت اور توانائی محسوس کرتے ہیں کہ انکی جانیں شعلہ ور ہونے لگتی ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں روکنے سے قاصر ہے۔ ابھی تو عصر خمینی رہ کا آغاز ہے۔
خبر کا کوڈ : 76262
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش