1
0
Friday 23 Nov 2018 14:28

مسنگ پرسنز اور ریاست پاکستان

مسنگ پرسنز اور ریاست پاکستان
تحریر: این اے بلوچ

سماجی عدل و انصاف کے بغیر کوئی بھی ریاست قائم رہ سکتی ہے نہ ہی چل سکتی ہے، اسی لئے حضرت علی علیہ السلام نے تاریخی جملے ارشاد فرمائے تھے کہ ’’کفر پر حکومتیں باقی رہ سکتی ہیں لیکن ظلم پر نہیں‘‘، کسی بھی ریاست میں ظلم جب اپنی انتہا کو چھونے لگے، لوگ انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جائیں اور ادارے اپنا کام انجام دینا چھوڑ دیں تو پھر اس ریاست کی بقاء داو پر لگ جاتی ہے۔ پاکستان میں چار دہائیوں سے جاری دہشتگردی اور غلط پالیسیوں نے ریاست کو بہت نقصان پنچایا ہے، امریکی اتحادی بننے اور غلط پالیسیوں کے نتیجے میں 80 ہزار پاکستان شہید ہوئے، ملک میں کلاشنکوف کلچر عام ہوا، منشیات نے معاشرے کو کھوکھلا کیا، لسانی اور فرقہ وارانہ تحریکیں چلنا شروع ہوئیں، بلوچستان میں آزادی کی تحریکیں چلنا شروع ہوگئیں اور ان تحریکون کو روکنے کے لئے انتہا پسند مذہبی تنظیموں کو پرموٹ کیا گیا، یہی وجہ بنی ہے کہ آج بلوچستان آتش فشاں بنا ہوا ہے۔

بلاشبہ سکیورٹی فورسز نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانی دی ہیں اور اس جنگ میں خاطر خواہ کامیابیاں بھی سمیٹی ہیں، لیکن اس جنگ میں عوام پاکستان اور باالخصوص ملت تشیع نے بڑی قربانیاں دی ہیں، ایک اندازے کے مطابق 80 ہزار شہداء میں سے 25 ہزار شہداء ملت تشیع نے دیئے ہیں۔ اب جب ملک بہتری کی طرف گامزن ہے تو ان میں سے کچھ مسائل جو ایک دہائی سے چل رہے ہیں، ان کا خاتمہ اور حل ضروری ہے، مسنگ پرسنز کا معاملہ بہت پرانا اور آج یہ معاملہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ مسنگ پرسنز کے خلاف بلوچ سیاسی قائدین بھی سوال اٹھا رہے ہیں اور ملت تشیع بھی سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ اب جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہم نے دہشتگردی کو شکست دیدی ہے تو پھر مسنگ پرنسز کا معاملہ حل کیوں ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

بلوچ رہنما اور بالخصوص جن کے پیارے جبری طور پر لاپتہ کئے گئے ہیں، وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر ان کے بچوں کا قصور کیا ہے۔؟ اگر کسی نے کوئی ایسا اقدام کیا ہے جو ریاست کی نگاہ میں جرم کے زمرے میں آتا ہے تو اس ملک کی عدالتوں میں لاکر اسے سزا دلائی جائے، لیکن تین تین سال، پانچ سال اور کئی ایک کو تو دس سال گزر گئے لیکن ان کا کچھ اتا پتہ نہیں چل رہا۔ کوئٹہ میں بلوچ خواتین کئی ہفتوں سے سراپا احتجاج ہیں، لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی، حتیٰ کوئی سیاسی رہنما ان کی اشک شوئی بھی کرنے کے لئے تیار نہیں، ایک بہن اپنا نوحہ پڑھتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ’’اگر عوام میں کسی کو ریاست کے اندر ریاست بنانے کا کوئی اختیار نہیں تو پھر ریاست کی سکیورٹی کا ذمہ لینے والی خفیہ ایجنسیاں یا ادارے کیسے خود ساختہ اقدام کرکے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا سکتی ہیں؟، ملک میں قوانین موجود ہیں، عدالتیں موجود ہیں، اگر کسی پر الزام ہے تو اسے سامنے لائیں اور سزا دلائیں۔"

ملت تشیع کے درجنوں افراد بھی اس وقت لاپتہ ہیں، جن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا، ایم ڈبلیو ایم کے رہنما سید ناصر عباس شیرازی نے لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاج سے خطاب میں درست نکتہ اٹھایا کہ ’’اگر کوئی قصوار ہے تو اسے عدالت میں لائیں، اگر عدالتیں ایک وزیراعظم کو گھر بھیج سکتی ہیں تو پھر ایک مجرم کو سزا بھی دے سکتی ہیں، اگر آپ عدالت میں لاپتہ افراد کو پیش نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ عدالتوں اور آئین کو نہیں مانتے۔‘‘ سچ یہ ہے کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کے اہل خانہ روز جیتے اور روز مرتے ہیں، اگر کسی کا بیٹا قتل ہو جائے تو دو چار دن رو کر اس غم کو بھلا دیتا ہے، مگر جو زندہ ہو اور لاپتہ ہو تو اس کے اہل خانہ صبح و شام جیتے اور مرتے ہیں۔ صبح اس امید سے ہوتی ہے کہ آج شائد ان کا لخت گھر پہنچ جائے اور شام اسی غم میں ہوتی ہے کہ آج بھی ان کا لعل گھر نہ آسکا۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے حکومت سے پہلے اس مسئلے کو حل کرنے کا وعدہ کیا تھا، انسانی حقوق کی وزیر محترمہ شیریں مزاری بھی اس مسئلے کے حل میں سنجیدہ نظر آتی ہیں، ہمیں توقع ہے کہ حکومت اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کرے گی۔ شیریں مزاری کے بقول اس پر قانون سازی کرنے کے خواہش مند ہیں، اگر کوئی قانونی سازی درکار ہے تو وہ بھی کریں، مگر لاپتہ افراد کو سامنے لانا وقت کا عین تقاضا ہے۔ ورنہ عام عوام میں ریاست سے اعتماد اٹھ جائے گا، منفی جذبات ابھرنا فطری عمل ہوگا۔ ایسے میں ریاست کو اپنے شہریوں کو باور کرانا ہوگا کہ ریاست ایک ماں جیسی ہے۔ ایسی ماں جو لاشیں نہیں گراتی بلکہ زندگی دیتی ہے۔ یہی چیز حب الوطنی کے جذبات کو پیدا کرتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 762790
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
قم میں ایک خطاب میں راجہ ناصر صاحب نے کہا ہے کہ حکومت مسنگ پرسنز کے حوالے سے آئین سازی کرنے جا رہی ہے، یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ راجہ صاحب سے مزید معلومات لے کر اس موضوع کو مزید اٹھایا جانا چاہیے، تاکہ جلد از جلد اس سلسلے میں کوئی پیشرفت ہوسکے۔
ہماری پیشکش