1
Saturday 24 Nov 2018 15:17

قدس شریف، امت مسلمہ کی وحدت کا مرکز

قدس شریف، امت مسلمہ کی وحدت کا مرکز
تحریر: قاسم غفوری

بیت المقدس یا قدس شریف ایسا نام ہے جو حالیہ چند ماہ میں عالمی سیاسی حلقوں کے کلیدی لفظ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس نام کو یہ اہمیت اور مرکزیت اس وقت حاصل ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل میں اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ یہ ایک ایسا اقدام تھا جس کے بعد خطے میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے گستاخانہ اقدامات کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسرائیلی حکام نے نہ صرف غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر میں اضافہ کر دیا بلکہ فلسطینیوں کے گھر مسمار کرنے کے ساتھ ساتھ بیت المقدس میں مسلمانوں کے داخلے کو بھی شدید محدود کر دیا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کینسٹ میں یہودی ریاست کا قانون منظور ہونے کے بعد حکومت نے اسے لاگو کر دیا اور اب صورتحال ایسی ہے کہ حتی عیسائی بھی بیت المقدس میں مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں اور اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں انہیں بھی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
 
ان تمام حالات کا مجموعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام الہی ادیان کے پیروکاروں کیلئے ایک مقدس مقام ہونے کے ناطے قدس شریف اس وقت غاصب صہیونیوں کے نرغے میں ہے اور کروڑوں دیندار افراد اس مقدس مقام میں مذہبی رسومات اور عبادت انجام دینے سے محروم ہو چکے ہیں۔ ایسے حالات میں اسلامی دنیا اور دیگر الہی ادیان کے پیروکاروں میں اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مزید برآں، کچھ اور اصول بھی ایسے ہیں جن سے موجودہ حالات میں قدس شریف کی حمایت کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کی حیثیت سے قدس شریف کو انتہائی مذہبی تقدس حاصل ہے اور اس کی حمایت درحقیقت دینی اقدار کی حمایت کے مترادف ہے۔ امت مسلمہ کی نگاہ میں قدس شریف کی محوریت میں اتحاد اور وحدت عالمی سطح پر مقدس مقامات کے خلاف توہین آمیز اقدامات کی روک تھام میں موثر واقع ہو سکتی ہے۔ اگر گذشتہ سالوں میں اس وحدت کے ذریعے قدس شریف کی حمایت کا اظہار کیا جاتا تو شاید کسی کو سلمان رشدی کی طرح منحوس کتاب "شیطانی آیات" لکھنے کی جرات نہ ہوتی اور کوئی مغربی روزنامہ اسلام مخالف کارٹون نشر کرنے کی جرات نہ کرتا اور یورپی ممالک میں مساجد اور مسلمانوں کے گھروں کی دیواروں پر نسل پرستانہ چاکنگ دیکھنے میں نہ آتی۔ قدس شریف کی آزادی کیلئے انجام پانے والی جدوجہد درحقیقت ان تمام اسلام مخالف اقدامات کی روک تھام کے خلاف جدوجہد ہے۔
 
دوسرا یہ کہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور بین الاقوامی صہیونزم اسلامی دنیا کے حقیقی دشمن ہیں جو اسلامی اتحاد کو توڑنے اور اسلامی دنیا اور بشریت کے خلاف سازشیں انجام دینے میں مصروف ہیں۔ صہیونی رژیم کی غاصبانہ پالیسیوں میں قدس شریف کی اہمیت کے پیش نظر فلسطین کی حمایت کے ساتھ ساتھ قدس شریف کی حمایت اسرائیل سے مقابلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور یقیناً عالم اسلام کو درپیش مشکلات کے حل میں اس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوں گے۔ تیسرا یہ کہ اگرچہ اسلامی دنیا ڈیڑھ ارب کی آبادی پر مشتمل ہے لیکن وہ عالمی سطح پر موثر سیاسی کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سیاست کے میدان میں عالمی کھلاڑیوں کا تصور یہ ہے کہ جب امت مسلمہ قدس شریف اور فلسطین جو اسلامی دنیا کے بدن کا حصہ شمار ہوتے ہیں، کی آزادی اور حفاظت کیلئے موثر اقدام انجام نہیں دیتی تو وہ کس طرح عالمی سطح پر ایک قابل اعتماد کھلاڑی کے طور پر اپنا کردار نبھا سکتی ہے؟ قدس شریف اور فلسطین کو محور قرار دے کر عالمی سطح پر رائے عامہ کی توجہ بھی حاصل کی جا سکتی ہے جس کا حتمی نتیجہ عالمی سطح پر امت مسلمہ کی پوزیشن مضبوط ہونے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔
 
قدس شریف کو محور و مرکز بنانے کی ضرورت کی چوتھی دلیل یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسئلہ فلسطین کے الجھاو اور اس کے طولانی ہونے میں امریکہ، مغربی ایشیا کی علاقائی طاقتوں اور اسلامی ممالک کا کردار اہم ہے۔ ہم آج شام، عراق، یمن، افغانستان وغیرہ اور اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات میں پائے جانے والے جن بحرانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ امریکہ ان بحرانوں کو ہوا دے رہا ہے کیونکہ اس کی نظر میں یہ بحران فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کو جاری رکھنے کیلئے ضروری ہیں۔ لہذا اس کا مقابلہ یوں ممکن ہے کہ شیعہ اور سنی فلسطین اور قدس شریف کی آزادی کیلئے آپس میں متحد ہو کر یہ ظاہر کریں کہ اسلامی دنیا خود کو درپیش بحرانوں اور امریکی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے آپس میں متحد ہے۔ آج اگر قدس شریف کی حمایت میں آواز اٹھتی ہے تو یقیناً کل اس کا اثر دیگر اسلامی ممالک میں جاری امریکی سازشوں کے نتیجے میں پیدا شدہ بحرانوں پر بھی ظاہر ہو گا۔ یہ اسلامی اتحاد اور وحدت اسلامی ممالک میں امریکی مداخلت کی روک تھام کیلئے بھی موثر ثابت ہو گی۔
 
البتہ اسلامی دنیا کے بعض حلقوں میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ ہمیں مسئلہ فلسطین اور علاقائی ایشوز پر توجہ دینے کی بجائے اپنی اندرونی مشکلات اور مسائل پر توجہ دینی چاہئے اور اپنی توانائیاں اپنے اندرونی مسائل کو حل کرنے پر خرچ کرنی چاہئیں۔ اس سوچ کے حامل افراد اور حلقوں کو اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ جب پوری اسلامی دنیا متحد ہو کر قدس شریف کی آزادی کیلئے اٹھ کھڑی ہو گی تو امریکہ اور اسرائیل کی توانائیاں اپنا دفاع کرنے پر خرچ ہوں گی اور وہ اسلامی ممالک میں سازشیں کرنے سے باز آ جائیں گے جس کے نتیجے میں اسلامی ممالک کی اندرونی مشکلات اور مسائل خودبخود کم ہو جائیں گے۔ لہذا یہ تمام اسلامی ممالک کی مشکلات حل کرنے کا ایک بنیادی اور مشترکہ راہ حل ہے۔ دوسری طرف قدس شریف کو محور و مرکز قرار دینے کا نتیجہ اسلامی اتحاد اور وحدت کی صورت میں ظاہر ہو گا جسے شیطان بزرگ امریکہ سے مقابلے کیلئے بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اگلے مرحلے میں عالمی سطح پر آزاد سوچ رکھنے والی قوتوں کی مدد سے ایک بڑا امریکہ مخالف اتحاد بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 762997
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش