0
Monday 26 Nov 2018 12:10

شان سرور (ص) بزبان حیدر (ع)

حصہ دوم
شان سرور (ص) بزبان حیدر (ع)
تحریر: سید اسد عباس
 
گذشتہ سے پیوستہ
بعثت رسول (ص) علی (ع) کی نظر میں
جیسا کہ قبل ازیں بیان سے واضح ہے کہ امیر المومنین (ع) چاہتے ہیں کہ ہم رسالت (ص) ختمی مرتبت کو الہٰی نظام کے سلسلے کے تسلسل کے طور پر دیکھیں اور یہ جانیں کہ ختمی مرتبت (ص) کس بڑے ہدف کی تکمیل کے لئے دنیا میں تشریف لائے نیز یہ کہ ان کی آمد غیر متوقع نہیں بلکہ بدیہی اور اعلان شدہ تھی۔ جس کے واضح شواہد بیان کئے جا چکے تھے۔ اسی طرح امیر المومنین بعثت رسول (ص) کو بھی ایک خاص انداز سے دیکھتے ہیں۔ وہ بعثت رسول (ص) کے بارے میں فرماتے ہیں: ارسلہ بالدین المشھور والعلم الماثور والکتاب المسطور و النور الساطع و الضیاء اللامع والامر الصادع، ازاحہ للشبھات و احتجاجاً للبینات و تحذیرا بالآیات و تخویفاً بالمثلات "(اللہ نے رسالت مآب(ص)) کو مشہور دین، منقول نشان، مسطور کتاب، ضوفشاں نور، چمکتی ہوئی روشنی اور فیصلہ کن امر کے ساتھ بھیجا، تاکہ شبہات کا ازالہ کیا جائے اور دلائل کے ذریعے حجت تمام کی جائے۔ آیات کے ذریعے ڈرایا جائے اور عقوبتوں سے خوفزدہ کیا جائے۔"
 
خانوادہ رسول ؐ
امیر المومنین (ع) نے اپنے کلام میں بتایا کہ کہ رسالت مآب (ص) کس خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نہ صرف رسالت مآب بلکہ ان کے آباؤ اجداد سبھی کریم و مطہر تھے۔ نہج البلاغہ میں یہ حقیقت ان الفاظ میں درج ہے: فاستودعھم فی افضل مستودع و اقرھم فی خیر مستقر، تناسختھم کرائم الاصلاب الی مطھرات الارحام. کلما مضی منھم سلف قام منھم بدین اللہ خلف حتی افضت کرامۃ اللہ سبحانہ و تعالی الی محمد(ص) فاخرجہ من افضل المعاون منبتا و اعز الارومات مغرساً من الشجرۃ التی صدح منھا انبیاء و انتجب منھا امناء ہ عترتہ خیر العتر و اسرتہ خیر الاسر و شجرتہ خیر الشجر "(اللہ کریم نے انبیاء کو) بہترین مقامات پر ودیعت رکھا اور بہترین منزل میں ٹھہرایا، وہ بلند مرتبہ صلبوں سے پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل ہوتے رہے، جب ان میں سے کوئی گزرنے والا گزر گیا تو دین خدا کی ذمہ داری بعد والے نے سنبھال لی، یہاں تک کہ یہ الہیٰ شرف حضرت محمد (ص) تک پہنچا۔ اس نے انہیں بہترین نشوونما والے معدنوں اور ایسی اصلوں سے جو پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہت باوقار تھیں، پیدا کیا اس شجرہ سے جس سے بہت سے انبیاء پیدا کئے اور اپنے امین منتخب فرمائے، پیغمبر کی عترت، بہترین عترت اور ان کا خاندان شریف ترین خاندان ہے، ان کا شجرہ وہ بہترین شجرہ ہے۔"
 
تربیت رسول اللہ ؐ
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کے حوالے سے مسلمانوں میں بہت سی اختلافی آرا پائی جاتی ہے، امیر المومنین(ع) اس عنوان سے فرماتے ہیں: لقد قرن اللہ بہ صلی اللہ علیہ و آلہ من لدن ان کان عظیماً اعظم ملک من ملائکتہ یسلک بہ طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلہ و نھارہ "پس اللہ نے عظیم ملائکہ میں سے ایک باعظمت ملک کو آپ کے ہمراہ کیا، جو آپ کو عظمت و بزرگواری کی راہوں اور بلند اخلاق کی روز و شب راہنمائی کرتا تھا۔"
 
اسوہ حسنہ
و لقد کان فی رسول اللہ (ص) کاف لک فی الاسوۃ و دلیل لک علی ذم الدنیا و عیبھا و کثرۃ مخازیھا و مساویھا؛ اذ قبضت عنہ اطرافھا و طئت لغیرہ اکنافھا و فطم عن رضاعھا و زوی عن زخارفھا... و لقد کان فی رسولاللہ (ص)مایدک علی مساوی الدنیا و عیوبھا اذجاع فیھا مع خاصتہ و زویت عنہ زخارفھا مع عظیم زلفتہ فلینظر ناظر بعقلہ اکرم اللہ محمداً بذلک ام اھانہ فان قال: اھانہ فقد کذب واللہ العظیم بالافک العظیم و ان قال: اکرم فلیعلم ان اللہ اھان غیرہ حیث بسط الدنیا و زواھا عن اقراب الناس منہ "یقیناً رسول اکرم (ص) کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ آپ کی ذات دنیا کے عیوب اور اس کی ذلت و رسوائیوں کی کثرت کو دکھانے کے لئے راہنما ہے۔ اس لئے کہ آپ سے دنیا کے دامنوں کو سمیٹ لیا گیا اور دوسروں کے لئے اس کی وْسعتیں ہموار کر دی گئیں۔ آپ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کر دیا گیا۔"
 
امانت داری
امانت و دیانت رسالت مآب کی وہ خصوصیت ہے، جس کا آپ نے اہل مکہ سے سب سے پہلے کلمہ پڑھوایا۔ مکہ کے لوگ آپ ؐ کی امانت داری پر ایمان رکھتے تھے۔ ہمیں تاریخ اسلام میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں، جس میں قریش نے امانت و دیانت رسول ؐ کی گواہی دی، یعنی آپ ؐ نے رسالت کا اعلان کرنے سے قبل اہل معاشرہ پر ثابت کیا کہ وہ امانتوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ امیر المومنین ختمی مرتبت کی اسی صفت کو اس انداز سے بیان فرماتے ہیں: ان اللہ بعث محمد(ص) نذیراً للعالمین و امیناً علی التنزیل۔۔۔۔۔ "اللہ کریم نے حضور اکرم ؐ کو عالمین کے لئے متنبہ کرنے والا اور نازل ہونے والی اشیاء کا امین بنا کر بھیجا۔۔۔"
حتی اوری قبسا لقابس و انار علما لحابس فھو امینک المامون۔۔۔
"حتی کہ آپ ؐ نے روشنی ڈھونڈنے والوں کے لئے شعلے بھڑکائے اور راستہ کھو کر سواری کرنے والوں کے لئے نشانات روشن کئے (اے اللہ) وہ تیرے بھروسے کا امین ہے۔"
 
دین کی راہ میں استقامت
ایک خطبے میں امیر کائنات رسالت مآب ؐ کا تعارف اس انداز سے فرماتے ہیں: ارسلہ داعیا الی الحق و شاھداً علی الخلق فبلغ رسالات ربہ غیر وان و لا مقصر و جاھد فی اللہ اعداء ہ غیر واھن و لا معذر امام من اتقی و بصر من اھتدی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اللہ نے رسالت مآب ؐ کو حق کی جانب بلانے والا اور مخلوق پر شاھد بنا کر بھیجا، پس رسالت مآب ؐ نے اپنے رب کے پیغام کو پہنچایا، اس میں نہ سستی کی اور نہ کوتاہی، دشمنان خدا سے جہاد کیا اور اس راہ میں نہ کوئی کمزوری دکھائی اور نہ ہی کسی حیلے بہانے سے کام لیا، آپ متقین کے امام اور ہدایت کے طلبگاروں کے لئے آنکھوں کی بصارت تھے۔ جو میں ان کے بارے میں جانتا ہوں، اگر تم جان لیتے تو صحرا میں نکل جاتے، اپنے اعمال پر گریہ کرتے اور اپنے کئے پر سر و سینہ پیٹتے۔"

ایک اور مقام پر آپ کی استقامت اور دیگر صفات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اجعل شرائف صلواتک و نوامی برکاتک علی محمد عبدک و رسولک الخاتم لما سبق والفاتح لما انغلق والمعلن بالحق والدافع جیشات الاباطیل و الدامغ. صولات الاضالیل، کما حمل فا ضطلع قائماً بامرک مستوفزاً فی مرضاتک غیر ناکل من قدم و لا واہ فی عزم واعیاً لوحیک حافظاً لعھدک ماضیاً علی نفاذ امرک حتی اوری قبس القابس و اضاء الطریق للخابط وھدیت بہ القلوب بعد خوضات الفتن والاثام و اقام بموضحات الاعلام و نیرات الاحکام "اے اللہ اپنی پاکیزہ ترین اور مسلسل بڑھنے والی برکات کو اپنے بندے اور آخری رسول پر قرار دے، جو سابق نبوتوں کو ختم کرنے والے، دل و دماغ کے بند دروازوں کو کھولنے والے، حق کے ذریعے حق کا اعلان کرنے والے، باطل کے جوش و خروش کو دفع کرنے والے اور گمراہیوں کے حملوں کا سر کچلنے والے ہیں۔ جو بوجھ جیسے ان کے حوالے کیا گیا تھا، انھوں نے اسے اٹھایا، تیرے امر کے ساتھ قیام کیا۔ تیری مرضی کی راہ میں تیز قدم بڑھاتے رہے۔ نہ آگے بڑھنے سے انکار کیا، نہ ان کے ارادوں میں کمزوری آئی۔ تیری وحی کو محفوظ کیا، تیرے عہد کی حفاظت کی، تیرے حکم کے نفاذ کی راہ میں بڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ روشنی کی جستجو کرنے والوں کے لئے آگ روشن کر دی اور گم راہ کے لئے راستہ واضح کر دیا۔ ان کے ذریعے دلوں نے فتنوں اور گناہوں میں غرق رہنے کے بعد بھی ہدایت پالی اور انھوں نے راستہ دکھانے والے نشانات اور واضح احکام قائم کر دیئے۔ وہ تیرے امین بندے، تیرے پوشیدہ علوم کے خزانہ دار، روز قیام تیرے لئے گواہ، حق کے ساتھ بھیجے ہوئے اور مخلوقات کی طرف تیرے نمائندہ تھے۔"
 
شجاعت
قاتل مرحب و عنتر، فاتح خیبر و خندق، صاحب ذوالفقار حیدر کرار رسالت مآب ؐ کی شجاعت کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں: کنا اذا احمر الباس اتقینا برسول اللہ "جب جنگ کی سرخی بڑھ جاتی تھی تو ہم رسول اللہ کی پناہ میں آجایا کرتے تھے" و کان رسول اللہ اذا احمر الباس و احجم الناس قدم اھل بیتہ، فوقی بھم اصحابہ حر السیوف و الاسنۃ فقتل عبیدۃ بن الحارث یوم بدر و قتل حمزۃ یوم احد و قتل جعفر یوم موتۃ و اراد من لو شئت ذکرت اسمہ مثل الذی ارادوا من الشھادۃ و لکن آجالھم عجلت و منیتہ اجلت "جب جنگ میں شدت پیدا ہو جاتی اور لوگ پیچھے ہٹنے لگتے تو رسول اکرم ؐ اپنے رشتہ داروں کو آگے بڑھاتے تھے، جو اپنے کو سپر بنا کر اصحاب کو تلوار اور نیزوں کی سختی سے محفوظ رکھتے تھے، چنانچہ بدر میں عبیدۃ بن الحارث، احد میں حمزہ، موتہ میں جعفر قتل ہوئے، ان میں سے ایک شخص جس کا نام نہیں لے سکتا، نے ایسی ہی شہادت کا قصد کیا، تاہم ان سب نے جلدی کی اور اس کی موت کو موخر کر دیا گیا۔"
 
رحلت رسول اللہ سے ہونیوالا نقصان
بابی انت و امی یا رسول اللہ لقد انقطع بموتک مالم ینقطع بموت غیرک،من النبوۃ الانباء و اخبار السماء، "میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اے رسول اللہ آپ کی رحلت سے نبوت اور آسمانی خبریں منعقطع ہوگئیں، جو کسی اور کی موت سے نہیں ہوئیں۔"
وصیت امیرالمومنین
وصیتی لکم الا لا تشرکوا بااللہ شیاومحمد فلا تضیوا سنتہ اقیموا ھذین العمودین و اوقدواھذین المصباحین وخلاکم ذم "تم سب کو وصیت کرتا ہوں کہ کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرانا اور سنت رسول کو ضائع نہ کرنا، ان دونوں ستونوں کو قائم رکھو، ان دونوں چراغوں کو روشن رکھو، اس کے بعد کسی مذمت کا اندیشہ نہیں ہے۔" ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ان ولی محمدا من اطاع اللہ وان بعدت لحمتہ،وان عدو محمد من عصی اللہ وان قربت قرابتہ "محمد مصطفیٰ ؐ کا دوست وہ ہے، جو اللہ کی اطاعت کرے، چاہے نسبی اعتبار سے کتنا دور ہی کیوں نہ ہو اور محمد مصطفیٰ ؐ کا دشمن وہی ہے، جو اللہ کی نافرمانی کرے، خواہ کتنا ہی قریبی ہو۔"
 
امیر المومنین علیہ السلام نے رسالت مآب ؐ کی صفات اور خصائل کو متعدد خطبات میں بیان کیا ہے، جسے طوالت اور وقت کی کمی کے باعث مکمل طور پر درج نہیں کر پایا، تاہم اس موضوع پر محققین اور صاحبان علم کے لئے دعوت ہے کہ وہ اس میدان میں قلم اٹھائیں اور نفس رسول ؐ جس طرح ختمی مرتبت کو دیکھتے تھے، جیسے انھوں نے ان کے پیغام کو اخذ کیا، معلوم کریں، تاکہ معرفت امیر المومنین کی روشنی میں ہم بھی اپنے قلوب کو عشق پیغمبر سے منور کرسکیں۔ مولا علی علیہ السلام کے کلام سے ایک بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ ؑ رسالت ماب کے مشن، ان کی شخصیت، ان کی رسالت، ان کے مقام سے بہت گہرائی سے آگاہ تھے، جیسا کہ انہوں نے ایک مقام پر فرمایا کہ اگر میں ان باتوں کو جو تم سے مخفی رکھی گئی ہیں، تمہیں بتا دوں تو تم صحراؤں میں نکل جاؤ، گریہ و زاری کرو، ااپنے سر و سینہ کو پیٹو۔ ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے آقا و مولا نبی کریم ؐ کی زیادہ سے زیادہ معرفت حاصل کرے، تاکہ ختمی مرتبت کا عشق ان کے سینے میں موجزن ہو۔ اس عنوان سے بہت سے افراد نے اپنے تئیں کوشش کی ہے، تاہم میرے خیال میں رسالت مآب ؐ کی ہستی اور مشن کو بیان کرنے کا حق جس قدر امیر المومنین کو حاصل ہے، کسی کو بھی نہیں۔ ان فرامین اور اقوال کو گہرائی سے جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، تاکہ ان جملوں میں چھپے موتیوں کو پایا جاسکے۔
۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔
 
خبر کا کوڈ : 763367
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش