1
0
Tuesday 27 Nov 2018 15:47

کرتار پور اور مسلم سکھ تعلقات

کرتار پور اور مسلم سکھ تعلقات
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
 
مجھے اچھی طرح یاد ہے، جب صدام کے دور میں بہت کم لوگوں کو عراق کا ویزہ دیا جاتا تھا اور بہت سے لوگ وہاں موجود آمریت کے خوف سے سفر نہیں کرتے تھے، اس طرح کے حالات میں لوگ نواسہ پیغمبرﷺ کی زیارت کے لئے تڑپا کرتے تھے اور دعائیں کرتے تھے کہ خدا وہ دن دکھائے، جب وہاں کے انسان آزاد ہوں اور دنیا بھر سے امام حسینؑ کے چاہنے والے  آپ کے در اقدس پر حاضری دیں اور دنیا بھر سے جوق در جوق ارض نینوا پہنچیں۔ صدام حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں لوگ کربلا اور نجف پہنچے تھے، کچھ تو ایسے تھے جن کی پیدائش کربلا یا نجف کی تھی، مگر صدام حکومت سے جان کے خوف کی وجہ سے وہ اپنے گھر اور ائمہ کے حرم کے پاس نہیں آسکتے تھے، اس لئے جب وہ لوگ  کربلا اور نجف وارد ہوئے تو ان کی آہ و بکا نے امام حسینؑ سے لوگوں کے عشق کو واضح کیا تھا۔ آج اربعین پر لاکھوں لوگوں کی موجودگی کو دیکھ یہ نہیں لگتا کہ چند سال پہلے تک ایک جابر کی وجہ سے کتنی عقیدتوں کا خون ہو رہا تھا۔

صدام کے ہاتھوں عقیدتوں کے اس استحصال کو برداشت کرچکے ہیں، اس لئے سکھ مذہب کے لوگوں کی عقیدتوں کا استحصال بہت برا لگتا ہے۔ بابا گورو نانک سکھ مذہب کے بانی ہیں، انہوں نے خطہ پنجاب میں جنم لیا اور یہیں پر رسوم و رواج کی چکی میں پسی انسانیت کو امن و محبت کا درس دیا۔ اسی سرزمین پر انہوں نے غیرت و حمیت کا سبق پڑھایا اور  مخلوق خدا کی بڑی تعداد کو  متاثر کیا۔ علامہ اقبالؒ گرو نانک کے بارے میں فرماتے ہیں: محفلِ اغیار میں بت کدہ پھر بعد مْدّت کے مگر روشن ہْوا نورِ ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے۔ اسی طرح علامہ اقبالؒ بانگ درا کی ایک نظم میں بابا نانک کے بارے میں فرماتے ہیں، نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا! سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب کے ذکر کے ساتھ گرو بابا نانک کا ذکر لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے۔

 علامہ اقبالؒ کی بابا نانک کے بارے میں نظم کا حوالہ اس لئے ضروری بنتا ہے کہ اقبالؒ کے علاوہ برصغیر کے تمام مفکر اور دانشور بابا نانک جی کو موحد سمجھتے ہیں۔ ان کی تعلیمات کا جوہر وحدانیت میں ہے۔ یہ بات اس حوالے سے بہت اہم ہے کہ ہندو سکھ پنتھ کو ہندو مت کا ہی ایک حصہ ثابت کیا، جس کی وجہ سے پنجاب کے دو ٹکڑے ہوگئے اور سکھوں کی طاقت بھی ٹوٹ گئی۔ گرنتھ صاحب اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور بصیرت افروز بھی۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات کے اثرات بابا نانک اور گرنتھ صاحب اور اس کی تعلیمات سے صاف عیاں ہیں۔ سکھ مسلم تعلقات کے حوالے سے کئی چیزیں بہت اہم ہیں، ان میں سے ایک خود بابا گرو نانک کی شخصیت ہے، آپ کی تعلیمات سے لگتا ہے کہ آپ نے بڑی گہرائی سے اسلام کا مطالعہ کیا تھا اور سکھ روایات کے مطابق آپ حج کرنے کے لئے بیت اللہ شریف بھی گئے، ان کی وحدانیت پر مبنی تعلیمات اور ان کے حج کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ انہیں ایک مسلم بزرگ مانتے ہیں۔ ان کا حج کرنا اور اسلامی تعلیمات کو اپنے مذہب کی بنیاد میں داخل کرنے سے سکھ مسلم تعلقات میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

گرو ارجن نے جب امرتسر میں دربار صاحب کی تعمیر کا ارادہ کیا تو عقیدت کے طور پر اس کا سنگ بنیاد حضرت میاں میر سے رکھوایا۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ امرتسر میں دربار صاحب کے نام سے تعمیر ہونے والا یہ گردوارہ کوئی معمولی گوردوارہ نہیں تھا، یہ آج بھی سکھ ازم کے مقدس ترین مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ حضرت میاں میر لاہور والے، جن کا میلہ لاہور میں مشہور ہے، وہ ایک مسلم صوفی بزرگ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ زندگی بھر آپ کے مزار مبارک پر نذرانہ بھجواتا رہا۔ گرنتھ صاحب میں مشہور صوفی بزرگ حضرت بابا فرید جنہیں شکر گنج کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، ان کے سو کے قریب اشلوک یا اشعار شامل ہیں، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ہندو مسلم تعلقات بہت اعلیٰ   رہے ہیں۔ سکھ رہنماوں کی وسعت نظر ہے کہ انہوں نے مسلمان شعرا کے کلام کو اپنی مقدس کتاب کا حصہ بنایا۔ بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری سترہ سال ناروال کی تحصیل شکر گڑھ میں گزارے، یہیں پر آپ کی سمادھی اور قبر ہے، مسلمان قبر پر فاتحہ پڑھتے ہیں، سکھ یاتری  سمادھی پر اپنے طریقے کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ یہاں سے انڈین بارڈر صرف چار کلومیٹر دور ہے، جہاں جہاں انڈین آرمی نے ایک درشن استھال  بنا رکھا ہے، جہاں سکھ یاتریوں کو دور بین کی مدد سے  کرتار پور صاحب کے درشن کرائے جاتے ہیں۔

دنیا بھر میں بسنے والے سکھ  بڑی حسرت سے کرتار پور صاحب کی تصاویر دیکھتے ہیں اور دل میں یہ آس رکھتے ہیں کہ کیسے ممکن ہو کہ وہ  اپنے رہبر و رہنما کی سمادھی پر پہنچ جائیں۔ دنیا بھر میں بسنے والے سکھ کبھی بھی پاکستانی سرزمین کو گالی نہیں دے سکتے، کیونکہ پاکستان میں ان کے مذہب کی بنیاد ہے۔ کسی انڈین لکھاری نے کالم لکھا تھا "پاکستان دہشتگردوں کی سرزمین" اس کا جواب وہاں کے ایک سکھ  لکھاری نے دیا تھا، پاکستان دہشتگردوں کی نہیں گرووں کی سرزمین ہے۔ یہ وہ تعلق ہے، جو دنیا کی کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی۔ تقسیم کے نتیجے میں مغربی پنجاب بسنے والے سارے سکھ مشرقی پنجاب منتقل کر دیئے گئے، مگر ان کے تمام مقدس مذہبی مقامات پاکستانی پنجاب میں رہ گئے۔

پچھلے کچھ عرصے میں وہ شاعری سننے کا اتفاق ہوا، جو سکھ شعرا نے حسن ابدال، کرتار پور اور دیگر مذہبی مقدسات کی جدائی میں کی ہے۔ سچ پوچھیں تو جب ہمارے آرمی چیف  کی کرتار پور صاحب والی آفر کو سنا تو بہت خوشی ہوئی کہ دونوں ملکوں کے عوام نے گولی اور بارود سے بہت لڑ لیا، اب باہمی محبت کو فروغ دیا جائے اور دنیا بھر کے سکھوں کو  فوری ویزے جاری کئے جائیں، تاکہ وہ آئیں اور دیکھیں کہ پاکستانی کس قدر ان کا احترام کرتے ہیں اور ہم نے کس طرح گردواروں کی حفاظت کی ہے۔ افتتاحی تقریب میں انڈین قیادت کی طرف سے عدم شرکت پوری دنیا کے سکھوں کی توہین ہے کہ ایک تاریخی موقع کو ضائع کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ جلد مسلمانوں کے لئے بھی انڈیا میں موجود مسلم تہذیب کے مراکز کو دیکھنے کے لئے ویزے میں نرمی کا اعلان ہوگا، یوں نفرت کے راج میں کمی اور محبتوں کا کاروبار ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 763561
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
کوئی سکھوں کی ہمدردی میں اور کوئی قادیانیوں کی ہمدردی میں تڑپتا ہے۔ کاش کوئی شیعہ قوم کے درد کو محسوس کرے اور لاپتہ شیعہ افراد کے بارے میں دو لفظ لکھ دے۔ ٹاوٹ اور پٹھو قسم کے لوگ تو بولڈ ہوکر لاپتہ افراد کے بارے میں کچھ نہیں لکھیں گے، لہذا کچھ جرات مند لوگوں کی خدمات لی جائیں۔
ہماری پیشکش