0
Thursday 29 Nov 2018 23:36

اتحادِ امت اور علماء کا ذمہ دارانہ کردار

اتحادِ امت اور علماء کا ذمہ دارانہ کردار
تحریر: تصور حسین شہزاد
 
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جس کی بنیاد کلمہ کی بنیاد پر رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان روزِ اول سے ہی دشمن کی آنکھ کا کانٹا بن گیا۔ جہاں دشمنوں نے اس کیخلاف سازشوں کے جال بُنے، وہاں اپنوں نے بھی کمی نہیں کی۔ مگر اللہ کے خصوصی کرم سے پاکستان آباد ہے اور ان شاء اللہ تاقیامت آباد رہے گا۔ 80ء کی دہائی میں ضیاء الحق نے امریکہ کے آلہ کار کے طور پر نام نہاد جہاد کا ٹھیکہ لیا تو اس ٹھیکے میں جہاں ضیاء الحق کی 3 ماہ کی حکومت 11 سال طوالت پکڑ گئی، وہیں پاکستان میں ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر بھی در آیا۔ وہ نوجوان جس کے ہاتھ میں کتاب اور قلم ہونا چاہیئے تھا، وہ کلاشنکوف تھامے امریکہ کیلئے جہاد پر جانے کیلئے تیار دکھائی دیتا۔ جو جہاد پر آمادہ نہ ہوئے وہ ہیروئین کی لعنت کا شکار کر دیئے گئے۔ ملک میں منشیات ایسے بِکنا شروع ہوگئی جیسے ہر کھوکھے سے نسوار مل جاتی ہے۔

ضیاء الحق یہ سب کچھ دیکھ کر بھی چشم پُوشی کرتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے قیمتی ترین جوان یا تو نشے کی لت میں لگ گئے یا دہشتگرد بن گئے۔ تعلیمی اداروں میں لڑائیاں معمول بن گئیں، اکثر طالبعلم مسلح ہو کر آتے اور معمولی بات پر گولیاں چل جاتیں، کئی ماؤں کی گود اُجڑی، کئی باپوں کے سہارے چِھنے اور ہماری حکومت امریکی خوشنودی کیلئے خاموش رہی، جی ہاں اسی امریکہ کی خوشنودی کیلئے جو آج ہمارے حکمرانوں کو جوتے کی نوک پر رکھ رہا ہے۔ ہماری ہزاروں قربانیوں کے باوجود امریکہ پاکستان کو ہی دہشتگردی کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ امریکی ایماء پر امریکی ڈالروں سے ہی معرض وجود میں آنیوالے طالبان افغانستان سے فارغ ہو کر پاکستان پر ہی چڑھ دوڑے۔ آج بھی وہی طالبان پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔

طالبان کا فتنہ ابھی ختم نہیں ہوا کہ نئی ’’امریکی پروڈکٹ‘‘ داعش نے سر اُٹھا لیا۔ عراق و شام سے جوتے کھانے کے بعد داعش نے اپنا اگلہ ٹھکانہ افغانستان کو بنایا۔ داعش کو افغانستان میں پناہ گاہیں بنا کر پاکستان کو نشانہ بنانے کا ہدف سونپا گیا ہے۔ اس حوالے سے داعش کو جہاں امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے، وہیں بھارت کی بھی حمایت لئے وہ پاکستان کی سرحدوں تک پہنچ چکی ہے۔ داعش کے خطرے کے پیش نظر مبصرین نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ماضی کی طرح پاکستان ایک بار پھر دہشتگردی کی لپیٹ میں آجائے گا۔ مگر اس خطرے کا ادراک کرتے ہوئے پاکستانی علماء نے پہلی بار اپنے بابصیرت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اس معاملے میں تمام شیعہ، سنی، دیوبندی اور بریلوی شامل ہیں۔

علماء نے قوم کو اتحاد کی دعوت دی اور نہ صرف قوم کو بلکہ اپنے اپنے پیروکاروں کو بھی اتحاد کا درس دیا۔ اس حوالے سے ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل نے اہم کردار ادا کیا۔ متحدہ مجلس عمل کے سیاسی اہداف اپنی جگہ، اس کی سیاسی وابستگی بھی اپنی جگہ، مگر یہ ماننا ہوگا کہ ایم ایم اے نے اتحادِ امت کیلئے اہم کردار ادا کیا اور ایک ہی صف میں ’’محمود و ایاز‘‘ کو لاکھڑا کیا۔ اس کے بعد انفرادی طور پر علماء نے جو کردار ادا کیا، وہ لائق تحسین ہے۔

ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے مولانا فضل الرحمان، قاضی حسین احمد مرحوم اور علامہ ساجد نقوی کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ مجلس وحدت مسلمین کی قیادت نے بھی تمام مسالک کے علماء کی ’’آل دینی پارٹیز کانفرنسز‘‘ کا انعقاد کیا جو نتیجہ خیز رہا۔ لاہور میں ایم ڈبلیو ایم کی میزبانی میں متعدد اجلاس ہوئے، جن میں تمام مسالک کی نمائندگی حوصلہ افزاء رہی۔ مین سٹریم کی اِن جماعتوں کے بعد نوزائیدہ شیعہ جماعت ’’تحریک بیداری اُمت مصطفیٰ‘‘ میدان میں نکلی۔ اس تحریک کے قائد علامہ سید جواد نقوی نے گذشتہ برس اتحاد امت کیلئے ہفتہ وحدت کو ایک نئے انداز میں منانے کا اعلان کیا۔

علامہ سید جواد نقوی نے جامعہ عروۃ الوثقیٰ سے ’’وحدت امت میلاد ریلی‘‘ نکالی۔ یہ ریلی اُس دن نکلی جب اہلسنت برادران پوری دنیا میں جشن عید میلاد النبی(ص) منا رہے تھے۔ یعنی 12 ربیع الاول کو، اہل تشیع کی جانب سے پاکستانی تاریخ میں پہلی بار میلاد کی مناسبت سے جلوس نکالا گیا۔ یہ ریلی انتہائی منظم انداز میں جامعہ عروۃ الوثقیٰ سے برآمد ہوئی اور فیروز پور روڈ کے قینچی سٹاپ سے ہو کر واپس جامعہ عروۃ الوثقیٰ میں پہنچ کر اختتام پذیر ہوئی۔ اس ریلی کو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ سراہا گیا اور ریلی کے منتظمین کی اتحادِ اُمت کیلئے اس کوشش پر اُنہیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔

تحریک بیداری امت مصطفیٰ (ص) نے اس سال بھی 12 ربیع الاول کو ہی ’’اتحاد امت‘‘ ریلی نکالنے کا اعلان کیا۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ (ص) نے نہ صرف کامیاب اور منظم ترین ریلی نکالی بلکہ اس سال گذشتہ برس سے بھی بڑھ کر اقدام کیا کہ ’’اتحاد امت و حرمت رسول کانفرنس‘‘ بھی کر ڈالی، جس میں تمام مسالک کے علماء کرام اور سیاسی و مذہبی عمائدین نے شرکت کی۔ انتظامیہ کی جانب سے دعوت تو صف اول کے قائدین کو دی گئی مگر تحریک بیداری امت مصطفیٰ (ص) کے نوآموز ہونے کی وجہ سے زیادہ تعارف نہ ہونے پر صف اول کی قیادت تو شریک نہ ہوسکی، البتہ نمائندگی تمام جماعتوں کی جانب سے ہوئی، جو ایک حوصلہ افزاء بات ہے۔ دوسرے لفظوں میں تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰ (ص) کا وحدت کیلئے جو پیغام تھا، وہ کامیابی کیساتھ ڈلیور ہوگیا۔ اس بار 12 ربیع الاول کی ریلی کو الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں بھی بھرپور کوریج ملی۔ جس سے وحدت کے پیغام کو مزید لوگوں تک پھیلانے میں مدد ملی۔

اہل تشیع کی جانب سے وحدت کیلئے یہ اقدام قابل ستائش قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کیساتھ اہلسنت نے بھی ہمیشہ اتحادِ اُمت کی کوششوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا ہے۔ اس حوالے تنظیمِ اتحادِ اُمت کے سربراہ ضیاء الحق نقشبندی کی خدمات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اِسی طرح تحریک مہناج القرآن، سنی تحریک، جمیعت علمائے پاکستان کے تمام دھڑے اتحاد اُمت کیلئے ہونیوالی ہر تقریب میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اہلسنت کی جانب سے یہ کردار حوصلہ افزاء ہے۔

اتحاد کی کوششوں میں اگر دیوبندی علماء کے کردار کا ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہوگی۔ علمائے دیوبند کی جانب سے جامعہ اشرفیہ کے مولانا فضل الرحیم اشرفی اور کل مسالک علماء بورڈ کے چیئرمین اور جے یو آئی (س) کے سینیئر رہنما مولانا عاصم مخدوم بھی اتحاد امت کیلئے پیش پیش ہیں۔ مولانا عاصم مخدوم نے تو ملکی تاریخ میں پہلی بار محرم کے جلوسوں میں سبیلوں کا اہتمام کیا۔ خود بھی جلوس و مجالس عزاء میں اپنے ساتھیوں سمیت شریک ہوتے رہے۔ اتحادِ اُمت کی ان کوششوں میں دیوبندی علماء بھی اہلسنت اور اہل تشیع کے شانہ بشانہ ہیں۔ جماعت اہلحدیث اور جمعیت اہلحدیث کی جانب سے بھی وحدت کے ایجنڈے کو ہمیشہ سراہا جاتا رہا ہے۔ اس حوالے سے انہیں جب بھی جس جماعت نے بھی پکارا انہوں نے لبیک کہا۔

علماء کرام کی جانب سے وحدت کا یہ مظاہرہ اتنا حوصلہ افزاء ہے کہ پاکستان کے مستقبل کی فکر کرنیوالے اب مطمئن دکھائی دیتے ہیں کہ علماء کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوگیا ہے، اَب جو اتحاد کے حوالے سے مشترکہ پروگرامز کے انعقاد کا سلسلہ چل نکلا ہے، اس کے نتائج بہت مثبت ہوں گے اور پاکستان میں مسلمانوں کو لڑانے والے دشمنوں کی سازشیں ناکام ہوں گی۔ دعا ہے کہ اللہ کریم، اپنے حبیب (ص) کے صدقے میں علماء کرام کی ان کوششوں اور کاوشوں کو قبول فرمائے اور امت کو امتِ واحدہ بنا دے، تاکہ کوئی دشمن ہمارے دین کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ کرسکے۔
خبر کا کوڈ : 763999
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش