0
Friday 30 Nov 2018 00:31

افغانستان میں بھارت کا بڑھتا اثر و رسوخ

افغانستان میں بھارت کا بڑھتا اثر و رسوخ
رپورٹ: ایس اے زیدی
 
نائن الیون سانحہ کے بعد امریکہ اسامہ بن لادن کا بہانہ بناکر افغانستان پر حملہ آور ہوا، تاہم آج 17 سال گزرنے کے بعد واشنگٹن افغانستان میں نہ تو اپنے اعلانیہ اہداف حاصل کر پایا ہے اور نہ ہی خفیہ۔ آج امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان سے نکلنے کے باعزت راستے تلاش کرنے پر مجبور ہے۔ اپنی کابل سے رخصتی سے قبل واشنگٹن اس خطہ میں اپنا ایک نمائندہ چھوڑ کر جانا چاہتا ہے اور وہ نمائندگی بھارت سے بہتر کوئی اور ملک نہیں کرسکتا، کیونکہ خطہ میں موجود اہم ممالک چین، روس، پاکستان اور ایران ہی اسکے اصل اہداف ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے مابین ہونے والی اس خفیہ ڈیل کے نتیجہ میں ہی نئی دہلی کو افغانستان میں اہم رول دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ امریکہ کو معلوم ہے کہ خطہ سے اس کی روانگی کے بعد ہندوستان ہی وہ واحد ملک ہے، جو یہاں اس کے عزائم کی تکمیل اور مفادات کا تحفظ کرسکتا ہے۔ اسی منصوبہ بندی کے تحت افغانستان میں ہندوستان کے غیر ضروری اور بڑی تعداد میں قونصل خانے قائم کئے گئے۔
 
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو بھارت اس کا اذلی دشمن شمار ہوتا ہے، پاکستان میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے میں بھی بھارت کا بہت بڑا کردار رہا ہے، بالخصوص فاٹا اور بلوچستان میں دہشتگرد تنظیموں اور علیحدگی پسند تحریکوں کو بھی نئی دہلی کی جانب سے سپورٹ حاصل رہی ہے۔ ہندوستان مشرقی بارڈر کو تو شروع سے پاکستان کیخلاف استعمال کرتا آرہا ہے اور اب گذشتہ چند سالوں سے امریکی سرپرستی میں مغربی سرحد سے بھی اسلام آباد کیلئے مشکلات کھڑی کرنا نئی دہلی کے عزائم کی تکمیل میں آسانیاں پیدا کر رہا ہے، دوسری جانب امریکہ کی بھی یہی خواہش ہے کہ وہ پاکستان کیخلاف جنگ ہندوستان کے کندھے پر ہی بندوق رکھ کر لڑنا چاہتا ہے، واشنگٹن انتظامیہ کا خیال ہے کہ اگر افغانستان کو خود مختاری دی جاتی ہے تو پاکستان امریکہ مخالف عناصر کو سپورٹ کرکے کابل میں اپنا کردار مضبوط بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان، حقانی نیٹ ورک اور گلبدین حکمتیار کی پاکستان کیساتھ رہنے والی قربتیں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
 
چین کے حوالے سے امریکی کردار کو دیکھا جائے تو ٹرمپ انتظامیہ اسے محدود کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتی ہے، امریکہ کو معلوم ہے کہ چین ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جو اس کی سپر پاور کی کرسی چھین سکتا ہے۔ دوسری جانب بھارت اور چین کے تعلقات میں اتار چڑھاو بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہندوستان کا خیال ہے کہ چین خطہ میں نہ صرف اس کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ خطہ کا ٹھیکیدار بننے کے عزائم میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لہذا چین کے حوالے سے بھی واشنگٹن اور نئی دہلی کے عزائم اور مفادات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ چین کے خلاف بھی مشترکہ مفادات افغانستان میں امریکہ کی جانب سے بھارت کو مضبوط کرنے کی طرف ایک اور قدم ہے۔ اپنے دشمن نمبر ایک ایران کے حوالے سے بھی امریکہ خاصا پریشان نظر آتا ہے، اسے معلوم ہے کہ ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھ کر تہران کو کسی صورت کنٹرول نہیں کیا جاسکتا، لہذا اس کا خیال ہے کہ اس خطہ میں موجود کوئی اور مضبوط ملک یہ کام سرانجام نہیں دے سکتا، انہی وجوہات کی بنا پر ایران کے حوالے سے واشنگٹن کو نئی دہلی سے ہی امیدیں وابستہ ہیں۔
 
تہران کیساتھ ساتھ روس بھی امریکہ کے مقابلہ میں بھرپور انداز میں کھڑا نظر آتا ہے، جبکہ بھارت کے روس کے ساتھ تعلقات کوئی زیادہ خوشگوار نہیں رہے، لہذا روس کے حوالے سے بھی اس خطہ میں امریکہ اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بھارت کو ہی سمجھتا ہے۔ ان چاروں اہم ممالک کے حوالے سے واشنگٹن اپنی امیدوں کی کرن بھارت ہی کو سمجھ رہا ہے، اور انہی وجوہات ہی کی بنا پر افغانستان میں نئی دہلی کو مضبوط رول دے رہا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی آج ایک سرکاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ خطہ میں پاکستان کے مقابلہ میں بھارت کو اپنا پارٹنر مان چکا ہے، اب کسی دوسرے ملک کے مفادات کا تحفظ کرکے اپنے ملک کا نقصان نہیں ہونے دیں گے۔ کچھ عرصہ قبل بھارت میں متعین افغانستان کے سفیر نے بیان دیا تھا کہ بھارت علاقائی سطح پر افغانستان کا سب بڑا امداد دینے والا ملک ہے۔ بھارت نے افغانستان میں 200 سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں کی تعمیر کی ہے۔
 
بھارت کا افغانستان میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ یقیناً خطہ کے امن کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے، خاص طور پر پاکستان اس حوالے سے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار بھی کرچکا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کابل سے رخصتی کے بعد افغانستان میں خود مختار اور آزاد حکومت کی تشکیل ضروری ہے، افغان عوام کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں، افغانستان میں نہ امریکہ کا اثر و رسوخ ہونا چاہیئے، نہ بھارت اور نہ ہی کسی اور ملک کا۔ خطہ میں امن و امان کے حوالے سے پڑوسی ممالک کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ تاکہ یہاں امن ہو اور بیرونی مداخلت کسی صورت نہ ہو۔ روس، ایران، چین اور پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے مثبت اور مشترکہ رول ادا کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ خطہ میں پائیدار امن اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب افغانستان میں مستقل امن قائم ہو۔ یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے کہ امریکہ کے مفادات سے ہٹ کر افغانستان کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 764018
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش