0
Friday 30 Nov 2018 12:08

غریب معاشرے کو امیر بنانیکے نسخے

غریب معاشرے کو امیر بنانیکے نسخے
تحریر: طاہر یاسین طاہر

 غربت انسان سے وہ گناہ بھی کرا لیتی ہے، جن کا نام لیتے بھی انسانیت شرمندہ ہو جائے۔ حدیث نبویﷺ کا مفہوم یہ ہے کہ "غربت انسان کو کفر کے نزدیک لے جاتی ہے" ممکن ہے ہو بہو الفاظ یہی ہوں حدیث شریف کے، مگر میں نے حد درجہ احتیاط سے کام لیتے ہوئے مفہوم کا سہارا لیا۔ حکومتیں ہمیشہ سے سماج کے کم آمدن والے افراد کو روزگار، زیادہ آمدن کے نسخہ ہائے جات، روٹی، کپڑا اور مکان کا لالچ دیا کرتی ہیں۔ گاہے اپنا روزگار، انسان باوقار، جیسے نعروں سے تیسری دنیا کے ممالک میں سماجی حیات کو موٹیویٹ کیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں جب حکومتیں اپنے منشور کا اعلان کرتی ہیں تو منشور کے نکات میں اس بات کا خاص لحاظ اور خیال رکھا جاتا ہے کہ غربت کے خاتمے، تعلیم و صحت کی بہتر سہولیات اور سماجی انصاف جیسے معاملات پر زیادہ زور دیا جائے۔

حکومت میں آنے کے بعد کون کیا کرتا ہے، اس پر ہماری سیاسی تاریخ شاہد ہے۔ طالب علم کا قطعی یہ خیال نہیں کہ گذشتہ حکومتوں نے سماج کو صرف جھوٹے وعدوں کی نوک پر رکھا اور لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ نہیں بلکہ ہر حکومت نے خواہ وہ آمرانہ تھی یا جمہوری، ملک کی بہتری کے لئے کام ضرور کئے۔ آمرانہ حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اور منتخب ہو کر آنے والی حکومتوں کی اپنی ترجیحات و مجبوریاں۔ خاندانی "سیاسی جمہوری کلچر" نے سماج کو بد دیانتی، اقربا پروری اور طاقت کے جارحانہ استعمال کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ بیوروکریسی نامی حکومتی مشینیری سیاست دانوں کی قربت کے ذریعے اپنی پیشہ وارانہ ترقی کے راستے کا تعین کرتے ہوئے جارحانہ سیاسی مفادات کو سامنے رکھتی ہے۔ جس کا سارا نقصان ملک غالب افرادی حیات کو ہوتا ہے اور ایک چھوٹا طبقہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ انسان غلطی سے نہیں بلکہ اس غلطی پر اصرار اور "تکرار" سے نقصان اٹھاتا ہے۔ ہمارے سماج کے ساتھ یہی ہوتا آرہا ہے۔ ایک ہی طرح کی غلطی نئے نئے زاویوں کے ساتھ دہرائی جاتی ہے۔

اس امر میں کلام ہی نہیں کہ غربت اور کرپشن اس سماج کا اولین مسئلہ ہے، جس نے کئی ضمنی مسائل کو جنم دے کر پورے معاشرے کی حیات میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے ہمیشہ کرپشن اور وراثتی سیاست کے خاتمے کی بات کی۔ مگر زمینی حقائق انسان کو نرم روی و مصلحت کوشی کی طرف بھی لے جایا کرتے ہیں۔ میڈیا کے تمام فورمز پر یہ بحث گرم ہے کہ حکومت نے پہلے 100 دنوں میں کیا "کمال" کیا؟ اپوزیشن جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، نے حکومت کے پہلے 100 دنوں کے پلان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ بالخصوص حکومت کی جانب سے دیئے گئے اشتہار "ہم مصروف" تھے، پر سوالیہ نشان ثبت کئے جا رہے ہیں۔؟

سوال مگر یہ ہے کہ کیا 100 دنوں میں کوئی ملک درست ہوسکتا ہے؟ ایسا ملک جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہو اور اس جنگ میں اپنی معیشت و انسانی جانوں کی قربانیاں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ دی ہوئی ہوں؟ کیا ایسا ملک 100 دنوں میں اپنی آبادی کے 20 فی صد حصے کو بھی غربت کی تکلیف دہ لکیر سے نکال سکتا ہے، جس ملک کے حکمران طبقہ پر کرپشن کے کیسز چل رہے ہوں؟ ملک جذبات سے نہیں چلتے۔ ایک گھر کے معاملات اگر خراب ہو جائیں تو انھیں ٹھیک کرتے کرتے تین چار سال لگ جاتے ہیں۔ البتہ خاندان یکجا ہو کر اپنی اجتماعی و معاشی طاقت میں اضافے کی ٹھان لے تو۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے ابتدائی 100 دنون کا جو پلان دیا تھا، اس سے پہلے والی حکومتیں بھی ایسا ہی کرتی رہی ہیں کہ ہمیں تھوڑا وقت دیا جائے۔ اخبار نویس کا خیال یہ ہے کہ پہلے 100 دنوں کے پلان میں پی ٹی آئی کوئی بڑا کام نہیں کر پائی اور نہ ہی اس سے پہلے والی حکومتوں کے پاس ایسی کوئی مثال ہے۔ البتہ عمراں خان کی حکومت سے عام آدمی کو یہ توقع ہے کہ ملک سے کرپشن، اقربا پروری اور پولیس میں سے سیاسی مداخلت فوری ختم کر دے گی۔

بد قسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آیا اور ابتدائی ایام میں ہی اسلام آباد کے آئی جی کی تبدیلی کا سکینڈل سامنے آگیا۔ اس کے باوجود عمران خان نے 100 دنوں کے پلان اور آئندہ کی سمت کے حوالے سے قوم کو اعتماد میں لیا تو یہ ایک اچھی سیاسی روایت ہے۔ کیا اس حکومت کا یہ کم کارنامہ ہے کہ اس نے بھارت سے دو دو ہاتھ کئے بغیر سفارتی سطح پر اہم ترین کامیابی حاصل کی اور کرتار پور بارڈر کھول دیا؟ چیزوں کو سیاسی و نسلی اور قومی و لسانی تعصب کے بغیر زمینی حقائق سے ہم آہنگ کرکے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے یہ بتا کر عام آدمی کا دل جیتا ہے کہ 26 ممالک سے لوٹی ہوئی دولت لانے کے لئے معاہدے ہوچکے ہیں۔ ظاہر ہے یہ دولت لانے میں وقت لگے گا۔ اہم نکتہ مگر یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی عام آدمی کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے کے لئے سوائے مرغیاں دینے کے، کوئی جامع اور دلکشن پروگرام نہیں دے سکی۔ کیا گذشتہ حکومتیں سلائی مشینیں، کالی پیلی ٹیکسیاں اور رکشے نہیں دیتی رہیں؟ کیا اس سے غربت ختم ہوئی؟ دنیا اب کمپیوٹر کے ایک بٹن تلے آچکی ہے۔ غربت کے خاتمے کے لئے کسی بہتر لائحہ عمل کی طرف توجہ دی جائے نیز وہ افراد جو وزیراعظم کے قریب تر ہیں، ان پر بھی انگشت نمائی ہو رہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ لگے ہاتھوں ان کے خلاف بھی تحقیقات کرا لی جائیں۔
خبر کا کوڈ : 764092
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش