10
16
Friday 30 Nov 2018 14:42

انصافین حکومت فلسطین پالیسی پر یو ٹرن کے موڈ میں؟

انصافین حکومت فلسطین پالیسی پر یو ٹرن کے موڈ میں؟
تحریر: عرفان علی

وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے اتحادیوں کی شرکت کے ساتھ اپنی پانچ سالہ حکومت کے پہلے 100 
روز مکمل کر لئے ہیں۔ ان کی سو روزہ کارکردگی پر یوں تو خارجہ پالیسی میں عدم توازن پر بھی جائز اعتراض وارد ہوتا ہے، لیکن پاکستانیوں کے لئے اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات سرزمین قدس کی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کے حق میں راہ ہموار کرنے کی کوششیں ہیں، جو اس حکومت کے دور میں باخبر افراد سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ حکمران جماعت کی خاتون رکن اسمبلی عائشہ حدید نے اسرائیل کے حق میں راہ ہموار کرنے کے لئے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو بھی بنی اسرائیل قرار دے کر قومی اسمبلی میں انتہائی غیر منطقی تقریر کی۔ لیکن جب پاکستانیوں نے شدید ردعمل اور احتجاج کیا تو اسکے بعد موصوفہ نے لولی لنگڑی تاویلیں کیں۔ جعلی ریاست اسرائیل سے ایک طیارے کا براستہ اردن پاکستان پہنچنا، جس کے بارے میں اطلاعات یہ تھیں کہ اس میں کوئی اہم اسرائیلی شخصیت سوار تھی اور انصافین ایم این اے کی تقریر، یہ دو خبریں ایسی تھیں کہ جن کا تعلق موجودہ حکومت سے ہے۔

اسکے علاوہ ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب نے بھی کسی ٹی وی ٹاک شو میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں گفتگو کی۔ پھر سب سے زیادہ اہم اور دلچسپ نکتہ یہ تھا کہ 29 نومبر کو جب فلسطینیوں سے یکجہتی کا عالمی دن منایا جا رہا تھا تو پاکستان کے نیوز چینلز پر انصافین حکومت کے وزیر خارجہ کی کشمیریوں کے حق میں کہی گئیں باتوں کو نشر کیا جا رہا تھا حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ ملت شریف پاکستان ہر سال 5 فروری کو مظلوم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے یوم کشمیر مناتی ہے، اسی لئے عالمی یوم فلسطین پر اس بیان کی ٹائمنگ بھی معنی خیز ہے۔ بات یہیں نہیں ختم ہو جاتی بلکہ سو روزہ کارکردگی کو عوام تک پہنچانے کے لئے چالیس ارب روپے مالیت کے اشتہارات ذرایع ابلاغ کو جاری کئے جاتے ہیں تو اس میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کو دوستوں میں شمار کیا جاتا ہے، ان سے متعلق خبروں کے تراشے اس اشتہار کی زینت بنائے جاتے ہیں جبکہ امریکہ کے حوالے سے عمران خان کا یہ بیان کہ امریکہ کا کوئی ناجائز مطالبہ نہیں مانیں گے اور بھارت کے بارے میں بھی پرامید بیان کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کرے گا، یہ سب کچھ سو روزہ کارکردگی کے اشتہار میں کامیابی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ لیکن وزیراعظم عمران خان نے یو ٹرن کے دفاع میں جو تاریخی بیان دیا، اس نے ہر بااصول پاکستانی کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ نہیں معلوم کہ ریاست مدینہ یا جناح کے پاکستان کی طرف جانے والے راستے پر سفر پر بھی یو ٹرن لے لیں اور اسے بھی عظیم قائدین کا طرہ امتیاز قرار دیں۔

انہی خدشات کے پیش نظر دو تین نکات پاکستان کی فلسطین پالیسی کے حوالے سے بھی موجودہ حکومت تک پہنچنے چاہئیں۔ اس حوالے سے صدر مملکت، وزیراعظم اور قومی و صوبائی قانون ساز اداروں کو فلسطین دوست پاکستانیوں کی طرف سے خطوط لکھے جا رہے ہیں۔ جہاں تک بات ہے رکن قومی اسمبلی عائشہ حدید کی تو یہ نکتہ نسل پرست غاصب اسرائیلیوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اولاد ابراھیم یعنی عربوں کو انکے اجداد کی اس سرزمین پر رہنے کا حق تسلیم کیا جائے کہ جس سرزمین سے نسل پرست یہودیوں نے انہیں بے دخل کیا تھا۔ میری مراد صرف فلسطینی عرب ہیں نہ کہ دوسرے خطوں کے فرزندان زمین عرب۔ آج فلسطینی عربوں کی وسیع تعداد لبنان، شام سمیت دوسرے ممالک میں پناہ گزینوں کی حیثیت میں زندگی گذار رہے ہیں بلکہ دو تین نسلیں تو ایسے فلسطینیوں کی ہیں، جو ان پناہ گزینوں کی اولادیں ہیں، جو پیدا ہی کیمپوں میں ہوئی ہیں۔

یہ پاکستان کے اراکین قومی اسمبلی یا پاکستانیوں کے سمجھانے کی بجائے خود عائشہ حدید کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم ہو رہا ہے، مسلمانوں اور عربوں کی نسل کشی کروائی جا رہی ہے اور ایسا کرنے اور کروانے والوں میں فلسطین کا غاصب اسرائیل اور اسکا سرپرست امریکہ ہی نہیں بلکہ وہ دو عرب ممالک یعنی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت بھی انکے اتحادی ہیں کہ جن کی خدمت میں عائشہ حدید کی انصافین حکومت نے کشکول رکھ دیا ہے۔ فلسطین پر غیر فلسطینی یہودیوں کو کس قانون اور اخلاقیات کے تحت حق حاصل ہے۔ وہ انہی ملکوں میں رہیں جہاں کے وہ شہری تھے۔ ظلم کی انتہا ہے کہ فلسطینی عرب تو پناہ گزین بن کر رہیں اور غیر فلسطینی یہودی امریکہ، یورپ، افریقہ یا کسی بھی براعظم کے کسی بھی ملک سے اٹھ کر مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) میں لاکر آباد کر دیئے جائیں۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ریاست مدینہ نے یہودیوں کے ساتھ اگر ایگریمنٹ کئے تھے تو وہ یہودی وہیں کے باسی تھے۔ البتہ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ ان یہودی قبائل نے ریاست مدینہ کے بانی آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی بھی کی تھی، وہ فریب کار بھی تھے، معاہدوں پر عمل نہیں ہوتا تو وہ ختم ہو جاتے ہیں۔ ریاست مدینہ نے بھی عادلانہ امن کے قیام کے لئے جنگیں لڑیں تھیں اور انہی میں سے ایک غزوہ خیبر بھی تھا۔ قرآن شریف میں جو سورہ حشر کی آیات سمیت جو دوسری سورتوں میں یہودیوں کے حوالے سے آیات ہیں، انکی تفسیر اور خیبر سمیت دیگر جنگوں کا احوال موجودہ وفاقی وزیر مذہبی امور خود اپنی حکومت کے کارپردازوں کے سامنے بیان کریں، تاکہ اس طرح کی جاہلانہ و غیر منطقی تقریروں سے مستقبل میں بچا جا سکے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بانی پاکستان بابائے قوم محمد علی جناح جنہیں عمران خان اور انکی انصافین حکومت بھی قائد اعظم مانتی ہے، انہوں نے فلسطین پر یہودی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ علامہ اقبال کی رحلت جعلی ریاست کے قیام سے بہت پہلے ہوگئی تھی، لیکن وہ بھی واضح کہہ چکے تھے کہ خاک فلسطین پر یہودیوں کا کوئی حق نہیں ہے، ورنہ اسپین پر بھی مسلمانوں کا حق تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے تو اس وقت بھی خبردار کیا تھا کہ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔

پاکستان کی بانی جماعت اور بانیان پاکستان کا موقف تاریخ میں محفوظ ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے ہی ہمارے اجداد نے فلسطین پالیسی وضع کر لی تھی، جو عادلانہ اصولوں پر مبنی، مدلل اور منطقی تھی۔ پاکستان کے قیام کے بعد بھی وہی پالیسی برقرار رہی۔ ہم پاکستانی ہیں اور ہماری فلسطین پالیسی کا تعلق نہ تو سعودی عرب سے ہے اور نہ ہی مصر یا متحدہ عرب امارات سمیت کسی بھی دوسرے ملک سے۔ چوتھا نکتہ جسے ترتیب کے حساب سے پہلا نکتہ سمجھا جائے، وہ یہ ہے کہ اسرائیل قانونی و اخلاقی لحاظ سے ایک جعلی ریاست ہے، جو نسل پرستی کی بنیاد پر غیر ملکی یہودیوں پر مشتمل اقلیت نے ہگانہ، ارگون جیسے یہودی نسل پرست دہشت گرد گروہوں اور لینڈ مافیا کے ذریعے اکثریتی آبادی کے فلسطین پر قبضہ کرکے قائم کی تھی۔ یہ ریاست غیر قانونی ہے، نسل پرست ہے، دہشت گرد ہے اور غیر جمہوری ہے۔ جمہوریت ہو تو مقامی فلسطینی عرب اس سرزمین کی اکثریت ہیں جبکہ یہودی غیر مقامی ہیں، یعنی یہ فلسطین کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لئے سامراجی سازش کے تحت یہاں آباد کئے گئے تھے۔ یہ تاریخ ہے، اسے سمجھے بغیر بانیان پاکستان کی فلسطین پالیسی نہیں سمجھی جاسکتی۔
 
عمران خان اور انکی انصافین حکومت کو سابق وزیراعظم نواز شریف بہت برے لگتے ہیں، لیکن سعودی محبت میں عمران حکومت نواز حکومت سے بہت زیادہ آگے جاچکی ہے، اسی طرح خدشہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت سعودی اور اماراتی محبت میں پاکستان کی عادلانہ و اصولی فلسطین پالیسی سے بھی یو ٹرن لے سکتی ہے۔ اسی لئے ہم یہ عرض کر رہے ہیں کہ جب متحدہ عرب امارات ایک ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر موجود نہیں تھا، تب بھی پاکستان پورے فلسطین کو عرب ریاست قرار دیتا تھا، حتیٰ کہ جب پاکستان قائم نہیں ہوا تھا، تب بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مستقبل کے بانیان پاکستان کی فلسطین پالیسی یہی تھی۔ یہ نکتہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کی فلسطین پالیسی کا سعودی عرب سمیت کسی بھی مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان کی فلسطین پالیسی کے حوالے سے ماضی میں کابینہ نے ایک تبدیلی منظور کی تھی۔ اس کے تحت طے کیا جا چکا ہے کہ جب سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر لے گا تو ہم بھی کر لیں گے، یعنی پاکستان سعودی عرب کی تقلید کرے گا۔

اگر عمران خان کی انصافین حکومت کا تبدیلی کا نعرہ سچا ہے تو انہیں سابق کابینہ کے اس اجلاس کے جو منٹس (اجلاس کے سرکاری ریکارڈ) کا از سرنو جائزہ لے کر نیا فیصلہ کرنا چاہیئے کہ پاکستان کی فلسطین پالیسی سعودی عرب سمیت کسی ملک سے نتھی نہیں ہے۔ موجودہ حکومت سمیت ہر وہ پاکستانی جو اسرائیل سے تعلقات میں پاکستان کا فائدہ ڈھونڈ رہا ہے، اس کے سامنے ایسی کونسی مثال موجود ہے، جس سے ثابت ہوسکے کہ کسی بھی مسلمان یا عرب ملک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے سے فائدہ ہوا ہے؟ کیا سعودی بادشاہت، اماراتی شیوخ یا مصری ڈکٹیٹر، انکی دنیا میں اوقات کیا ہے؟ یہ ممالک بھی مقروض ہیں، یہ ہم سے زیادہ امریکی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں۔ ان میں سے کونسا ملک ہے، جو بھارت کو ناراض کرکے پاکستان کو خوش رکھ سکتا ہے؟ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اتنے زیادہ اچھے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر بھی لے، تب بھی پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں ایک ٹکے کا فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اسرائیل تو چھوڑیں، پاکستان نے تو اس دنیا کی سب سے بڑی مادی طاقت امریکہ و برطانیہ کے لئے اس خطے میں سب کچھ کرکے دیکھ لیا، سیٹو، سینٹو، نان نیٹو اتحادی، موسٹ الائیڈ ایلائی، یہ سب تمغے لے کر بھی کشمیر کے ایشو پر آپ اکیلے ہیں، 1965ء، 1971ء کی جنگیں پاکستان کو لڑنا پڑیں اور لگ پتہ گیا کہ اسرائیل کو فلسطین پر مسلط کرنے والوں کی نظر میں آپکی حیثیت اور اور اوقات کیا ہے؟ انصافین حکومت یاد رکھے کہ ریاست مدینہ اور جناح کے پاکستان دونوں کی فلسطین پالیسی میں اسرائیل نام کے سرطان کی کوئی گنجائش نہیں ہے!
خبر کا کوڈ : 764135
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

پیر سید اعجاز حیدر
Pakistan
آپکی تحریر بہت جامعہ ھوتی ھے
Germany
عائشہ حدید کی تقریر کے علاوہ باقی سب ہوا میں تیر ہیں۔کیسا جہاز اور کونسا جہاز آپ کو پہلے پتہ کرنا چاہیے اور پھر تحلیل کرنی چاہیے۔ اسی طرح یوم فلسطین کے روز کشمیر کے بارے میں بات کرنا کی دین اسلام میں ممنوعیت ہے۔ آپ ضرور انصافین کے خلاف لکھیں لیکن بے سروپا باتوں کی بنیاد پر نہیں۔
میں آپ کا ایک ادنیٰ سا قاری ہوں اور آپ کی تحریر کا سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہونا مجھے اچھا نہیں لگا۔
Bulgaria
بی بی سی اردو کے طاہر عمران کی ایک رپورٹ اس ویب سائٹ پر شایع ہوچکی ہے۔ کونسا طیارہ اور کیسا طیارہ تھا یہ سب تفصیلات موجود ہیں۔ محترم عرفان علی نے اسرائیل تا پاکستان براستہ عمان کے عنوان سے جو کالم لکھا تھا، اس میں بھی تفصیل موجود تھی۔ لیکن ایک طبقہ ایسا ہے جسے سچ ہضم نہیں ہوتا اور اگر پی ٹی آئی حکومت انکا بت ہے یا انکی جماعت یا قائدین انکے بت ہیں، جن کے وہ پجاری ہیں تو چونکہ انہوں نے موجودہ اتحادی حکومت کے ہر غلط عمل کی توجیہ کرکے اسکا دفاع کرنے کی ٹھان لی ہے تو آدم زاد پجاریوں کا یہ ٹولہ بھی بغیر سوچے سمجھے بے سروپا ردعمل کو اپنی دانست میں ٹھوس دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ کیا حکیم محمد سعید، ایدھی نے موجودہ حکمران کے حوالے سے ماضی میں جو کچھ کہا وہ بھلا دیا جائے۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے فرامین، سورہ حشر کی آیات، جنگ خیبر، مدینہ کے اطراف کے قبائل کی خیانتیں، عہد شکنی سب کچھ تاریخ اسلام سے حذف کر دی جائیں کیونکہ قوم یوتھ کے مجلسی چاپلوس ٹولے کو تاریخی حقائق اپنے بت کی توہین لگ رہے ہیں۔ محترم عرفان کی یہ تحریر بروقت ہے، حکومت کو خبردار کیا ہے، درخواست کی ہے کہ اسرائیل کو کسی بھی بہانے سے تسلیم نہ کیا جائے، سعودی سمیت کسی ملک کی پالیسی سے لنک نہ کیا جائے۔ دیگ سے زیادہ چمچہ گرم یہ ٹولہ اسلامی اصولوں، بانیان پاکستان کی فلسطین پالیسی سبھی کچھ تیاگ دینے پر آمادہ ہے کیونکہ انکے بتوں نے پی ٹی آئی سے اتحاد کیا ہے اور وہ تو غلط ہو نہیں سکتے اور یہ خود تو پہلے سے ہی کامیابیوں کے کے ٹو پر چڑھ چکے ہیں۔ نہیں معلوم کہ ہماری اس ملت کا کیا بنے گا۔ ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا!
احسان اللہ
Pakistan
اسرائیلی روزنامہ ھا آریتس کی ویب سائٹ کے چیف ایڈیٹر ایوی شراف کے مطابق تل ابیب سے طیارہ اڑا، اردن میں لینڈنگ کی، کچھ دیر بعد وہاں سے اڑا اسلام آباد آیا۔ بی بی سی اردو نے بھی اسکی خبر دی تھی. اس لئے یہ نہ تو سنی سنائی نہیں ہے نہ ہی بے سروپا ہے۔
Pakistan
نہ تو سنی سنائی ہے نہ ہی بے سروپا ہے۔ خبر بی بی سی اردو نے بھی دی، اس سے پہلے اسرائیلی اخبار کے ایڈیٹر نے ٹویٹ کیا تھا۔ آگے آپکی مرضی ہے۔
Pakistan
سلام. محترم میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس تحریر میں ایسی کونسی بات ہے جو بے سروپا یا سنی سنائی ہے؟ اگر تحریر کی اصلاح مقصود ہے تو نکتہ بہ نکتہ اعتراض کریں. اگر جہاز کی بات ہے تو یہ خبر پاکستانی ذرایع ابلاغ نے بھی دی تھی، بی بی سی اردو نے بھی اور ایک اسرائیلی اخبار کے ایڈیٹر نے تو ٹویٹ بھی کئے تھے. فلسطین سے یکجہتی کے عالمی دن پر بھی فلسطینیوں کے حق میں ایک لفظ نہ کہنے کا کس اسلام نے منع کیا ہے؟؟؟ ابھی تو آپ کو یہی سچ ہضم نہیں ہو رہے ہیں اور انصافین کے خلاف ضرور لکھیں کی بات بھی کرتے ہیں. آخر میں معذرت خواہ ہوں کہ آپکی رائے سے میرے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ صدمہ ہوا کہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے. معذرت چاہتا ہوں اگر وضاحت بری لگے.
Austria
عرفان صاحب، اسلام ٹائمز کی انتظامیہ صرف انجمن ستائش باہمی کے بلیک میلروں سے ڈرتی ہے، انہوں نے ایک تڑی لگائی اس کے بعد سے ہماری رائے کو یہاں پیش کرنے پر سنسر لگا دیا۔ نہیں جانتے کہ یہ رائے بھی شایع ہوگی یا نہیں۔ آپ کا فلسطین کے ایشو پر جو تحریری کام ہے، اردو زبان میں شاید ہی کسی نے پاکستان میں اس ایشو کو اس طرح پیش کیا ہو۔ روزنامہ ایکسپریس میں آپکے کالم ریکارڈ پر ہیں، لیکن آپکی بدقسمتی ہے کہ ایک تو آپ مولوی نہیں ہیں، پھر اس سے زیادہ بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ آپ جماعتوں اور قائدین کے پجاری بھی نہیں ہیں، اسلئے آپکی واہ واہ تو ہونی نہیں ہے اور غلطی سے اگر کوئی پیر اعجاز حیدر جیسا مست ملنگ کر بھی دے تو پھر حاسدین کا ٹولہ اس پر اپنی جاہلانہ و طنزیہ رائے سے قارئین کے ذہنوں کو گمراہ ضرور کرنے کی کوشش کرے گا۔ آپ نے چونکہ تحریک انصاف کی غیر متوازن پالیسی پر متوازن سچ لکھا ہے اور یہ حکمران جماعت انجمن ستائش باہمی کو پسند ہے، اس لئے یہ اندھے ور بہرے بن گئے ہیں اور انہیں سامنے کی حقیقت نظر نہیں آرہی۔ سعودی و اماراتی شیوخ کے قدموں میں سجدہ ریز حکمرانوں کے لئے انکا حسن ظن اور آپ کے لئے سوئے ظن چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ کتنے۔۔۔۔۔ لوگ ہیں۔ خدا آپ سمیت پورے پاکستان کو ان کے شر سے بچائے۔
Pakistan
Very good column Mashallah on govt trying to change of policy on Palestine. The writer rightly indicated intentions of govt.
Russian Federation
شرم سے ڈوب مرنا چاہیے ان لوگوں کو جو اپنے گرہبان میں نہیں جھانکتے اور محترم کالم نویسوں کی اہانت کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی اوقات ان کے کمنٹس سے ہی ظاہر ہو جاتی ہے اور ان کی اوقات ہے بھی اتنی ہی کہ گندگی پر بیٹھنے والی مکھیوں کی طرح خامیاں تلاش کرتے رہتے ہیں۔
دوسری طرف وہ چمچے بھی شرمناک حد تک سرگرم ہیں، جو اپنی نافہمی کی بنیاد پر کالم نویس اور قاری کے رشتے کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
کالم نویس اور قاری کے درمیان استاد اور شاگرد کی طرح محترمانہ رشتہ ہوتا ہے، جس کے اندر رہتے ہوئے شاگرد اپنے استاد سے سوال کرنے کا حق رکھتا ہے۔
چمچوں کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ بھی غلط روش ہے کہ سوال کرنے والا اپنی اوقات بھول جائے اور کالم نویس سے کہے کہ آپ نے ہوا میں تیر مارا یا بے سروپا باتیں کیں۔ ان سارے غلط رویوں اور گھٹیا کمنٹس کو اسلام ٹائمز پر نشر ہی نہیں ہونا چاہیے، تاکہ کمنٹ کرنے والے کی بھی تربیت ہو اور اسے معلوم ہو کہ اگر میں حد ادب سے گروں گا تو میرے کمنٹس شائع نہیں ہونگے۔
سوال پوچھنے والا چاہے جس بھی گروہ یا گروپ کا ہو، ظاہر ہے اسے ایک بات سمجھ نہیں آتی یا وہ لاعلم ہوتا ہے، اس لئے پوچھتا ہے۔ لہذا اس کو کسی گروہ سے متہم کرنا بھی شرمناک فعل ہے۔ کالم نویس قومی سرمایہ ہوتا ہے اور اس سے حد ادب میں رہتے ہوئے کوئی بھی سوال پوچھنے کا حق رکھتا ہے۔
لہذا چمچہ گیری سے کالم نویس اور قاری دونوں کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ چمچوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اوقات میں رہیں۔ اگر یہ چمچے اتنی ہی سمجھدار ہیں تو خود لکھیں کیا کسی نے انہیں منع کر رکھا ہے۔
عبداللہ
United Kingdom
چھوٹے میاں تو چھوٹے میاں بڑے میاں سبحان اللہ۔ مسٹر عبداللہ یہ مشورہ اپنے لاڈلوں کو دیں کہ وہ کوئی مدلل تحریر لکھنا سیکھ لیں، تاکہ اس طرح کی جھوٹی اور خائنانہ باتوں کے ردعمل کی نوبت ہی نہ آپائے۔ سچا کمنٹ آپکو چمچہ گیری لگ رہا ہے اور حد ادب کی باتیں بھی کر رہے ہیں۔ جس لب و لہجے میں آپکی رائے ہے، اسکا اسلام ٹائمز پر شائع ہو جانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ جس کسی نے آپ لوگوں کا نام انجمن ستائش باہمی رکھا ہے اور جس کسی نے آپ لوگوں پر بلیک میلنگ کا الزام لگایا ہے وہ سولہ آنے سچ بات کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز کی انتظامیہ میں اس ٹولے کا کوئی نہ کوئی کارکن ضرور شامل ہے جو مستند تحریروں پر طنزیہ رائے کو شائع کرتا ہے اور کوئی ایسا غیر جانبدار اور بہتر فرد بھی ہے جو کبھی کبھار ہم جیسوں کی رائے کو بھی شائع کر دیتا ہے، ورنہ زیادہ تر ہماری رائے شائع ہی نہیں ہوتی۔ چونکہ ہم محترم عرفان کی تحریروں کو ایک طویل عرصے سے پڑھ رہے ہیں تو ہمیں یہ اندازہ ہے کہ انکی جانب سے سہواً کوئی نکتہ غلط ہو جائے تو ہو جائے، دانستہ طور نہیں ہوسکتا ورنہ پچانوے تا اٹھانوے فیصد غلطی کا احتمال نہیں دیکھا گیا۔ حتیٰ کہ ہمیں یاد ہے کہ اگر کسی قاری نے کسی نکتے کی طرف اشارہ کیا اور قاری کی رائے درست ثابت ہوئی تو محترم عرفان نے معذرت کے ساتھ ایسوں کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ یہ آپ کی انجمن چاپلوسان انصافین کی طرح کے ڈھیٹ آدمی نہیں ہیں۔ کالم نگار اگر جید ہو تو قومی سرمایہ ہی ہوتا ہے لیکن یہ بھی سارے پاکستانی جانتے ہیں کہ دو نمبر حکمران طبقہ اور اسکے چاپلوس اتحادی قومی سرمائے کا بھی وہی حشر کرتے ہیں، جو آپکی انجمن ستائش باہمی عرفان صاحب جیسے کالم نگاروں کا یہاں کر رہے ہیں۔ لیکن بعض کالم نگار جماعتی وابستگی کی بنیاد پر متعصب بھی ہوتے ہیں اور اپنی پارٹی لائن اپنی تحریروں میں چلانے کی وجہ سے چاپلوسوں کے لئے سرمایہ ہوتے ہیں، اس لئے انکی بے تکی باتوں پر جب کوئی احترام کے ساتھ بھی ضعیف نکات پر توجہ دلائے، سوال کرے، وضاحت چاہے تو ایسے طالب علم قارئین کا جو حشر نشر آپ لوگ کرتے ہیں، اب تو اسلام ٹائمز کے سارے قارئین کو اسکی عادت ہوچکی ہے۔ مسٹر عبداللہ یہ فاشسٹ لوگوں کی طرح تڑیاں مت لگائیں اور دلیل سے بات کرنے کی تمیز سیکھیں، کسی پر چمچہ گیری کی تہمت جائز ہے لیکن ناقابل تردید چاپلوسی در حمایت پی ٹی آئی بھی آپکی نظر میں قابل قبول نہیں۔ حیف ہے اس مائنڈ سیٹ پر۔ تہمت تو تب لگائی جائے جب انصافین حکومت کی اتحادی شیعہ جماعت اپنے آپکو لاتعلق رکھے، جب علی الاعلان ساتھ ہیں تو پھر تنقید برداشت کرنے کا مادہ بھی پیدا کریں۔کم از کم اتحادیوں پر تو تنقید نہیں کی، اسکے باوجود آپے سے باہر ہونا یعنی وہی دیگ سے زیادہ چمچہ گرم۔ کالم نگار ہی کو جواب دینا ہے تو وہ تو دے چکے ہیں، لیکن آپ جیسی ہستیوں کی رائے دیگر تحریروں پر دیکھ کر ہم جیسے قاری مجبور ہوئے کہ جہالت و خیانت پر مبنی توہین اور جماعتی کالم نگاروں کی مجہول باتوں پر واہ واہ کے جواب میں ہم بھی اپنا حصہ ڈالیں۔ اگر آپ اس اہانت آمیز رائے پر برقت ردعمل کر دیتے تو ہم جیسے اسکی جہالت پر اسی طرح خاموش رہتے، جیسے کچھ دنوں پہلے جو انجمن چاپلوسان کی توہین آمیز مہم پر رہے تھے کیونکہ کچھ لوگوں کو خیال تھا کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ ابھی جو کچھ آپکے جماعتی کالم نگار لکھ رہے ہیں، اگر اس پر رائے دے دی تو پھر اپکی چیخیں نکل جائیں گی۔ اول تو اسلام ٹائمز میں آپکا جو آدمی بیٹھا ہے اس نے شائع ہی نہیں ہونے دینی۔ اگر ہوگئی تو معجزہ ہی سمجھیں گے، کیونکہ ہمارے کمنٹس سے اسلام ٹائمز کے پی سی کی ڈسٹ بن فل ہو جاتی ہے اور وہ یہاں آپ جیسوں کی انہی تڑیوں اور بلیک میلنگ کی وجہ سے شائع ہی نہیں ہوتے۔ بہرحال آپکے ٹولے کی چاپلوسی کا حق و سچ پر مبنی جواب دیا جاتا رہے گا۔ اب یہ اس ویب سائٹ کے مسئولین پر منحصر ہے کہ وہ خیانت آمیز مائنڈ سیٹ کی بلیک میلنگ سے ڈر جاتے ہیں یا پھر غیر جانبداری کو ثابت کرتے ہیں۔
ہماری پیشکش