0
Sunday 2 Dec 2018 01:40

یورپ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف شدید احتجاج کی لپیٹ میں

یورپ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف شدید احتجاج کی لپیٹ میں
تحریر: علی قنادی

پیرس میں زرد جیکٹس گروپ کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب یہ مظاہرے مزید پھیل کر یورپی یونین کے مرکز بلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں بھی پہنچ گئے ہیں۔ اسی طرح ہالینڈ اور برطانیہ میں بھی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ فرانس کا دارالحکومت پیرس پہلے سے ان مظاہروں کی لپیٹ میں تھا جبکہ جمعہ کے روز سے برسلز میں بھی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ برسلز کے مظاہروں میں شریک افراد نے وزیراعظم چارلس مائیکل کے استعفی کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ نعرے لگا رہے تھے "مائیکل استعفی دو"۔ بعض افراد نے پولیس پر پتھراو بھی کیا۔ بلجیئم پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ مظاہرین نے پولیس کی دو گاڑیاں بھی نذر آتش کر دیں۔ بلجیئم کے مظاہروں پر پولیس نے دھاوا بول دیا اور تقریباً 60 افراد کو گرفتار کر لیا۔ مظاہرین نے شہر کی میٹرو سروس بند کر دی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پیرس میں جاری مظاہروں کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے ہیں۔ ہنگاموں کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ یورپی کمیشن کا مرکز دفتر بند کر دیا گیا۔
 
فرانس میں گذشتہ تین ہفتوں سے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ ان تین ہفتوں کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک اور سو سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ چونکہ تمام مظاہرین نے زرد جیکٹس پہن رکھی ہیں لہذا یہ مظاہرے زرد جیکٹس کے مظاہروں سے مشہور ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف پیرس میں پولیس اب تک 250 مظاہرین کو گرفتار بھی کر چکی ہے۔ یہ مظاہرے اب صدارتی محل کے قریب تک پہنچ گئے ہیں۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ معروف مقام شانزے لیزے ایونیو میں بھی ہر جگہ آنسو گیس اور آگ دکھائی دیتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق پیرس میں مظاہرین کو روکنے کیلئے 5 ہزار پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔ دوسری طرف مختلف خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق ان مظاہروں میں 75 ہزار شہری شریک ہیں۔
 
فرانس میں مظاہروں کا یہ سلسلہ 17 نومبر کو شروع ہوا۔ ابتدا میں یہ مظاہرے ڈرائیورز، تجارتی یونینز اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے شروع کئے گئے۔ اس احتجاج کی اصلی وجہ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ تھا۔ میکرون کی موجودہ حکومت نے بعض وجوہات کی بنا پر پیٹرول کی قیمتوں میں 15 سے 23 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس اضافے کی وجہ ماحولیات سے متعلق اپنی پالیسیاں بیان کی ہیں۔ مظاہرین کا خیال ہے کہ ماحولیات سے متعلق موجودہ فرانسیسی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں درمیانے طبقے کے افراد پر بہت زیادہ معاشی دباو آ رہا ہے۔ اس بارے میں انجام پانے والے سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرانس کی 73.6 فیصد عوام زرد جیکٹس والے مظاہرین کی حامی ہے۔ اب ان مظاہروں کا دیگر یورپی ممالک تک پھیل جانے کے بعد یورپی حکمرانوں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وہ بات جو زیادہ پریشان کن ہے یہ ہے کہ مظاہرین کی بڑی تعداد کا تعلق دائیں بازو کی روایتی یورپی جماعتوں سے ہے جن میں نسل پرستانہ سوچ بھی پائی جاتی ہے۔
 
فرانس کے سیاسی ماہر فامکے کرامبولر نے پیرس میں این بی سی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی نظر میں یہ نئی احتجاجی تحریک سفید فام درمیانے طبقے کے افراد پر مشتمل ہے جو ایسا طبقہ ہے جسے فرانس میں نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ ایک اور بات جس نے یورپی سیاسی رہنماوں خاص طور پر فرانس کے وزیراعظم ایمونوئل میکرون کو شدید پریشان کر رکھا ہے وہ یہ ہے کہ اس احتجاجی تحریک کا کوئی خاص لیڈر نہیں۔ ماہر سیاسیات ڈومینیک رینی اس بارے میں کہتے ہیں: "یہ احتجاجی تحریک فرانس کے سیاسی نظام میں بحران کی علامت ہے۔" انہوں نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا: "میکرون کے برسراقتدار آنے کے بعد حالیہ مظاہرے اہم ترین حادثہ اور طاقتور بحران ہے۔ حکمران جماعتیں اس بات سے غافل تھیں کہ ان کی اقتصادی پالیسیوں کا نتیجہ موجودہ بحران کی صورت میں ظاہر ہو گا۔" سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ فرانس میں یہ ایسی پہلی احتجاجی تحریک ہے جس کی بنیاد سوشل نیٹ ورکس پر استوار ہے اور اس میں سیاسی جماعتوں یا یونینز کا کوئی کردار نہیں۔
خبر کا کوڈ : 764378
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش