0
Monday 3 Dec 2018 15:47

یمن بحران اور پاکستان کا کردار

یمن بحران اور پاکستان کا کردار
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے وزیرستان کے دورے پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا، نہ ہی پاکستان کے اندر کسی کی جنگ کو داخل ہونے دیگا۔ انکا بیان افغانستان میں جاری جنگ اور اسکے پاکستانی کردار کے تناظر میں ہے۔ افغانستان پاکستان کا پڑوسی ملک ہے، پاکستان کا من و امان اور استحکام بہت حد تک پڑوسی ملکوں سے مشروط ہے۔ لین بین الاقوامی تعلقات بالخصوص اسلامی ممالک کیساتھ ہمارے تعلقات گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ عالم اسلام داخلی کمزوریوں اور بیرونی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مسلسل تنازعات اور بحرانوں کی زد میں ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حالات بھی افغانستان کی طرح غیریقینی کا شکار ہیں، دونوں خطوں کے حالات ایکدوسرے منلسک ہیں، اس طرح پاکستان کا کردار زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے خارجہ پالیسی میں بھی نمایاں تبدیلی کی ضرورت ہے، جس کا اظہار کئی بار عمران خان کر چکے ہیں۔ یمن پہ پاکستانی پالیسی کے متعلق پارلیمنٹ کی قراردادوں میں اسکی رہنمائی موجود ہے۔

تاریخی عرب ملک یمن کا ماحول بھارت یا پاکستان جیسا ہے۔ یمن میں تیل کی تلاش کے علاقے قبائلی لوگوں کو دئیے جاتے ہیں۔ یہ علاقے قومی قبائل کے زیراثر ہیں یہ وہی لوگ ہیں، جو آج کل یمن کی حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔سعودی عرب کی سرحد کے ساتھ یمن کی سرحد کے پہاڑی علاقے ہمارا فاٹا کی طرح دکھائی دیتے ہیں اس علاقے کے بچوں کے ہاتھوں میں بھی  بندوقیں   ہوتی ہیں  لوگوں کی عادات بھی ہمارے قبائلی علاقہ کے لوگوں جیسی ہیں، سب لوگ گوشت خور ہیں۔ شام کو کھانے کے بعد سبز رنگ کے پتے چباتےہیں، جس طرح ہمارے قبائلی بھائی نسوار استعمال کرتے ہیں۔ مشرف دور میں فاٹا میں آپریشن کے بعد وہاں موجود افریقہ اور عرب کے انتہا پسند یمن چلے گئے تھے، انہیں یمن پہنچنے میں سی آئی اے نے مدد دے رکھی تھی۔

ماضی میں یمن کو عرب کا خوش قسمت علاقہ سمجھا جاتا تھا، لیکن آج یہ علاقہ بدقسمتی سے جنگ کا شکار ہے۔ یمن کے پہاڑوں کی وجہ سے وہاں سازشیں زیادہ ہوتی ہیں، حالانکہ یہ علاقہ بہت زرخیز ہے۔ یمن کی تاریخ تین ہزار سال پرانی ہے۔ ایک ہزار قبل مسیح میں جنوبی عرب میں تین قبائل حکمران رہے ہیں۔ یمن میں ملکہ سباء یا شہزادی بلقیس کا وطن ہے۔ ملکہ سباء کو حضرت سلیمانؑ نے اللہ کی وحدانیت قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ جس کا انجیل اور قرآن دونوں میں ذکر ہے۔ حضرت سلمان نے ملکہ سباء سے شادی کرلی اور انہیں یمن کا حکمران رہنے کی اجازت دی۔ یمنی معاشرہ قبائلی معاشرہ ہے، شمالی یمن میں قریباً 400 زیدی قبائل آباد ہیں۔ اسامہ بن لادن کا خاندان بھی جنوبی یمن کی وادی دوان سے تعلق رکھتا ہے، بعد میں لادن خاندان یمن سے سعودی عرب آکر آباد ہوگیا۔ نوے کی دہائی میں جہادی، جو افغانستان میں سویت یونین کی فوج کے خلاف لڑتے رہے، افغانستان سے جاکر یمن میں آباد ہوگئے۔

سعودی عرب اور یمن کے درمیان موجودہ کشمکش ہمیشہ سے نہیں ہے، نہ ہی یہ مسلسل برقرار رہنی چاہیے، یہ پورے عالم اسلام کیلئے خسارے اور نقصان کا باعث ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی کے بیان سے یہ لگتا ہے کہ  مغربی ملکوں کو یہ صورتحال پسند نہیں تھی۔ مغربی ملکوں نے یمن کے ذریعہ مشرقی وسطیٰ کو عدم استحکام کا شکار بنانے کی سازش کی، جسکی وجہ سے سعودی عرب اور یمن کے درمیان تعلقات بہت کشیدہ ہیں، سعودی قیادت کو اسرائیل اور شیطانی طاقتوں کی سازش سے نکل کر ایران کے موقف کا مثبت جواب دینا چاہیے۔ پہلے بھی اایسے واقعات ہوتے رہے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایسی جنگ شروع ہو، جسے ختم نہ کیا جا سکتا ہو۔ جیسا کہ2009ء میں عبداﷲ حسن العسیریم شخص نے جو القاعدہ کارکن تھا، اس نے سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ ایک خودکش حملے میں عمر بن نائف کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس حملے میں شہزادہ بچ گیا۔ خودکش بمبار خود مارا گیا۔ یہ حملہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان کشیدگی کا سبب بن گیا۔

یمن کے حوثی قبائل کا القاعدہ جیسی تنظیموں سے کوئی موازنہ نہیں۔ حقیقت میں حوثی یمن میں سیاسی اور معاشی اصلاحات چاہتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یمنی کسی سنی حکمران کی جگہ شیعہ حکمران کے حق میں ہیں، اس وقت یمن میں جنگ حوثیوں اور حکومت کے درمیان جاری ہے۔ سعودی لابی کا یہ الزام ہے کہ مالی اعتبار سے یمن ایک اہم ملک ہے، جب کہ حوثی سارے ملک پر اپنا کنٹرول چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے سعودی عرب نے 2015ء میں ایک کوالیشن قائم کی، تاکہ حوثیوں کی جنگی طاقت کا خاتمہ کیا جا سکے، آج  تک حوثیوں کے خلاف اس فوجی اتحاد کی جنگ جاری ہے اور آے روز یہ اتحاد یمن پر بمباری کر رہا ہے، جس کی وجہ سے یمنی عوام کو شدید مالی اور جانی نقصان ہو رہا ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک یمن میں امن اور استحکام کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلکہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس ملک کی وجہ سے یمن میں 2015ء سے 2017ء تک 13ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جس میں 5200 بچے بھی شامل ہیں۔

یمن کی تعمیرنو کی حوثی کسی عرب ملک کو اجازت نہیں دیں گے۔ یمن کے اندرونی ذرائع کے مطابق وہ پاکستان آرمی کو یمن کی تعمیر نو کا کام کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نے جو سعودی عرب کی دوستی کا دم بھرتا ہے اور ہمیشہ سعودی عرب کی تعریف کرتا ہے، نے سعودی عرب کے بارے میں انتہائی قابل اعتراض ریمارکس دیئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ میں شاہ سلمان کو پسند کرتا ہوں، لیکن ہم آپ کو تحفظ دے رہے ہیں، ورنہ آپ کی حکومت دو ہفتے تک قائم نہیں رہ سکتی، آپ کو اپنی فوج کے لئے ادائیگی کرنا ہو گی۔ یہ نہ صرف سعودی عرب کے لئے بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لئے چیلنج ہے۔ میرے خیال میں سعودی عرب کو اب پاکستان کے سیاسی یا مالی تعاون کی ضرورت نہیں، سعودی عرب کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ ملک پاکستان کو ان مخصوص حالات کی وجہ سے خاص طور پر دہشت گردی کی وجہ سے کسی اور ملک میں مداخلت سے اجتناب کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو یمن اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کے لیے کردار ادا کرنا چاہے۔ عالم اسلام کو آگے بڑھ کر مخلصانہ انداز میں صدر روحانی کی حقیقت پسندانہ اور مثبت پیشکش کو عملی جامہ پہنانے میں کردار ادا کرنا چاہیے، پاکستان اس سلسلے میں سب سے اہم رول ادا کرسکتا ہے، چونکہ ہمارے سابق آرمی چیف سعودی کوالیشن کی قیادت کر رہے ہیں اور وزیراعظم ثالثی کا کردار ادا کرنیکا اعلان کر چکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 764592
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش