1
0
Monday 3 Dec 2018 19:40

سید علی مرتضٰی زیدی کے اصغریہ علم و عمل تحریک کے تیسرے سالانہ کنونشن میں خطاب سے اقتباس

سید علی مرتضٰی زیدی کے اصغریہ علم و عمل تحریک کے تیسرے سالانہ کنونشن  میں خطاب سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان

پروردگار کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اہلبیت علیھم السلام کے نام پر  جمع ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ خدا ہم کو یہ توفیق دے کہ اس راستے پر چل سکیں، پیروی کریں جس کی آئمہ  نے ترویج کی ہے۔ ایک موقع یہ ہے کہ ہم کسی جگہ پر جمع ہوں،  دوسرا موقع یہ ہے کہ ہم  سیکھیں، پھر تیسرا یہ ہے کہ ہم اس پر عمل کر سکیں۔ ہم صرف جمع ہونے پر اکتفا نہیں کرسکتے۔ اگر ہم نے صرف جمع ہونے پر اکتفا کیا تو اس کا مطلب ہے ہم نے مقدمہ پر عمل کیا۔ آرگنائزرز نے محنت کی، آپ دور دراز علاقوں سے تشریف لائے آپ نے لوگوں کو جمع کیا، اوپر بیان کردہ تین کاموں میں سب سے آسان کام کیا۔ سب سے آسان کام ہوتا ہے جسمانی حرکت۔ ہم گھروں سے نکلے یہاں پہنچے ہم نے حرکت کی یہ ہے آسان کام۔ آج کی ماڈرن لائف میں آپ دیکھیں گے کہ لوگ بہت ہیں، شہر بھرے ہوئے ہیں، جسم نزدیک ہیں مگر ان کے دل دور ہیں۔ ہم اس دور میں یہ مشکل دیکھ رہے ہیں کہ جنگل کم ہو رہے ہیں شہر بڑھ رہے ہیں، انسان بڑھ رہے ہیں، مگر جنگلوں سے بہتر نہیں ہیں۔ دو درخت لگے ہوئے ہوں آپ ایک کو کاٹ دیں دوسرے کو پتا ہی نہیں چلتا۔ ہماری زندگی میں یہ مسئلہ نہیں ہے کہ ہم جمع کس طرح ہوں۔ بعض اوقات انٹرنیٹ پر کوئی پروگرام ہوتا ہے تو دس دس لاکھ لوگ اس کو دیکھتے ہیں۔جغرافیائی طور پر لوگ دور ہوتے ہیں مگر تعلیمی اعتبار سے نزدیک ہوتے ہیں۔ جسمانی طور پر جمع ہوں اس کی نورانیت ہے۔

دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ سیکھیں کیا؟ ہم لوگ بعض اوقات  پروگرام کرتے ہیں اتنے مشغول ہو جاتے ہیں کہ ہم سیکھیں گے کیا؟ خود پروگرام ھدف ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات آرگنائزرز کو تقرریں سننے کا موقع نہیں ملتا اور بعد میں بھی نہیں سنتے۔ انسان سوچتا ہے کہ یہ تقریر ہوئی کس کیلئے۔ جمع ہو جائیں گے مگر سیکھیں کیا؟ جو سیکھا وہ عمل کے قابل تھا کہ نہیں؟ آپ ایسی چیزیں سیکھیں جو آپ کے عمل کے اندر آئیں۔ آپ اگلی باری کنونشن  میں آئیں تو جو عملی پوائنٹ سیکھے تھے، اس کا احتساب کریں کہ آپ نے کتنے فیصد عمل سرانجام دیا۔ آپ نے رپورٹ میں بتایا کہ 2000 پودے لگائے اگلی بار یہ بتائیں کہ ان میں سے بچے کتنے؟ اگلے برس کتنے پودے لگانے ہیں یہ طے کر کے جائیگا۔ ہر چیز کو کسی نہ کسی طرح کوانٹیٹیٹو مییرمنٹ میں ضرور دیکھیں۔ اس طرح ہم ایک دوسرے کا احتساب کر سکتے ہیں۔ بہت چیزیں عدد میں نہیں آسکتی ہیں۔ اگر میں پوچھوں کہ اس ہال میں کتنے لوگ آئے ہیں تو یہ عدد میں آسکتے ہیں مگر ان میں سے کتنے سیکھنے کیلیے آئے ہیں، یہ عدد میں نہیں آسکتا؟ اگر میں پوچھوں کہ میں 45 منٹ بولوں گا اس کا کتنے فیصد افراد پراثر ہوگا؟ نہ ان کو پتہ نہ مجھے پتہ ہے۔ ممکن ہے کہ ان باتون کا اثر ہوا ہو، ممکن ہے کہ نہ ہوا ہو۔ عمل کتنا ہوا؟ بہت پروگرام ہوتے ہیں سیکھنے اور ہوشیاری کی ضرورت ہے۔

سندھ کی سرزمین کی اہمیت کیا ہے؟ یہ اھلبیت کے نام سے منسوب ہے، اس  کو زینت ملی ہے۔ 1920ء سے 1930ء تک بلوچستان بھی اھلبیت کے نام سے منسوب تھا۔ پھر تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اب مشکل کچھ اور ہے اب اکثر جگہوں پر عزاداری بھی کرنا مشکل ہے۔ اس سے سبق یہ ہے کہ اللہ کی نعمتیں قیامت تک کے وعدوں پر نہیں ہوتیں مگر عمل پر ہوتی ہیں۔ بلوچستان اس پوزیشن میں تھا جس میں اب سندھ ہے، شاید سندھ کو بلوچستان کے مقابلے میں عرفا کے حوالے سے فضیلت حاصل ہے۔ بلوچستان کے علاقہ زیارت کا نام زیارتگاہ کیوجہ سے ہے، بعض مورخین نے کہا ہے کہ شمس تبریز وہاں پر تھے، ملتان میں جو شمس تبریز ہیں وہ، وہ نہیں ہیں ان کی زندگی اور شمس تبریز کی زندگی میں سو سال کا فرق ہے۔ سندھ میں عرفا کے مقام کی بلندی اور اہلبیت کی نورانیت ہے۔ اللہ پاک نے جو نعمتیں دی ہیں وہ قیامت تک  کے ابدی وعدوں  پر نہیں ہیں وہ چھن بھی سکتی ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ اگر  تم پلٹتے تو ہم بھی پلٹتے۔ اگر ذمہ داری نہ نبھائی گئی تو دوسری قوم آ جائیگی۔

اللہ پاک نے ہم کو اہلبیت کے نام کیوجہ سے فضیلت بخشی ہے تو اس کا حق بھی بنتا ہے۔ ہم سے پانی، ہوا، درخت، اولاد، زندگی اور دیگر نعمتوں کا حساب لیا جائیگا تو اہلبیت سے نسبت کا بھی حساب لیا جائیگا۔ ہم آئمہ کی طرف منسوب ہیں تو اس میراث کے وارث ہیں، ہمارے پاس ان کا علم ہونا چاہیئے، ہم نے آئمہ کی کتنی روایات پر عمل کیا ہے؟ ، اگلے سال تک تین یا چار روایات سیکھیں اور ان پر عمل کریں تو اثر ہوگا ہم آگے بڑھیں گے اور یہ جھلک نظر آنی چاہیئے۔ مثال صفائی نصف ایمان ہے، نماز اول وقت میں پڑہیں۔ اخلاقیات اہم ہے، ہمارے خُلق کیسے ہیں؟ کیا ہمارے خلق اہلبیت کی تعلیمات کے مطابق ہیں؟ اگر ہم ان کے نام سے منسوب ہیں اور اخلاقیات ان سے نہیں لی ہے تو یہ ناانصافی ہے۔ ہمارے معاشرے میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا ہوتا ہے۔ عجب قسم کی نفسا نفسی رائج ہے، پڑوسیوں کا خیال نہیں، ٹی وی اور انٹرنیٹ پر ایسے کام  کرتے ہیں جو اہلبیت نے نہیں کہے۔ معاشرے میں لیکچر کا اثر نہیں ہوگا، ہماری اخلاقیات کا اثر ہوگا، ہمیں اپنی اخلاقیات کو اہلبیت سے جوڑنا ہوگا۔ انسان میں  مندرجہ ذیل تیں خاصیتوں میں سے ایک بھی ہو تو جنت واجب ہو جاتی ہے۔

1۔ سختی کی حالت میں اللہ کی راہ میں صدقہ  دیں:
سختی کی حالت میں صدقہ کوالٹی ہے، سختی جسم، پیسے اور وقت کی بھی ہو سکتی ہے۔ انفاق اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ ہم اپنے آپ سے پوچھیں ہم نے کیا انفاق کیا ہے؟ قرآن مجید میں رب العزت نے متقین کی  صفت بیان فرمائی ہے کہ متقی وہ ہے جس  کے پیسے پر حق مقرر ہے مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کا۔ ہمارے لوگ کہتے ہیں ہم غریب ہیں، ہم کیا  انفاق کریں؟ کیا روایات میں آیا ہے کہ  غریب انفاق نہیں کرے گا؟ ممکن ہے  کہ پیسہ نہ ہو تو آپ وقت دے سکتے ہیں، درخت لگا سکتے ہیں؟ اللہ کی راہ میں 25 یا 50 درخت لگائیں ان کو پانی دیں، خیال رکھیں یہ بھی تو صدقہ ہے۔ سختی میں انفاق ایمان کی نشانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے، زندگی میں آسانی کا وقت نہیں  ملنا ہے۔ زندگی ہم کو چھوڑے گی نہیں۔ وسائل نکالیں وقت نکالیں۔

2۔ ہر دن اپنے دل کو دوسروں کیلئے کھلا رکھیں:
ہم لوگ قوم قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں، ہم اپنی زبان والے کیلئے اٹھ جاتے ہیں ان کو زیادہ عزت دیتے ہیں، کیوں؟ ہم انسانیت کیلئے ہیں، اپنے دل کو پوری انسانیت کیلئے کھولیں، آپ سب کے کام آئیں۔ ہم نے اپنے اور دوسرے انسانوں کے درمیان فلٹر لگا دیئے ہیں اور رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ انسانوں کیلئے دل کو کھولو، بعض اوقات گنہگار کو بھی قبول کرنا پڑتا ہے۔ آپ گنہگار کے ہمدرد ہو کر ہی اس سے گناہ کو چھڑوا سکتے ہیں۔

3۔ انسان اپنی ذات کیساتھ انصاف کرے:
حلال کی کمائی کو ضائع مت کریں۔ زندگی سے انصاف کریں، جوانی سے انصاف کریں، خدا نے عقل و شعور دیا ہے۔ ہماری ابتداء فجر کی نماز قضا کرنے سے ہو تو کیا ہم نے انصاف کیا؟ زندگی میں جو بھی کام کریں اس سے خدا کو خوش کرنے کی کوشش کریں۔ ہم اپنے بنائے ہوے کھول میں پھنسے ہوے ہیں۔ دوسرے سے یہ سننا کہ ہم غلط کر رہے ہیں تو وہ ہمیں دشمن لگتا ہے اس کا مطلب ہم ٖ خود غرض ہیں۔ سب سے بڑا وہ دشمن لگ رہا ہے جو  آپ کو بتائے کہ آپ غلط کر رہے ہیں، اپنے آپ سے سننا بھی بند کر دیا ہے غلط فہمی کے خول میں ہوتے ہیں۔ پاکستان کی 20 کروڑ آبادی میں 3 سے 4 کروڑ شیعہ ہونگے، جن میں سے آدھے بالغ اور آدھے نابالغ ہیں، ڈیڑہ کروڑ  میں سے کتنے نماز فجر پڑہتے ہونگے۔ لشکر امام کا انتظار ہو رہا ہے کیا اس میں شمولیت کی شرائط نہیں ہونگی؟ بےنمازی کو  امام کیوں بلائیں گے؟ جس کے مال میں حلال اور حرام کا حساب نہیں ہے اس کو امام کیوں بلائیں گے؟

بچوں کیساتھ انصاف کرو ان کی تربیت کرو:
ہم اہلبیت کے نمائندے ہیں ان کے نام سے منسلک ہیں۔ اہلبیت کی روایتیں پڑہیں اس سے ہماری روح زندہ ہوتی  ہے۔ اگر امام کے درس میں شرکت کرنا چاہتے ہیں تو امام کی روایتیں پڑہیں۔ اپنی زندگی کیساتھ انصاف کریں۔
امام کی میراث کیا ہے؟
1۔ علم
2۔ اللہ کیساتھ رابطہ ہونا چاہیے
3۔ انسانوں کی خدمت
ہمار اہلبیت سے تعلق ہے، اللہ سے وہ رابطہ ہونا چاہیئے جو  آئمہ کا تھا۔ عبادت، تلاوت، قرآن، دعا اور نافلہ دعائیں بجا لائیں۔ ہم نماز شب اور قرآن تو پڑہتے ہونگے؟ آئمہ کی زندگیاں بندگی کے علاوہ کچھ نہیں تھیں۔ عبادت کی پلٹ بھی بندگی پر ہے زندگی بندگی سے ہٹ کر کچھ نہیں ہے۔ کوشش کریں روزانہ سورج نکلنے سے پہلے 70 مرتبہ استغفار کریں۔ اس سے روح کو نئی زندگی ملتی ہے۔ اپنی غلطیوں کو سوچیں، خدا جانے ہماری غلطیوں کی تعداد کیا ہوگی۔ ایک مرتبہ حضرت محمد (ص) اصحاب کیساتھ سفر میں تھے اور ایک صحرا میں پڑاؤ ڈالا، کھانا پکانے کیلئے لکڑیوں کی ضرورت تھی آپ نے اصحاب  کیساتھ لکڑیاں ڈھونڈنا شروع کیں، تو لکڑیوں کا ایک ڈھیر بن گیا۔ آنحضرت نے فرمایا جب اللہ آپ کے اعمال سے گناہ نکالے گا، تو اس طرح نکالے گا۔  ہم کہیں گے کہ گناہ نہیں کئے مگر اللہ کا نظام گناہوں کا ڈھیر ظاہر کرے گا۔
گناہ ہمارے نفس پر ذخیرہ ہوتے ہیں آپ اللہ کی بندگی میں آجائیں۔

عظیم الشان ہستیاں انسانوں کی خدمت کیلئے محشور ہوئی تھیں۔ سندھ اور بلوچستان میں غربت ہے، آپ جو  کر سکتے ہیں وہ ضرور کریں۔ پتھر ہلانے تک کا کام کرسکتے ہیں تو وہ بھی کریں۔ نماز فجر کے بعد ایک منٹ کیلئے سوچیں آج امام  کی نصرت کیلئے کیا کرسکتا ہوں؟ آپ امام کی غیبت ختم کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کو امام سے نزدیک کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ کتاب لکھیں یا مدرسہ کھولیں۔ آپ کس کو خوش کر کے، صبر کر کے، دعا دے کر بھی لوگوں کو امام سے نزدیک ہو سکتے ہیں۔ آپ روزانہ ایک ایک کام کریں، ایک ایک رکعت پڑہیں تو آپ کے اکائونٹ  کا اثاثہ کتنا بڑا ہو جائیگا۔ ہمارے معاشرے میں بہت مشکلات بروں کیوجہ سے نہیں بلکہ اچھوں کے کچھ نہ کرنے کیوجہ سے ہیں۔ آپ نافرمانی کو کم نہ سمجھیں بلکہ اچھائی کو کم سمجھیں۔ کوئی بھی کام احسان جتا کر نہ کریں۔ آپ اللہ کیلئے چھوٹا کام کریں گے تو  اس کو بڑا کر دے گا۔ دکھاوے اور احسان جتانے کیلئے کام نہ کریں۔ خلوص سے کام کریں اس کا اثر بھی ہوگا اور بڑھے گا بھی۔
خبر کا کوڈ : 764735
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ياسر علي لاشاري
Pakistan
بھترين درس
ہماری پیشکش