0
Wednesday 5 Dec 2018 12:30

محمد بن سلمان کی تنہائی

محمد بن سلمان کی تنہائی
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ترکی میں سعودی صحافی کو قتل کیا جاتا ہے اور قتل کی تمام واردات اس انداز میں کی جاتی ہے جیسے کوئی فلم چل رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے ایک ڈائریکٹر کچھ ہدایات دے رہا ہے اور سارے لوگ اداکاری کر رہے ہیں، ہر چیز اس ہدایت کار کی مرضی سے ہو رہی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ ہدایتکار جس کے حکم پر سعودی عرب سے ایک جہاز اڑتا ہے، جسم کاٹنے والی آری تک لیکر آتا ہے اور سعودی سفارتخانہ میں کانوں پر ہیڈ فون چڑھا کر ایک انسان کو ٹکڑوں میں تبدیل کر دیتا ہے اور ساتھ کھڑا ایک خود غرض سفیر قتل سے منع کرنے کی جرات تو نہیں کرتا، کہتا ہے اسے یہاں مت مارو، میرے لئے مسائل ہوں گے، اسے یہاں سے کسی اور جگہ منتقل کرو اور وہاں اسے قتل کرنا اور اس نہتے صحافی کو قتل کر دیا جاتا ہے، یہ سب اس ہدایت کار کے حکم پر ہوتا ہے۔ اب یہ ہدایت کار کون ہے؟ اس کا اتہ پتہ کیا ہے؟ دنیا اسے جانتی ہے، جوانی میں ولی عہدی کے منصب تک پہنچا ہے اور بہت تیز رفتاری سے کام کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر اس چیز کو تہس نہس کر دے، جو اس کے مقابل آئے، اب ایک صحافی جو زیادہ سے زیادہ اس کے مقابل لکھ ہی سکتا تھا، اس کی یہ آواز بھی کسی طور پر  شہزادہ محمد بن سلمان کو قطعاً پسند نہیں تھی۔ اسی لئے آزاد میڈیا اور دنیا بھر  سے ماہرین سیاست کے مطابق جمال خاشقجی کو محمد بن سلمان کے حکم پر قتل کیا گیا۔

اب ظاہری صورتحال یہ ہے کہ مغربی دنیا میں آزادی اظہار کو ایک بڑی قدر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور صحافی اس کا بنیادی ستون ہے۔ جمال خاشقجی ایک تو  صحافی تھا اور دوسری اہم بات جو لوگ بھول جاتے ہیں، وہ یہ کہ وہ امریکی روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کا صحافی تھا، ویسے تو اطلاعاً عرض ہے کہ یمن میں بھی ہر روز سعودی عرب کی براہ راست بمباری کی وجہ سے نہتے لوگوں کے ساتھ ساتھ بڑی  تعداد میں صحافی قتل ہو رہے ہیں، مگر پوری دنیا میں ان کا نام تک نہیں لیا جاتا۔ جمال خاشقجی کے خون پر واویلا اس لئے کیا گیا، کیونکہ ایک امریکی ریاست کے ستون کے ساتھ چھیڑ خوانی کی گئی ہے۔ امریکی خوش ہیں کہ محمد بن سلمان نے یہ حماقت کی، کیونکہ اب وہ بن سلمان سے مزید آسانی کے ساتھ بڑے پیمانے پر سودے بازی کر لیں گے، مگر  ظاہری طور پر امریکی اور یورپی عوام میں ایک غصہ ہے اور اس غصہ پر ردعمل کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے، نہیں تو الیکشن میں ووٹوں کا مسئلہ ہو جائے گا اور پوری دنیا میں آزادی اظہار کے نام پر اپنی تہذیب اور اپنا کلچر نافذ کرنے کا سلسلہ بھی کمزور ہو جائے گا، اس لئے ضروری ہے کہ محمد بن سلمان کی تھوڑی بہت مذمت کی جائے اور اپنی عوام کو دکھایا جائے کہ دیکھو ہم نے کس قدر سخت ایکشن لیا ہے۔

اس واقعہ کے بعد پہلی بار محمد بن سلمان کسی بین الاقوامی اجلاس میں شریک ہوئے، وہ جی 20 ممالک کا اجلاس تھا، جس میں سربراہان مملکت شریک تھے اور سعودی وفد کی قیادب محمد بن سلمان کر رہے تھے۔ اجلاس کے بعد محمد بن سلمان گروپ فوٹو کے لئے آئے تو روایتی عربی لباس پہنے ہوئے تھے اور چہرے سے  خوش نظر آنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر ان کے چہرے سے دباو کی جھلک کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ آئے اور ایک سائیڈ پر کھڑے ہوگئے، مختلف سربراہان مملک ان کے آس پاس سے گذرتے رہے، مگر کوئی ان کے پاس نہیں آیا، وہ بار بار عبا کو سیدھا کرتے رہے، تاکہ خود کو مصروف دکھا سکیں، مگر ان کی تنہائی چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ یہ دنیا بھی عجیب ہے، کل تک جس شخص کی تعریفوں میں مغربی میڈیا زمین آسمان کے کلابے ملا رہا تھا، عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت اور سعودی عرب میں سینما کھولنے کے اعلان نے تو گویا مغربی تہذیب کے ثناء خوانوں کو قریب قریب یہ دکھا دیا تھا کہ اب اسلام کے مرکز پر ان کا جھنڈا جلد لہرائے گا، اس کی قیادت کرنے والا محمد بن سلمان ہوگا اور آج وہی محمد بن سلمان  تنہائی کا شکار فوٹو سیشن کے چبوترے پر موجود تھا اور کوئی اسے لِفٹ نہیں کرا رہا تھا۔

میں دیکھ رہا تھا تو مجھے بار بار خطے میں امریکی وفاداروں کا انجام ایک فلم کی طرح چلتا دکھائی دیا۔ ایک دور تھا کہ صدام پر امریکی محبتوں کی برسات تھی، وہ ایک میزائل مانگتا تھا تو دس ملتے تھے، وہ ایک ارب ڈالر کا کہتا تھا تو چار ارب ڈالر حاضر ہو جاتے تھے، وہ جب لاڈ پیار کو سچ سمجھ کر کویت پر چڑھ دوڑا تو امریکی میزائلوں نے اسے واپسی کا راستہ دکھا دیا اور خود امریکہ کو جب اسے ہٹانا مقصود ہوا تو اس کی فوجوں کے بغداد داخلے سے پہلے بغداد سقوط کرچکا تھا اور وہ ساری خیالی فوج تحلیل ہوچکی تھی۔ یہ الگ کہانی ہے کہ پھر اسی فوج کو داعش کے لئے کیسے متحرک کیا گیا، مگر اس وقت یہ صورتحال ہوگئی تھی کہ صدام کی تنہائی کا یہ عالم تھا کہ ایک زیر زمین تہہ خانے میں رہ رہا تھا، سوائے بڑھی داڑھی اور بوسیدہ سامان کے وہاں کچھ نہ تھا اور پھر امریکہ کے زیر قبضہ بغداد میں اپنے پالے ہوئے صدام کو  پھانسی پر چڑھا دیا۔

قذافی کا انجام بھی سب کے سامنے ہے، اسے اس کی اپنی عوام کے ہاتھوں مروا دیا اور اس کی ویڈیو منظر عام پر لائے کہ تمام لوگوں کے لئے عبرت کا باعث رہے اور کوئی بھی سر اٹھانے کی جرات نہ کرے۔ ہر ایسا واقعہ عوام کی مرضی کے خلاف ان پر مسلط لوگوں کے لئے ڈراونے خواب کے طرح سامنے آتا رہتا ہے۔ شاہ ایران بھی تو زمین پر خدا بنا ہوا تھا اور مخلوق خدا پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہا تھا اور خطے میں امریکی مفادات کے لئے اپنی عوام کے قتل عام سے بھی باز نہیں آتا تھا۔ ان تمام آمروں کے لئے نشانیاں ہیں کہ خدا نے کیسے ایک بوریہ نشین کے ہاتھوں اسے رسوا کرایا کہ وہ ایران سے بھاگ گیا اور پھر ایک وقت آیا کہ یہی امریکہ جس نے اسے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا، اپنے ہاں رکھنے کے لئے آمادہ نہیں تھا۔ محمد بن سلمان کے لئے یہ تنہائی اس بڑی تنہائی کے ایک جھلک ہے، جو استعمار کے تمام کاسہ لیسوں کو ایک نہ ایک دن دیکھنی پڑتی ہے اور پھر واپسی کا کوئی راستہ بھی نہیں ہوتا۔

 لو جی تازہ خبر آگئی ہے، امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے فوجیوں سے ٹیلی فونک خطاب میں کہا ہے کہ سعودی عرب کے بغیر اسرائیل کا وجود ممکن نہیں تھا اور یہ ضرورت جب تک رہے گی، آل سعود  کی سرپرستی جاری رہے گی اور وہ جیسے ہی سر اٹھانے کی کوشش کریں گے، ان پر خاشقجی جیسا کوئی نہ کوئی کیس ڈال کر ان کو ان کا اصل مقام دکھا دیا جائے گا۔ کاش کہ محمد بن سلمان اس تنہائی سے کچھ سبق سیکھ لیں اور بجائے امریکی کاسہ لیسی کے اپنی عوام کو اپنی طاقت بنائیں اور امت مسلمہ کی پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے کے بجائے اس امت کو اپنی طاقت بنائیں، مگر بقول شاعر
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
خبر کا کوڈ : 764985
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش