0
Thursday 6 Dec 2018 15:40

چوری کا موبائل خریدنے کی سزا موت ہے!!!!

چوری کا موبائل خریدنے کی سزا موت ہے!!!!
رپورٹ: ایس علی حیدر

کسی بھی ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہونے کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں، سب سے بڑی اور بنیادی وجہ حکومت کی عدم توجہی اور قانون کا کمزور ہونا ہے، جب قانون کے رکھوالے خود ہی غیر قانونی کاموں میں ملوث ہو جائیں، تو پھر ایسے ملک میں انصاف کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ پچھلے 5 سال سے خیبر پختونخوا کی پولیس بقول کے پی کے حکومت کے مثالی بن چکی ہے، اس میں کچھ تو مبالغہ پایا جاتا ہے لیکن کافی حد تک یہ بات سچ بھی ہے اور اس کو بطور ماڈل پورے پاکستان میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اب ایسے میں پولیس کے محکمے میں موجود ایسی کالی بھیڑوں کا بھی کچھ حل نکالنا ہوگا جو پورے ملک کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔ پورے پشاور کی پولیس دیانت اور امانت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہو اور ایسے میں کوئی ایک اہلکار یا افسر کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے کہ جس سے پورے صوبے کی پولیس کی کارکردگی مورد تنقید بن جائے، تو یہ المیے سے کم نہیں۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل تک پولیس میں موجود ایسی کالی بھیڑوں پر حکام نے خصوصی توجہ مرکوز کر رکھی تھی اور یہی وجہ تھی کہ آئے روز محکمے کی بدنامی کا باعث بننے والے منظر عام پر آرہے تھے، محکمہ ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کر رہا تھا اور یہ سخت ترین کارروائی صرف نوکری سے برخاستگی تک ہی محدود نہ ہوتی بلکہ قید و بند کی باتیں بھی سنے کو مل رہی تھیں۔ تاہم اب بہت عرصہ ہوا کہ اس طرح کی خبریں سامنے نہیں آئیں اور یہی وجہ ہے کہ اب پولیس کا مورال ایک مرتبہ پھر خراب ہونے لگا ہے اور اس کی وجہ محکمے میں موجود یہی کالی بھیڑیں ہیں۔

جیسا کہ حالیہ دنوں میں ایک ریٹائرڈ ایف سی اہلکار کی ایک ایس ایچ او اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں ہلاکت کی خبر اور پھر میت سڑک پر رکھ کر لواحقین کے احتجاج نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اور یہ اسقدر پُر اثر احتجاج تھا کہ پشاور پولیس کے سربراہ کو متعلقہ ایس ایچ او کو نہ صرف معطل اور لائن حاضر کرنا پڑا بلکہ لواحقین کی مدعیت میں متعلقہ ایس ایچ او اور اس کے گن مین کیخلاف قتل کا مقدمہ بھی درج کرنا پڑگیا۔ اب وہ ایس ایچ او جس پر قتل کی ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اگر اس کے حوالے سے بات کی جائے تو کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ ایس ایچ او نے سادہ کپڑوں میں کیونکر ریٹائرڈ ایف سی اہلکار کے گھر پر چھاپہ مارا؟ گرفتاری تو اپنی جگہ اس نے دوران چھاپہ ایسا منظر کیوں بنا دیا کہ چھاپہ کم اور ڈاکہ زیادہ لگے؟ ڈاکے کی بات اس وجہ سے بھی ہم کر رہے ہیں کہ مقتول ایف سی اہلکار کے بھائی کے مطابق متعلقہ ایس ایچ او اور اس کی ٹیم نے گھر میں موجود خواتین اور بچوں کے سامنے اس کے بھائی اور بھانجے پر تشدد کیا اور لوٹ مار کچھ اس انداز میں کی گئی کہ گھر میں موجود خواتین کے زیور بھی چھینے گئے، گھر میں موجود قیمتی اشیا تک اُٹھا لی گئیں۔ بظاہر یہ صورتحال تو اس بات کی غمازی کرتی ہے، جیسے ایس ایچ او اور مبینہ مقتول کے درمیان کوئی پرانا جھگڑا ہو۔

آخر حقیقت کیا ہے۔؟ یہ تو انکوائری رپورٹ کے بعد ہی سامنے آئے گا کہ اس سارے منظر نامے کے پیچھے اصل محرکات کیا تھے؟ لیکن ایک بات متعلقہ ایس ایچ او کیلئے بھی لمحہ فکریہ اور توجہ طلب ہے کہ اس کی یہ کارروائی محکمہ پولیس کی بدنامی کا موجب بنی ہے۔ اخبارات کی شہ سرخیاں ہی نہیں، سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے بحث چل پڑی ہے۔ اب یہ متعلقہ ایس ایچ او کے مستقبل کے حوالے سے بھی اہم لمحہ ہے کہ آیا وہ خود کو اس کارروائی میں بے گناہ ثابت کر دے گا یا پھر محکمہ پولیس اپنے پیٹی بند بھائی کو بچاتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئے گی تو اصل حقیقت کا پتہ چلے گا۔ بہرحال اس واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پولیس رپورٹ کے مطابق 25 نومبر کو جب مبینہ طور پر تھان آغہ میر جانی شاہ کے ایس ایچ او عباد وزیر نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ وزیر کالونی رنگ روڈ میں واقع ایک گھر پر چھاپہ مار کر چوری کا موبائل خریدنے کے الزام میں ریٹائرڈ ایف سی اہلکار فدا محمد نامی شخص کو اس کے بھانجے اشفاق سمیت گرفتار کیا اور ابتدائی طور پر پولیس نے دونوں ماموں بھانجے کو گھر میں ہی وحشیانہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور پھر انہیں تھانے لے گئی، جہاں مبینہ وحشیانہ تشدد سے زیر حراست ریٹائرڈ ایف سی اہلکار جاں بحق ہوگیا۔ پولیس نے واقعہ کو چھپانے کے لئے متوفی کی ہلاکت کو دل کا دورہ قرار دیا، لیکن جب لواحقین کو نعش ملی تو اس پر تشدد کے واضح نشانات تھے، جس پر لواحقین سراپا احتجاج بن گئے اور نعش پتنگ چوک کے مقام پر رکھ کر کئی گھنٹوں تک احتجاجی مظاہرہ کیا، جس کے باعث ٹریفک کا نظام شدید متاثر ہوا۔

دوسری جانب سی سی پی او پشاور قاضی جمیل الرحمٰن کی ہدایت پر ایس ایچ او یکہ توت کو معطل کرکے لائن حاضر کر دیا گیا اور باضابطہ طور پر گن مین سمیت قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا، جبکہ واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی گئی۔ لواحقین کا کہنا تھا کہ پولیس نے واقعے کو چھپانے کیلئے متوفی کی موت کو دل کا دورہ قرار دیا تھا، بعد ازاں سی سی پی او کی ہدایت پر ریٹائرڈ ایف سی اہلکار فدا محمد ولد سید محمد نامی شخص کے بھائی عمران محمد کی مدعیت میں تھانہ یکہ توت میں ہی ایف آئی آر درج کی گئی، جس میں مدعی نے موقف اختیار کیا کہ ہفتے کی شام یعنی 25 نومبر میرا بھائی سابق ایف سی اہلکار فدا محمد عرف فوجی اپنے بھانجے اشفاق خان ولد تاج محمد اور دیگر اہل خانہ کے ہمراہ گھر میں موجود تھا کہ اس دوران ایس ایچ او عباد وزیر دیگر اہلکاروں کے ہمراہ گھر میں گھس آیا، وہ سب سادہ کپڑوں میں ملوث تھے، اس دوران اہلکاروں نے بھائی فدا محمد اور بھانجے اشفاق کو پکڑ کر زمین پر لٹا دیا اور بیٹیوں و بیوی کے سامنے دونوں کو وحشيانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔

اس دوران اہلکار خواتین کے ہاتھوں سے سونے کی انگوٹھیاں، الماری سے 55 ہزار روپے، 3 موبائل فونز، اشفاق سے 30 ہزار روپے کی نقدی، 2 قیمتی موبائل فونز، گھر سے 2 موٹر سائیکلیں، 2 لیپ ٹاپ اور موٹر سائیکلوں کی رجسٹریشن اپنے ساتھ لے کر چلے گئے، جس کے بعد میں اپنے دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ بھائی اور بھانجے کی تلاش میں ڈی ایس پی سبرب کے دفتر پہنچا تو وہاں معلوم ہوا کہ فدا محمد پولیس تشدد سے جاں بحق ہوچکا ہے، جس کی نعش مردہ خانہ میں پڑی ہے۔ جب نعش ملی تو بھائی کو پولیس نے وحشیانہ تشدد کرکے ابدی نیند سلا دیا تھا اور واقعے کو چھپانے کیلئے اسے دل کا دورہ قرار دیا۔ اس نے کہا نعش پر تشدد کے واضح نشانات پائے گئے تھے جس پر ورثاء مشتعل ہوگئے اور نعش پتنگ چوک میں رکھ کر سڑک کو ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کر دیا، جس کے باعث گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔ مظاہرے کی اطلاع ملنے پر پولیس حکام و علاقہ مشران ملک طارق اعوان و دیگر موقع پر پہنچ گئے۔

بعد ازاں سی سی پی او پشاور نے پولیس تحویل میں ملزم کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایچ او عباد وزیر کو لائن حاضر کر دیا جبکہ ان کے حکم پر باضابطہ طور قتل کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا، جبکہ انسپکٹر جنرل آف پولیس صلاح الدین محسود نے بھی یکہ توت پولیس تشدد سے ریٹائرڈ ایف سی اہلکار کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی او قاضی جمیل الرحمٰن کو تحقیقات کا حکم دیا۔ ادھر یکہ توت پولیس کے ہاتھوں ریٹائرڈ ایف سی اہلکار کے کے خلاف سراپا احتجاج لواحقین کے ساتھ مذاکرات کیلئے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء الحاج ملک طارق اعوان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی، جن کی کوششوں سے مذاکرات کامیاب ہوئے اور بعدازاں مظاہرین نے رنگ روڈ پر ہی نماز جنازہ ادا کی۔ پولیس کے مطابق واقعہ کی تحقیقات جاری ہے، جس میں اصل حقائق جلد منظر عام میں آئیں گے۔ تھانہ یکہ توت کے سابق ایس ایچ او کے ہاتھوں مبینہ طور پر وحشیانہ تشدد سے جاں بحق ریٹائرڈ ایف سی اہلکار کا بھانجا عینی شاہد بھی ہے، جس نے انکشاف کیا ہے کہ ایس ایچ او نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ماموں پر انتہائی بہیمانہ تشدد کیا، ماموں نے لمبی سانس بھرتے ہوئے آخری الفاظ یہ بولے کہ شوگر کا مریض ہوں مر رہا ہوں، لیکن پولیس مسلسل تشدد کرتی رہی، ماموں نے 5 ہزار روپے کا موبائل خریدا تھا، جو چوری کا نکلا، جس پر اسے جان سے مار دیا گیا۔

مقتول فدا محمد کے بھائی عمران نے بتایا کہ کچھ روز قبل بھائی نے کسی لڑکے سے موبائل خریدا تھا، جسے پولیس نے گرفتار کیا اور اس کی نشاندہی پر پولیس نے چھاپہ مارا اور بھائی کو بھانجے اشفاق سمیت گرفتار کرکے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر گھسیٹتے ہوئے تھانے لے گئی، جہاں بھانجے اشفاق کے سامنے بھائی کو ایس ایچ او نے دیگر 9 اہلکاروں کے ہمراہ بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا، جس پر وہ جاں بحق ہوگیا۔ اس نے کہا کہ پولیس نے عینی شاہد بھانجے کا ایک پاؤں اور ہاتھ بھی توڑا ہے، جب بھائی جاں بحق ہوا تو اسے غائب کر دیا گیا۔ عمران نے مزید بتایا کہ مقتول فدا محمد 2008ء میں ایف سی ریٹائرڈ ہوا تھا جبکہ 15 روز بعد اسکی بیٹی کی شادی طے تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے باوجود ایس ایچ او کو گرفتار نہیں کیا گیا، جس کے خلاف احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ اور آئی جی پی سمیت دیگر حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ ریٹائرڈ ایف سی اہلکار کے مبینہ قتل میں ملوث ایس ایچ او کیخلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔
خبر کا کوڈ : 765205
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش