7
Friday 7 Dec 2018 17:05

یمن جنگ کا خاتمہ امریکہ نہیں چاہتا

یمن جنگ کا خاتمہ امریکہ نہیں چاہتا
تحریر: عرفان علی

سعودی و اماراتی فوجی اتحاد کی مسلط کردہ جنگ سے تباہ حال عرب مسلمان ملک یمن میں امن کے قیام کے لئے یورپی ملک سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کے شمال میں جوہانسبرگ کاسل میں ہادی منصور عبد ربہ اور حرکت انصار اللہ (حوثی تحریک) کے نمائندہ وفود کے مابین مذاکرات جمعرات 6 دسمبر 2018ء کو شروع ہوچکے ہیں۔ شیڈیول یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے تحت سویڈن حکومت کی میزبانی میں یہ مذاکرات ایک ہفتہ جاری رہیں گے۔ ابتدائی مرحلے میں فریقین کی مذاکراتی ٹیمیں براہ راست ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کر رہیں بلکہ انکے میزبان سفارتکار شٹل ڈپلومیسی کر رہے ہیں۔ سویڈن میں جاری اس نشست سے زیادہ سے زیادہ جو چیز حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ اعتماد سازی کے لئے چند اقدامات ہیں، ان میں پانچ تا آٹھ ہزار قیدیوں کی رہائی پر دو طرفہ آمادگی اور یمن کے دارالحکومت صنعا کے ایئرپورٹ کے محاصرے کا خاتمہ ہے، کیونکہ سعودی اماراتی فوجی اتحاد کے فضائی محاصرے کی وجہ سے کوئی جہاز صنعا ایئر پورٹ سے نہ تو پرواز کرسکتا ہے اور نہ ہی یہاں اتر سکتا ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے مزید نکات و تفصیل بیان کئے بغیر بھی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یمن میں امن کے قیام کا انحصار امریکہ کے حمایت یافتہ سعودی اماراتی اتحاد پر ہے، جنگ انہوں نے شروع کی ہے تو ختم بھی ان کی جانب سے ہی ہونی ہے اور ہدف اگر دائمی امن کا قیام ہے تو سویڈن امن مذاکرات سے اسکا حصول ممکن نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ اگر کچھ ہوا تو یہ عارضی مدت کے لئے محدود ریلیف فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سرپرستی میں امن مذاکرات کا پچھلا مرحلہ 7 ستمبر 2018ء کو ہونا تھا۔ طے یہ پایا تھا کہ ایک عمانی طیارہ حرکت انصار اللہ (حوثی تحریک) کے مذاکراتی وفد کو صنعا ایئرپورٹ سے جنیوا کے لئے اڑان بھرے گا، لیکن سعودی فوجی اتحاد نے اس طیارے کو صنعا ایئرپورٹ سے پرواز کی اجازت ہی نہیں دی۔ حوثی تحریک نے اس ناکامی کا ذمے دار اقوام متحدہ کو قرار دیا کہ وہ جارح افواج سے یہ بات منوا نہیں سکے۔ ایک تو سعودی جارح اتحاد کی اس خبر کو مغربی و عرب ذرایع ابلاغ نے کسی اور زاویئے سے پیش کرنے کی کوشش کی اور یہ تاثر ابھرا کہ انہوں نے مذاکرات میں شرکت نہیں کی، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ان کی شرکت کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ سعودی جارح فوجی اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی نے اس کا ذمے دار اقوام متحدہ کو قرار دیا کہ پہلے انہوں نے درخواست کی، لیکن بعد میں کہا کہ اجازت منسوخ کر دی جائے۔ ان کے جنیوا نہ پہنچنے پر اقوام متحدہ کی جانب سے 6 ستمبر کی شب اعلان کر دیا گیا کہ مذاکرات نہیں ہوں گے، کیونکہ دوسرا فریق موجود نہیں۔ لیکن اگلے دن اقوام متحدہ کی سعودی حمایت یافتہ منصور ہادی عبد ربہ گروپ کی مذاکراتی ٹیم سے بات چیت کو جنیوا مذاکرات کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس مرتبہ اسٹاک ہوم تک حوثی تحریک کے وفد کا پہنچنا اس لئے ممکن ہوا کہ کویت کی حکومت اور اقوام متحدہ نے جارح سعودی اتحاد سے یہ شرط منوالی کہ وہ حوثی مذاکراتی وفد کی روانگی میں رکاوٹ نہ بنے۔

اس سارے قضیے میں امریکی حکومت کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ صدر باراک اوبامہ کے دور حکومت میں یمن پر یہ بلاجواز جنگ امریکی اتحادی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت بعض دیگر ممالک پر مشتمل اتحاد نے مسلط کی تھی۔ اوبامہ ایک انٹرویو میں اس قضیے میں ایران کو بری الذمہ بھی قرار دے چکے تھے اور یہ نکتہ ان دنوں کسی تحریر میں ہم نے رقم بھی کیا تھا۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی امریکی حکومت اور خاص طور پر صدر ٹرمپ خود اور انکے وزیر خارجہ مائیکل عرف مائیک پومپیو کے جو پالیسی بیان آرہے ہیں، ان سے واضح ہوچکا ہے کہ یمن پر جنگ یا کسی بھی وجہ سے سعودی حکومت سے امریکی حکومت اپنے تعلقات ختم نہیں کرے گی۔ 27 نومبر 2018ء کو پومپیو کا ایک مقالہ وال اسٹریٹ جرنل میں شایع ہوا ہے، جس کا عنوان ہے سعودی پارٹنر شپ از وائٹل۔ انگریزی لفظ وائٹل کا مفہوم اردو میں مطلقاً ضروری، حیات بخش، ناگزیر اہمیت کا حامل، یعنی کم از کم یہ تین مفہوم ہیں۔ یعنی سعودی بادشاہت کے ساتھ امریکی حکومت کی شراکت داری مطلقاً ضروری ہے، حیات بخش ہے، یہ امریکی موقف ہے۔

امریکی حکومت کے حوالے سے دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے مستقل رکن اور عالمی مالیاتی اداروں میں اس کے اثر و نفوذ کی وجہ سے اسکی بہت زیادہ اہمیت ہے، حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے دوسرے مستقل اراکین بھی حتی الامکان یہ کوشش کرتے ہیں کہ جہاں تک ان کے مفادات پر براہ راست زد نہ آئے، تب تک وہ امریکہ کے خلاف کوئی موقف اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔ یمن پر سعودی جارحیت کے خلاف دیگر ویٹو پاورز (اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کے مستقل اراکین، جنہیں حق استرداد حاصل ہے) کا کوئی خاص اور فعال کردار نہ ہونے کا سبب بھی یہی ہے۔ انٹرنیشنل لاء کا محافظ ادارہ اقوام متحدہ ہے، یمن پر جارحیت اسکے چارٹر کی خلاف ورزی ہے، اس جارحیت کے مرتکب ممالک کے خلاف عملی اقدامات ہونے چاہیئے تھے۔

ان پر پابندیاں لگنی چاہئیں تھیں، اس جنگ کو ختم کروانے کے لئے غیر ملکی افواج کو جنگی جرائم کی سزا دی جانی چاہئئے تھی۔ یمن میں کونسا سیاسی نظام ہو، کس کی حکومت ہو، اسکا فیصلہ یمن کے عوام نے ہی کرنا تھا اور کرنا ہے۔ اقوام متحدہ اور اسکے مستقل اراکین پر لازم تھا کہ اسکے لئے سارے یمنی فریقوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتے۔ چونکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکی فوجی اڈوں کے میزبان ہیں، اسلحے کے خریدار ہیں، خام تیل کے برآمد کنندگان ہیں، سرمایہ دارانہ نظام کے سہولت کار ہیں، دبئی سمیت متعدد جگہوں پر انہیں سہولیات فراہم کرتے ہیں، جعلی ریاست اسرائیل کو در پردہ تسلیم کرتے ہیں اور علی الاعلان ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں یا دورے کرتے ہیں یا انہیں مدعو کرتے ہیں، اس لئے یمن پر انکی جارحیت امریکہ یا اسکے نیٹو اتحادی مغربی ممالک کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

اب جب سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کی وجہ سے حکمران سعودی شاہی خاندان عالمی رائے عامہ کی نظر میں منفور بن چکا ہے تو اس انسانیت سوز مظالم کرنے والے آل سعود خاندان کے حقیقی جرائم سے توجہ ہٹانے کے لئے امریکی مقننہ کے اراکین چائے کی پیالی میں طوفان برپا کر رہے ہیں، یعنی لیپا پوتی کے لئے سعودی عرب کے خلاف اقدامات کی دھمکیاں۔ وسط مدتی انتخابات کے بعد امریکہ کی دو ایوانی مقننہ (کانگریس) کے ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل ہے، جبکہ حکمران ری پبلکن پارٹی کو دو مزید نشستوں پر کامیابی کے بعد اسکے سینیٹروں کی تعداد 53 ہوچکی ہے۔ 28 نومبر کو سینیٹ میں ایک مشترکہ قرار کے ذریعے امریکی حکومت پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ ڈیموکریٹ سینیٹر برنارڈ سینڈرس نے 28 فروری 2018ء کو متعارف کروائی تھی، ری پبلکن سینیٹر مائیک لی اور ایک اور ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے بھی انکا ساتھ دیا تو یہ مشترکہ قرار پائی۔ اسکا عنوان تھا S.J.Res.54 - A joint resolution to direct the removal of United States Armed Forces from hostilities in the Republic of Yemen that have not been authorized by Congress.:

امریکی افواج کو اس جنگ سے نکالنے کے لئے ابھی امریکی مقننہ میں رائے شماری کا مرحلہ باقی ہے اور منظور ہو بھی جائے تب بھی سعودی عرب اور امارات کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جانا بلکہ انکو اسلحہ کی فروخت بھی جاری رہے گی۔ امریکی مقننہ کے اراکین کہتے ہیں کہ مقننہ کی اجازت کے بغیر امریکی مسلح افواج یمن کیوں گئیں، انکو یمن جنگ سے ہٹایا جائے۔ امریکہ کا ہدف اسرائیل کی بقا ہے، ایران کے ساتھ دشمنی کی سب سے بڑی وجہ ایران کی فلسطین پالیسی ہے، جس کا بنیادی نکتہ فلسطین کی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہ کرنا ہے۔ اس لئے یمن اور شام کا محاذ کھول کر، اس میں سعودی و دیگر بعض مسلمان ممالک کی حکومتوں کو ملوث کرکے، امریکی بلاک فلسطین پر اسرائیلی قبضے سے توجہ ہٹا رہا ہے اور دنیا کے سامنے یہ جھوٹا تاثر دے رہا ہے کہ گویا ایران مسئلہ بنا ہوا ہے۔ حالانکہ ناقابل تردید حقیقت فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہے، جو اس وقت سے ہے، جب ایران میں امریکی اتحادی شاہ ایران کی حکومت ہوا کرتی تھی اور وہ اسرائیل کو تسلیم کیا کرتی تھی۔

انقلاب اسلامی کے بعد کے ایران نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کئے، سفارتخانہ بند کر دیا بلکہ یاسر عرفات کی تنظیم آزادی فلسطین کو فلسطینی حکومت کی حیثیت سے نمائندگی دی۔ یمن اور شام کی جنگیں صہیونیت کے اشاروں پر ناچنے والے امریکی حکام و خواص اور انکے اشاروں پر ناچنے والی سعودی بادشاہت کا جوائنٹ وینچر ہے اور اب امریکی اسٹیبلشمنٹ یمن میں اپنی فوجی موجودگی کی حد تک اس قضیے سے گلو خلاصی چاہتی ہے۔ اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے یمن سمیت پورا ادارہ امریکی ڈکٹیشن کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ امریکی حکام کا اقوام متحدہ پر دباؤ ہے۔ یہ امریکی احکامات کا نتیجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے یمن مارٹن گریفتھس نے سویڈن مذاکرات سے قبل سعودی عرب کا دورہ تو کیا، لیکن ایران کا دورہ نہیں کیا۔ سویڈن مذاکرات میں ایران کا ایک سرکاری وفد شرکت کرنا چاہتا تھا، امریکی دباؤ پر اسکی اجازت نہیں دی گئی۔ خود مارٹن گریفتھس کا تعلق برطانیہ سے ہے، جہاں وہ ڈپلومیٹک سروس سے وابستہ رہے۔

یمن کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے وہ تیسرے نمائندے ہیں، اس سے قبل دو نمائندے ناکام ہوچکے ہیں۔ گریفتھس شام کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے تین نمائندوں کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا برطانوی فارین سروس کے اس ادارے سے بھی تعلق ہے، جو سعودی عرب کو اسلحہ اور انٹیلی جنس (معلومات) فراہم کرتا ہے اور جسے سعودی حوثی تحریک سمیت یمنی عوام کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ برطانوی و فرانسیسی حکومتیں بھی سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔ چین کے سرکاری خبر رساں ادارے مغربی ذرایع ابلاغ کی ان خبروں کو شایع کرتے ہیں، جن میں حوثیوں کو باغی لکھا جاتا ہے۔ یمن روس کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ یہ ہے اقوام متحدہ کے پانچ فیصلہ ساز ممالک کا کردار، جس کے پیش نظر یمن کے مظلوم انسانوں، عربوں اور مسلمانوں کی نسل کشی، ان انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔

اطالونی نژاد امریکی وزیر خارجہ پومپیو کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کی شراکت داری امریکہ کے لئے حیات بخش، مطلقاً ضروری و ناگزیر ہے، کیونکہ سعودی حکومت اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کر رہی ہے، کیونکہ وہ امریکہ کے مفاد میں عراق میں ایران کا اثر و نفوذ روکنے کے لئے اقدامات کر رہی ہے، کیونکہ ولی عہد سلطنت محمد بن سلمان سعودی عرب کو نئے نظام کی طرف لے جا رہا ہے اور امریکہ ایک نیا لبرل ورلڈآرڈر قائم کرنے جا رہا ہے! فلسطین، یمن، شام سمیت سارا مسئلہ امریکہ کے اس مائنڈ سیٹ کا ہے جناب! یمن میں امن امریکہ خود نہیں چاہتا، ورنہ سعودی و اماراتی اتحاد کی اتنی اوقات نہیں کہ وہ اتنے نقصانات کے باوجود جنگ کو جاری رکھیں، ماضی میں لکھ چکے ہیں کہ امریکہ اپنے فوجی مروانا نہیں چاہتا، جس کے لئے اپنے مہروں کو جنگ کی آگ میں جھونکا ہے اور مسلم کشی و عرب کشی کرنے والا یہ سعودی اماراتی اتحاد اسرائیل کے لئے ریشم کی طرح نرم ہوچکا ہے۔ اسرائیل امریکہ کی محبت ہے، اس کی جنگ امریکی جنگ ہے اور محبت اور جنگ میں سب جائز مانا جاتا ہے!
خبر کا کوڈ : 765424
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش