1
0
Saturday 8 Dec 2018 11:54

پاراچنار، ایک اور پراسرار دھماکہ

پاراچنار، ایک اور پراسرار دھماکہ
تحریر: اسد اللہ طوری

خودکش دھماکوں میں ہونے والے عوام کے کشت و خون کے حوالے سے پاراچنار تو پہلے ہی سے دنیا کی توجہ کا مرکز ہے اور دنیا کو میڈیا کے توسط سے کافی کچھ معلومات حاصل ہیں، تاہم دنیا کے علم میں شاید یہ بات ابھی تک نہ ہو کہ پاراچنار میں ہونے والے دھماکے ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے دھماکوں سے کافی مختلف ہیں۔ دیگر علاقوں میں ہونے والے دھماکوں کے برخلاف پاراچنار میں دھماکوں کی منصوبہ بندی باہر سے نہیں بلکہ بالعموم اور اکثر مقامی لوگ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انہی صفحات میں پہلے بھی کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔ تاہم پاراچنار میں ہونے والے تازہ پراسرار دھماکے کے پس منظر میں لکھی جانیوالی اس مختصر تحریر کو آخر تک حوصلے کے ساتھ پڑھنے کے بعد معزز قارئین اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ یہاں ہونے والے دھماکوں میں مقامی لوگوں کے ساتھ حکومت سو فیصد نہیں تو کم از کم پچاس فیصد ملوث ہے۔ 2 دسمبر کو شام 4 بجے کے قریب ملیشیا بیکری کے احاطے میں موجود کار پارک میں ایک کرولا گاڑی میں پراسرار دھماکہ ہوا، جس سے گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ کرم بیکری اور اسکی عمارت ایف سی کی ملکیت ہے اور یہاں پر ہر کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

انتظامیہ نے گاڑی کے مالک رحمت کے علاوہ تین افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ ابتدائی تفتیش کے دوران گاڑی کے مالک رحمت کا کہنا تھا کہ دو روز قبل وہ پشاور گئے تھے اور انہوں نے اپنی گاڑی صدہ میں واقع منگل بارگین میں کھڑی کی تھی اور آج صبح وہ تری منگل سے پاراچنار شہر آئے ہیں، جہاں انہوں کرم بیکری کے کار پارک میں گاڑی پارک کی، اس دوران گاڑی میں گیس سلنڈر یا کوئی دھماکہ خیز سامان موجود نہیں تھا۔ تاہم تری منگل سے تین سواریوں کو بٹھا کر پاراچنار لایا۔ مقامی انتظامیہ، فورسز اور خفیہ اداروں نے واقعے تحقیقات شروع کیں۔ بم ڈسپوزل سکواڈ نے گاڑی اور قریب کے علاقے کو خصوصی آلات نیز سراغ رساں کتوں کے ذریعے کلیئر قرار دیا۔ کرم میں ایک مصیبت ہوا کرتی ہے کہ اگر شیعہ علاقے سے گزرنے والی گاڑی پر کہیں کوئی چھوٹا بچہ ایک کنکر پھینکے یا خود پہاڑ سے ہی پتھر لڑھک کر گر جائے تو سارے علاقے کو گھیرے میں لیکر لوگوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اپنی ذاتی دشمنی کے تحت قبائلی روایات کے تحت کوئی کسی کو قتل کرتا ہے تو وہاں سے درجنوں افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے اور پھر اصل ملزم کی حوالگی نیز بھاری جرمانہ کے بعد انہیں رہائی ملتی ہے، جبکہ پاراچنار شہر میں گذشتہ چند سالوں میں درجنوں دھماکوں کے نتیجے میں ہزاروں شیعوں کے لقمہ اجل بننے کے باوجود ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

ماضی بعید سے قطع نظر ماضی قریب پر سطحی روشنی ڈالتے ہیں کہ کب کونسا دھماکہ ہوا، کتنا نقصان ہوا اور اس حوالے سے سرکار نے کیا کیا۔
1۔ 4 اگست 2007ء کو عیدگاہ مارکیٹ پارا چنار میں موجود پشاور فلائنگ کوچ سٹینڈ سے چند میٹر کے فاصلے پر خودکش حملہ آور نے اپنی کرولا گاڑی سمیت خود کو دھماکے سے اڑا کر 12 افراد کو شہید جبکہ درجنوں دیگر کو زخمی کرکے خون میں نہلا دیا۔ دھماکہ میں خودکش کا سر بالکل سالم رہا، جسکی شناخت غیور خان چمکنی کے نام سے ہوئی۔ جس کا تعلق پاڑہ چمکنی کے علاقے تابئے تنگی سے تھا اور وہ کافی عرصہ سے پاراچنار میں مقیم تھا۔ خودکش کا ایک رشتہ دار فضل حمید مبینہ طور پر راولپنڈی میں ایک مسجد میں ہونے والے دھماکے میں ملوث اور حکومت کو مطلوب تھا۔ تاہم اسکے خاندان سے اس حوالے سے کوئی تفتیش نہیں ہوئی کہ تمہارے پیارے نے یہ بھیانک کارنامہ کیوں انجام دیا۔
2۔ اسکے چند ہی مہینے بعد 16 فروری 2008ء کو مذکورہ مقام سے صرف 10 میٹر کے فاصلے پر پشاور سٹینڈ کے ساتھ ڈاکٹر سید ریاض حسین کے الیکشن آفس کے سامنے ایک اور دھماکہ ہوا، جس میں بارود اور آتش گیر مادے سے بھری ایک کرولا گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ جس میں 70 کے قریب افراد شہید جبکہ سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ جن میں اکثریت سید ریاض حسین کے سیاسی حلیفوں کی تھی۔

3۔ پھر چند سال کے وقفے سے 17 فروری 2012ء کو کرمی بازار میں ایک اور دھماکہ ہوا، جس میں تقریباً 14 افراد شہید جبکہ درجنوں دیگر زخمی ہوئے، لیکن اس دفعہ ایک ناخوشگوار واقعہ یہ ہوا کہ دھماکے کے فوراً بعد لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا، جبکہ ایف سی نے ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں کی مدد سے مظاہرین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان پر فائرنگ کی، جسکے نتیجے میں 24 مزید افراد شہید جبکہ 17 افراد شدید زخمی ہوگئے۔ یعنی اس دفعہ دہشتگردوں سے زیادہ ہمارے اپنے نگہبانوں نے ہمارا نقصان کر دیا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس دھماکے کی ذمہ داری دہشتگرد طالبان کے ایک مقامی رہنما مولوی فضل سعید حقانی نے قبول کی۔ جس کا تعلق بگن کے قریب علاقہ مندرہ سے ہے، لیکن حیرانی کی بات یہ کہ اس کے خلاف کوئی خاص کارروانی نہیں کی گئی۔ ہاں مین روڈ پر موجود اسکے پٹرول پمپ میں موجود دو کمروں کو مسمار کر دیا گیا، جبکہ مندرہ میں موجود اسکے عالیشان مکان اور خود اسکو بخش دیا گیا۔

4۔ رمضان یعنی اگست 2013ء کو زیڑان اور شنگک روڈ پر یکے بعد دیگرے دو خودکش دھماکے کرائے گئے، جس میں 47 افراد شہید جبکہ سو کے قریب زخمی ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خودکش حملہ آوروں میں سے ایک کو کرمی بازار میں اہلسنت مسجد سے زیڑان اڈہ کی جانب جبکہ دوسرے کو شنگک روڈ پر مذکورہ مسجد سے پنجابی بازار کی جانب جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ گویا دونوں خودکش حملہ آور مسجد سے برآمد ہوکر منزل مقصود کی طرف گئے اور یہ بھی خیال رہے کہ مذکورہ مسجد 2008ء کے بعد سے ایف سی کے قبضے میں رہی ہے، یعنی یہاں عوام کی اجارہ داری کی بجائے ایف سی کی اجارہ داری ہے۔ اسکی ذمہ داری تری منگل سے تعلق رکھنے والے کشمیری مجاہدین کے کمانڈر میجر مست گل نے قبول کی تھی، لیکن میجر مست گل یا اسکے کسی رشتہ دار کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔

5۔ اسکے کچھ ہی عرصہ بعد کشمیر چوک میں پارا چنار کی تاریخ کا چھٹا دھماکہ کیا گیا۔ اس دفعہ دہشتگردوں نے کسی عام یا ذاتی گاڑی کی بجائے مبینہ طور پر سرکاری گاڑی کو استعمال کیا۔ ہوا یوں کہ کشمیر چوک میں ایک پرہجوم جگہ، جہاں انگور فروخت ہو رہے تھے اور لوگوں کی نہایت بھیڑ رہا کرتی تھی، وہاں پر ایک سرکاری ٹاونیس گاڑی میں دھماکہ خیز مواد نصب کرکے دھماکہ کرایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دھماکے سے تھوڑی دیر قبل ہی سرکاری اہلکار گاڑی کو چھوڑ کر گشت پر نکلے تھے اور یہ کہ دھماکے میں سرکاری اہلکاروں میں سے کسی کو بھی چوٹ تک نہیں لگی۔ گاڑی چار ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر مکمل طور پر تباہ ہوگئی، جبکہ ساتھ کھڑی انگور کی گاڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا، 20 سے زائد افراد شہید جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔

6۔ 13 دسمبر 2015ء کو اہلسنت عیدگاہ کے ساتھ ہی متنازعہ قطعہ زمین میں کباڑ خریدنے کے لئے بھاری تعداد میں غریب شہری جمع تھے کہ اس دوران کباڑ میں پہلے سے نصب بارودی مواد کو ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا گیا، جس کے نتیجے میں غریب اور اپنی قسمت سے بے خبر کباڑی اور اسکے چھوٹے بیٹے سمیت 30 سے زائد دیگر غریب شہری جام شہادت نوش کرگئے۔ خیال رہے کہ وقوعہ سے صرف دو دن قبل طالبان کے ایک بڑے حامی حاجی بخت جمال کے بیٹے محمد جمال نے کباڑیوں کو اس مقام پر اپنا سامان بیچنے سے منع کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے یہاں اپنا کاروبار جاری رکھا تو انہیں سخت نتائج بھگتنا پڑیں گے اور وقوعہ کے بعد مبینہ طور پر اداروں کو یہ معلومات بھی ملی تھیں کہ اس میں ایک مقامی تحصیلدار بھی ملوث ہے، لیکن واقعے کے حوالے سے کوئی خاص تحقیقات عمل میں نہ آسکیں۔
7۔ مذکورہ واقعے کے صرف 13 ماہ  بعد 21 جنوری 2017ء کو اسکے بالکل سامنے عیدگاہ مارکیٹ کے اندر واقع نئی سبزی منڈی میں مبینہ طور پر سبزی کے کریٹ میں پہلے سے نصب بارودی مواد کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے اڑا کر دھماکہ کرایا گیا، جس میں 50 سے زائد افراد شہید جبکہ 73 دیگر افراد زخمی ہوگئے۔ اس کا منصوبہ بوشہرہ میں بنایا گیا تھا۔

8۔ 31 مارچ کو 2017ء کو اجمل کرنل کی نگرانی میں بارود اور مارٹر گولیوں سے بھی ایک گاڑی کو لاکر شنگک روڈ میں زنانہ امام بارگاہ گیٹ کے سامنے دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ جس میں 60 کے لگ بھگ شہید جبکہ بیسیوں دیگر زخمی ہوگئے۔
9۔ جمعہ 23 جون 2017 کو یوم القدس جلوس کے فوراً بعد کڑمان اڈہ کے قریب ایک ہی مقام پر یکے بعد دیگرے دو دھماکے کرائے گئے۔ جس میں 80 لوگ شہید جبکہ 140 کے قریب لوگ شدید زخمی ہوگئے۔ دھماکے کے فوراً بعد خودکش حملہ آور کی ویڈیو فوٹیج جاری کی گئی۔ بعد میں اسکی شناخت بھی ہوگئی کہ حملہ آور کا تعلق ٹالو کونج لوئر کرم سے تھا، لیکن اسکے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
2011ء میں ایف سی قلعہ کے اندر ایک پراسرار دھماکہ ہوا، لیکن اسے خفیہ رکھا گیا۔ حالیہ دھماکہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، لیکن حکومت اسے صیغہ راز میں رکھ رہی ہے، جبکہ گذشتہ ایک دو عشروں سے شیعہ قیادت اور عوام میں نفاق کیوجہ سے مرکز کمزور ہوچکا ہے۔ حکومت سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں، جبکہ قائد شہید علامہ عارف الحسینی کے زمانے میں ایک مضبوط مرکز کی وجہ سے کوئی بھی ایسا ناخوشگوار واقعہ ہو جاتا تو فوراً مرکزی جامع مسجد سے احتجاجی جلوس  نکلتا، جبکہ انکی شہادت کے بعد مرکزی جامع مسجد سے قومی مسائل اور حقوق کے حوالے سے کوئی جلوس نہیں نکلا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کسی مسئلے کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔
خبر کا کوڈ : 765495
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید نائب حسین شیرازی
Pakistan
Please govt ka maqro chahra beniqab karo aapni news sy
ہماری پیشکش