0
Tuesday 11 Dec 2018 18:52
وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِید

خواجہ نصیر الدین طوسی کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر

خواجہ نصیر الدین طوسی کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

روز ہفتہ 11 جمادی الثانی 597 ھ کو بوقت طلوع آفتاب ساتویں صدی کی حکمت و ریاضی کا منور ترین چراغ سرزمین طوس پر جلوہ گر ہوگیا۔ اس کا نام محمد، کنیت ابوجعفر، لقب نصیر الدین محقق طوسی، استاد البشر تھے۔ خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنا بچپن و نوجوانی طوس میں گذرا۔ ابتدائی تعلیم عربی و فارسی قواعد، معانی بیان اور کچھ منقول علوم اپنے روحانی باپ سے حاصل کی۔ والد نے بیٹے کو منطق، حکمت، ریاضی و طبیعیات کے نامور استاد نور الدین علی ابن محمد شیعی کے سپرد کر دیا، جو خواجہ نصیر الدین کے ماموں بھی تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایسا لگا کہ انکے علم کے کی پیاس ماموں نہیں بجھا سکتے، اسی بنا پر وہ ریاضی کے مستند ماہر محمد حاسب سے متوسل ہوئے۔ خواجہ نصیر الدین روحانیت کا مقدس لباس زیب تن کرتے ہی نصیر الدین کا لقپ پاتے ہیں۔ خواجہ نصیر الدین نے طوس میں مقدمات و مبادیات کی تحصیل کے بعد والد کے ماموں کی نصیحت و باپ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے تحصیل علم کے لئے نیشاپور کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ مدرسہ سراجیہ نیشاپور میں خواجہ نصیر امام سراج الدین کے دروس فقہ و حدیث اور رجال میں شرکت کرتے ہیں۔ فرید الدین داماد نیشاپوری جن کا شمار اپنے زمانے کے بزرگ ترین استاتذہ میں ہوتا تھا، مدرسہ نظامیہ میں درس دیتے تھے، خواجہ نصیر ان کے (اشارات ابن سینا) کے درس میں شرکت کرتے ہیں۔ استاد و شاگرد میں علمی مباحثے کا سلسلہ بڑھا تو فرید الدین نے نصیر الدین کی استعداد علمی اور تحصیل علم میں شوق کو دیکھتے ہوئے ایک اور دانشمند قطب الدین مصری شافعی سے ملایا، جو فخرالدین رازی کے شاگرد تھے اور علم طب کی مشہور کتاب (قانون ابن سینا) کے بہترین شارحین میں سے تھے۔

طوسی شہر رے اور قم کے علاوہ اصفہان تک جا پہنچے، لیکن کوئی استاد ایسا نہیں پایا، جو طوسی کی علمی پیاس کو بجھا سکے، اس بنا پر وہ عراق کا سفر کرتے ہیں اور 619 ھ میں معین الدین سے اجازۃ روایت لینے میں کامیاب ہوگئے۔ محقق طوسی نے عراق میں فقہ علامہ حلی سے سیکھی اور علامہ حلی نے بھی حکمت کی تحصیل خواجہ نصیر الدین سے کی۔ نصیر الدین نے موصل میں کمال الدین موصلی کی خدمت سے علم نجوم و ریاضی کا حصول کیا۔ خواجہ نصیر الدین عراق میں تعلیم مکمل کرنے میں مشغول تھے کہ سرزمیں ایران پر مغلوں کا حملہ ہوتا ہے۔ ان کا دل بھی ہم وطن اور خاندان کے افراد کے لئے بےحد مضطرب ہوگیا۔ دوسری طرف عراق میں انکے علم و دانش سے فائدہ اٹھانے والے بھی بہت کم نظر آتے تھے، اس لئے وطن کی طرف واپس آنے کا قصد کرتے ہیں۔ طوسی اپنے خاندان سے ملاقات کے لئے شھر قائن پہنچتے ہیں، وہاں اپنی ماں و بہن سے ملاقات کرتے ہیں اور اہل شہر کے اصرار پر امام جماعت ہو کر لوگوں کو مسائل سے آگاہ کرتے ہیں۔ ماں کی رضامندی سے 628 ھ میں فخر الدین نقاش کی بیٹی (نرگس خانم) کو اپنا شریک حیات بنا لیتے ہیں۔

خواجہ نصیر الدین چند ماہ تک قائن میں رہے اور شادی کے بعد قہستان کے (محتشم ناصر الدین عبد الرحیم بن ابی منصور جو مرد فاضل و کریم تھے) نے انہیں بلا بھیجا۔ انکی بیوی راضی ہوگئی اور دونوں نے اسماعیلوں کے قلعے کی راہ لی۔ چونکہ اس زمانے میں ہر شہر مغلوں کے حملے سے سقوط کر رہا تھا تو قلعہ بہترین اور محکم ترین جگہ تھی۔ جس زمانے میں طوسی قلعہ قہستان میں رہتے تھے، بڑے احترام سے زندگی بسر کرتے تھے۔ انہوں نے ناصر الدین کی فرمائش پر (طہارۃ الاعراق) ابن مسکویہ کو عربی سے فارسی میں ترجمہ کرکے میزبان کے نام اسے اخلاق ناصری سے موسوم کرتے ہیں۔ خواجہ ناصر الدین کا مذہب اسماعلیوں سے میل نہیں رکھتا تھا۔ طوسی نے ایک مدح عباسی خلیفے کے نام لکھ دی اور مدد طلب کی، لیکن طوسی اپنے پہلے سیاسی اقدام میں شکست کھا گئے، جس کے بعد طوسی کو دوبارہ قلعوں میں رہنا پڑا۔ 26 سال طوسی نے اسماعیلی قلعوں میں زندگی بسر کی اور اس مدت میں متعدد کتابوں کی تالیف کی، جن میں شرح اشارات ابن سینا، اخلاق ناصری، رسالہ معینیہ، مطلوب المومنین، روضۃ القلوب، رسالۃ تولا و تبرا، تحریر اقلیدس، روضۃ التسلیم قابل ذکر ہیں۔

مغلوں کی فتوحات کے بعد ہلاکو خان نے طوسی کے علم و فضل کی وجہ سے انہیں اپنے بزرگان میں شامل کیا اور جہاں جاتا طوسی کو ساتھ لے جاتا تھا۔ طوسی نے جوینی کی مدد سے قلعہ الموت کی فتح کے بعد حسن بن صباح کے عظیم کتاب خانے کو آتش زنی سے بچایا۔ ابن ابی الحدید اور انکا بھائی موفق الدولۃ فتح بغداد کے بعد مغلوں کی قید تھے اور قتل کئے جانے والے تھے ابن علقمی طوسی کے پاس انکی سفارش کرتے ہیں اور طوسی نے ان دونوں کی شفاعت کرکے موت کے منہ سے ان دونوں کو رہائی دلائی۔ طوسی نے مراغہ میں رصدگاہ کی تعمیر اور ایک بڑے مکتب علم، دانش کی بنیاد رکھ دی۔ مشہور مستشرق رونالڈس لکھتے ہیں: طوسی نے مراغہ میں ہلاکو خان سے کہا کہ فاتح حاکم کو صرف غارت گری پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئے۔ اس مغل نے طوسی کا مطلب بھانپ لیا اور حکم دیا کہ مراغہ کے شمالی پہاڑ پر ایک عظیم رصد گاہ بنوائی اور کام شروع کیا، جو بارہ سال کی مدت میں مکمل ہو گئی۔ اس کے بعد بہت بڑا کتاب خانہ بھی بنوایا گیا، جس میں تمام کتابوں کو اکٹھا کر دیا گیا جو بغداد کے کتابخانوں کی غارتگری سے بکھر گئی تھیں۔

مراغہ کی رصدگاہ 656 میں بننا شروع ہوئی اور خواجہ نصیر الدین طوسی کی وفات کے سال 672 میں مکمل ہوئی۔ اس تعمیر میں فلسفہ و طب اور علم و دین حاصل کرنے والے طالب علموں کے لئے الگ الگ مدارس و عمارتیں بنائی گئی تھیں، جہاں  فلسفہ کے طالبعلم کو روزانہ تین درہم اور طب پڑھنے والوں کو دو درہم اور فقیہ کے لئے ایک درہم اور محدث کے لئے روزانہ نصف درہم مقرر کر دیا گیا تھا۔ اس علمی کام میں جن علماء و دانشمندوں نے طوسی کا ساتھ دیا، ان میں چند اعلام کا ذکر کیا جاتا ہے، نجم الدین کابتی قزوینی وفات 675ھ صاحب کتاب منطق شمسیہ، موید الدین عرضی  ۶۵۰-۶۶۴، صاحب کتاب شرح آلات رصدیہ، فخرالدین خلاصی ۵۸۷-۶۸۰ ھ، محی الدین مغربی، فرید الدین طوسی وغیرہ۔ مراغہ کا رصد خانہ اسلام میں پہلا رصد خانہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی کئی رصدگاہیں موجود تھیں۔ طوسی کے عظیم کارناموں میں سے ایک مراغہ کی رصدگاہ کے نزدیک کتابخانے کی تعمیر تھی، یہاں تک کہ اس کتابخانے میں چار لاکھ کتابوں کا ذخیرہ ہوگیا۔ محقق طوسی بے پناہ علم و دانش اور مختلف فنون میں ید طولیٰ رکھنے کے ساتھ بہترین اخلاق و صفات حسنہ کے حامل تھے، جسکا بیان تمام مورخین نے کیا ہے۔

طوسی کو صرف قلم و کتاب والے دانشمندوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ انہوں نے علمی و فلسفیانہ کارناموں کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا تھا، بلکہ انکے ہاں علم کو اخلاق و معرفت پر سبقت حاصل نہیں تھی، چناچہ جہاں بھی انسانیت و اخلاق و کردار کی بات آتی، وہ اخلاق اور تمام انسانی اسلامی قدروں کو کلام و مفہوم بےروح پر ترجیح دیتے تھے۔ علامہ حلی جو علمائے تشیع میں بزرگ ترین عالم کے طور پر جانے جاتے ہیں، طوسی کے ارشد تلامذہ میں تھے۔ علامہ حلی اپنے استاد کے فضائل اخلاقی کا تذکرہ یوں بیان کرتے ہیں: خواجہ بزرگوار علوم عقلی و نقلی میں بہت زیادہ تصنیفات کے مالک ہیں، انہوں نے مذہب شیعہ کے دینی علوم پر بھی کتابیں لکھی ہیں، میں نے جتنے دانشمندوں کو دیکھا، ان میں شریف ترین شخص وہی تھے۔ خدا انکی ضریح کو منور کرے، میں نے ان کی خدمت میں الہیات شفا ابن سینا اور علم ہیئت میں تذکرہ کا درس لیا، جو خود انکی ایسی تالیفات میں سے ہے کہ جب تک یہ دنیا رہے گی، اس کی تابانی رہے گی۔(مفاخر اسلامی ،علی دوانی ج۴ ص۱۳۶)

مورخین اہل سنت میں سے ابن شاکر نے اخلاق طوسی کی تعریف اس عبارت میں کی ہے۔(خواجہ نہایت خوش شکل و کریم و سخی، بردبار، خوش معاشرت اور حکیم تھے، ان کا شمار اس عہد کے سیاست مداروں میں ہوتا تھا۔(؛فوات الوفیات،ابن شاکر ج۲ ص۱۴۹؛) خواجہ طوسی کے شاگردوں میں علامہ حلی، ابن میثم بحرانی، قطب الدین شیرازی، ابن فوطی، سید رکن استر آبادی وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ کئی سو سال گزر گئے ہیں، مگر آج بھی طوسی کے آثار علم و دانش سے استفادہ جاری و ساری ہے۔ طوسی بہت سے عصری علوم بالخصوص فلسفہ و ریاضی میں صاحب نظر تھے اور کلام، منطق، ادبیات، تعلیم و تربیت، اخلاق، فلک شناسی و رمل وغیرہ میں ایک مقام رکھتے تھے۔ مخالفین و غیر مسلمین نے انکی جو تمجید و تعریف کی ہے، وہ لائق توجہ اور خواجہ کے وسعت علمی کا ثبوت ہے۔ جرجی زیدان اس موضوع پر لکھتے ہے(اس ایرانی کے ذریعے حکمت و علم مغلوں کی سلطنت کے ہر دور دراز علاقوں میں یوں پہنچ گئے کہ رات کی تاریکی میں نور تاباں تھے۔(آداب الغۃ العربیہ ،فوائد الرضویہ) نصیر الدین کی جامعیت ایسی ہے کہ ہر علم و فن میں انکا نام نظر آتا ہے، شاید خواجہ نصیر ان کم نظیر ترین انسانوں میں سے ہیں، جنہوں نے علم کے متعدد شعبوں میں اپنے قلم کی مہارت دکھائی ہے۔ اختصار کے طور پر خواجہ کی تصانیف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ تجرید العقائد، شرح اشارات، اوصاف الاشراف، قواعد العقائد، اخلاق ناصری، آغاز و انجام، تحریر مجسطی، تحریر اقلیدس، تجرید المنطق، اساس الاقتباس، زیج ایلخانی۔۔۔۔۔۔ وغیرہ

18 ذی الحج 673 ھ کو بغداد کے آسمان کا رنگ دگرگوں تھا۔ گویا کوئی ایسا اتفاق واقع ہونے والا ہے، جس سے اس شھر کا سکون ختم ہو جائے گا اور لوگ سوگوار ہو جائیں گے۔ ایک ایسا مرد بستر بیماری پر پڑا ہوا تھا، جس کی پرشکوہ زندگی سراسر حادثات سے بھرپور تھی، جس نے سالہا سال تلوار و شمشیر کا نظارہ کیا اور ایک سے دوسرے شہر کی طرف ہجرت و اسیری کا تجربہ بھی تھا۔ طوسی کی تمام زندگی میں تلوار کا منحوس سایہ ان کے سر پر رہا اور اسی بربریت کے سایہ تلے انہوں نے مکتب کے عقائد و افکار نشر کئے اور اپنی یادگار بے شمار کتابیں چھوڑ گئے۔ تاریخ نقل کرتی ہے کہ کسی نے خواجہ سے وصیت کرنے کے لئے کہا؛ کہ آپ کو مرنے کے بعد  جوار قبر امیر المومنین علیہ السلام  میں دفن کیا جائے۔ خواجہ سراپا ادب تھے، جواب میں بولے مجھے شرم آتی ہے کہ مروں تو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے جوار  میں اور ان کا آستانہ چھوڑ کر کہیں اور ۔۔۔۔۔۔۔ اتنی گفتگو کے بعد آنکھ بند کرکے اہل علم و دانش کو غم و عزا میں بٹھا دیا۔ بغداد سراسر غرق ماتم ہوا، خواجہ کی تشیع جنازہ میں بچے، جوان، بزرگ، مرد و خواتین باچشم گریاں شریک تھے۔ انکی میت کو آستان مقدس امام کاظم و امام جواد علیہم السلام کے روضے لے گئے، جس وقت قبر کھودنا چاہی تو وہاں پہلے سے تیار قبر کا سراغ ملتا ہے، عجیب بات یہ ہے کہ خواجہ کی تاریخ ولادت اور اس قبر کی تیاری ایک ہی تاریخ کو ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جس دن خواجہ نے طوس میں آنکھ کھولی اسی دن امام کاظم علیہ السلام نے ان کے لئے اپنے پاس جگہ مہیا کر دی، چونکہ خواجہ بھی تمام عمر مغلوں کے اسیر و زندانی رہے اور زندان میں ایک لحظے کے لئے بھی شیعی اعمال و مناجات کو ترک نہیں کیا۔ طوسی کو کاظمین میں سپرد خاک کیا گیا اور انکی قبر پر آیت شریفہ(وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیدِ) نقش کر دی۔ خواجہ اگرچہ اس دنیا سے کوچ کر گئے، لیکن افکار و قلم ہمیشہ ہمیشہ محبین کے گھروں میں باقی رہے، صدیاں گزر گئیں، لیکن انکا نام علم و دانش کے میناروں سے چمکتے رہا ہے اور چمکتا رہیگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
1۔ تخفۃ الاحباب، محدث قمی
2۔ روضات الجنات، قصص العلماء، مرزا محمد تنکابنی
3۔ شرح اشارات، شیخ عبد اللہ نعمہ
4۔ سرگذشت و عقائد فلسفی نصیر الدین طوسی، محمد مدرسی زنجانی
5۔ فوات الوفیات ابن شاکر
6۔ فلافہ شیعہ، شیخ عبد اللہ نعمہ
7۔ الوافی بالوفیات، ابن صفدی رکنی
8۔ الاقاب، محدث قمی
9۔ مفاخر اسلامی، علی دوانی
10۔ آداب اللغۃ العربیہ، محدث قمی      
11۔ خواجہ نصیر یاور وحی و عقل، عبد الوحید وفائی، مترجم حسن عباس فطرت  
12۔ احوال و آثار خواجہ نصیر الدین، محمد تقی مدرس رضوی
خبر کا کوڈ : 766188
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش