QR CodeQR Code

مائنس امریکہ مستقبل کیجانب گامزن شام

13 Dec 2018 02:57

اسلام ٹائمز: شام کیخلاف ان تمام تر اقدامات کے باوجود امریکی حکومت اور انکے اتحادی اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ ’’شام بغیر بشار الاسد کے‘‘ امریکی وزیر خارجہ کا بجٹ درخواست میں یہ عنوان تھا، لیکن آج ’’شام بغیر امریکہ کے‘‘ چل رہا ہے۔ حافظ الاسد کے دور میں امریکی سفارتکار دمشق جایا کرتے تھے۔ علاقائی معاملات خاص طور فلسطین و لبنان کی مزاحمتی تحریکوں اور امریکی حکومت کے مابین رابطے کا ذریعہ شام کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ حتیٰ کہ شام کی حکومت ہی تھی، جو ایران سے بات چیت کیلئے امریکہ کے کام آیا کرتی تھی۔ لیکن آج سب کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ اب فلسطین اور لبنان کی مزاحمتی تحریکوں اور روس کے مابین روابط ہیں، اب روسی حکام کا دمشق آنا جانا لگا رہتا ہے۔


تحریر: عرفان علی
 
عرب ملک الجمھوریہ العربیہ السوریہ جسے برصغیر پاک و ہند میں شام کہا جاتا ہے، اسکی تازہ ترین صورتحال کو درست تناظر میں سمجھنے کے لئے چند اہم نکات پیش خدمت ہیں۔ یاد رہے کہ پہلی جنگ عظیم تک سلطنت عثمانیہ کا مقرر کردہ انتظامی گورنر یہاں کے نظم و نسق کا ذمے دار تھا اور فلسطین و لبنان بھی اسکا حصہ ہوا کرتا تھا۔ دلچسپ تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ جن عرب مسلمانوں نے برطانوی سامراج کے مفادات لئے سلطنت عثمانیہ کے سقوط میں کلیدی کردار ادا کیا، انکی خفیہ عرب قوم پرست جمعیت الفتاۃ کا صدر مقام بھی شمالی شام ہی تھا۔ تب عرب و عجم کی بنیاد پر یہاں کا ایک ٹولہ لارنس کا آلہ کار بنا تھا۔ امریکی سامراج نے اسی مائنڈ سیٹ کی حامل باقیات کو ڈھونڈ نکالا اور دیگر کھوکھلے بہانوں سے شام کی آئینی و جمہوری منتخب قوم پرست عرب حکومت کے خلاف صف آراء کر دیا، امریکہ نے شام میں اعلانیہ اور کھلی مداخلت کا آغاز کیا۔ صدر باراک اوبامہ کے دور حکومت میں وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے 28 فروری 2012ء کو سینیٹ میں پیش کی گئی محکمہ خارجہ کے سالانہ بجٹ کی درخواست میں ’’بشار الاسد کے بغیر شام‘‘ کے منصوبے کا تذکرہ کیا تھا۔ عہدہ چھوڑنے کے بعد جب انہوں نے اپنی یادداشتوں کو کتابی شکل میں مرتب کیا تو اس میں ایک باب مسئلہ شام کے لئے مخصوص کیا، جو درحقیقت شام میں امریکی مداخلت کا دستاویزی ثبوت کہا جاسکتا ہے۔ پھر وقتاً فوقتاً امریکی و برطانوی ذرائع ابلاغ میں امریکی اتحاد کی شام کے خلاف سرگرمیوں کی خبریں شائع ہوتی رہیں۔ لیکن آج سال 2018ء کے اختتام پر حالات امریکی توقعات کے برعکس ہیں۔ صدر بشار الاسد کو تو مائنس نہیں کیا جاسکا، البتہ امریکی اثرورسوخ، شام تو شام، پورے خطے سے سے ہی مائنس ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

برطانوی و فرانسیسی سامراج نے مشرق وسطیٰ کو نئے نقشے کے تحت ڈھالنے کے لئے پہلی جنگ عظیم کو استعمال کیا۔ دوسری جنگ عظیم اس نقشے بازی کا اگلا مرحلہ ثابت ہوئی۔ اب عالمی سامراج امریکہ نے نئے مشرق وسطیٰ کے قیام کے لئے بساط بچھا رکھی ہے، جس پر نائن الیون کے واقعے کے بعد سے مسلسل کام ہو رہا ہے۔ لیکن اس مرتبہ امریکی سامراج اور اسکے مہرے پٹ رہے ہیں، جس کی وجہ صرف اور صرف ایک ہے کہ فروری 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے عالمی و علاقائی سیاسی منظر نامے میں ٹیکٹونک شفٹ وقوع پذیر ہوچکی ہے۔ امریکہ کے اعلان کردہ نئے مشرق وسطیٰ کے قیام کا بنیادی ہدف فلسطین کی غاصب جعلی ریاست اسرائیل کو سارے عرب و مسلمان ممالک سے تسلیم کروانا تھا۔ اس لئے اس ہدف میں ناکامی ہو رہی ہے تو اسکا ملبہ ایران اور اسکی حامی مزاحمتی فلسطینی و لبنانی تحریکوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ شام میں ایک مصنوعی بحران کے ذریعے جنگ کی سی صورتحال پیدا کرنے کا سبب بھی یہی ہے۔ امریکی سی آئی اے، پینٹاگون، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (یعنی محکمہ خارجہ) سبھی نے شام کے سقوط کے لئے اتحادی ممالک سعودی عرب، قطر، ترکی وغیرہ کو ساتھ ملا کر شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی، غداروں کو مسلح تربیت اور اسلحہ دیا، تکفیری دہشت گردوں کو منظم طریقے سے صف آراء کیا، معمولی فرق کے ساتھ بالکل وہی انداز جو برطانوی و فرانسیسی سامراج نے پہلی جنگ عظیم کے دوران اختیار کیا تھا۔

شام کے خلاف پہلے قطر نے خوب مال خرچ کیا۔ سی آئی کے ٹاپ سیکرٹ منصوبے ٹیک(Teak) سمیت متعدد منصوبوں لئے سعودی بادشاہت نے اربوں ڈالر فرام کئے اور ٹرمپ دور حکومت میں سعودی رقوم کی وصولی پر انکی حکومت کی دو اہم شخصیات ٹلرسن اور میک ماسٹر میں تنازعے کی وجہ سے یہ نکتہ بھی مشہور امریکی صحافی بوب ووڈ ورڈ نے اپنی تازہ ترین تصنیفFear :Trump in the White House کے 37ویں باب کے پہلے پیراگراف ہی میں تحریر کر دیا۔ اسی کتاب میں امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا مائنڈ سیٹ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایران سے محاذ آرائی حتیٰ کہ جنگ چاہتے ہیں اور اسکے لئے انہوں نے منصوبے بھی بنائے۔ اوبامہ دور حکومت میں وہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ تھے، تب انہوں نے ایران کے خلاف اقدامات پر مبنی نئی حکمت عملی پیش کی تھی اور اس میں ایران سے امریکہ کی دشمنی کا ایک سبب یہ بیان کیا تھا کہ اسرائیل کو ایران سے خطرہ لاحق ہے۔ میٹس عہدے پر برقرار ہیں۔ اسرائیل کے سب سے بڑے مدافع امریکی صدر ٹرمپ کے یہودی داماد جاریڈکشنر ہیں اور محمد بن سلمان کو ولی عہد سلطنت بنوانے میں بھی انکا کردار بتایا جاتا ہے۔ ترکی جو شام کے خلاف امریکہ کا اتحادی بنا، جس نے اپنی جغرافیائی حدود سے شام میں غیر ملکی دہشت گرد داخل کرنے کی کھلی چھوٹ دی، اب مکافات عمل کی زد پر ہے۔

شام میں کردوں کے بعض گروہوں کو مہرہ بنانے پر ترکی ناراض ہے، کیونکہ عبداللہ اوجلان کی "پی کے کے" نامی ترک کرد جماعت کو ترک حکومت دہشت گرد قرار دیتی ہے اور امریکہ کے منظور نظر شامی کرد گروہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز (YPG اور) کو پی کے کے ہی کی ایک شاخ تصور کرتی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ ترکی اور کرد ملیشیا کے مابین تصادم کو روکنے کے لئے شمالی شام اور ترکی کی سرحدوں کے درمیان میں امریکہ نے آبزرویشن چوکیاں قائم کر دی ہیں، جبکہ ترکی نے کرد ملیشیا کے امریکی منصوبے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، کیونکہ صدر اردگان حکومت کو خدشہ ہے کہ ترکی کی سرحد پر کرد خود مختار علاقے کے مالک بن سکتے ہیں۔ چونکہ ترکی، شام کی بشار الاسد حکومت کے اتحادی روس اور ایران کے ساتھ آستانہ مذاکراتی عمل کا ضامن ملک بھی ہے، اسی لئے امریکہ ترکی کو مکمل طور اپنے ایجنڈا سے ہم آہنگ کرنے کے لئے وزارت خارجہ کے دو اہم سفارتکاروں کو نہ صرف ترکی بلکہ اردن کے دورے پر روانہ کرچکا ہے۔ وزیر خارجہ کے خصوصی نمائندہ برائے شام جیمز فرینکلن جیفری عرف جم جیفری اور نائب معاون وزیر خارجہ برائے امور خطہ شام اور خصوصی سفارتکار برائے شام جوئل ریبرن 4 تا 14 دسمبر کے اس دو ملکی دورے میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں و مذاکرات کر رہے ہیں۔ انہوں نے شام کی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے انکے مطلوبہ کردار پر تاکید کی ہے۔ بدھ کے روز ترک صدر رجب طیب اردگان نے متنبہ کیا ہے کہ اگلے چند روز میں وہ شمالی شام میں کردوں کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
 
ترکی کا موجودہ رویہ امریکی اتحاد کے لئے قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ اس طرح انکے شام کے خلاف اقدامات متاثر ہوسکتے ہیں۔ دوسری طرف روس اور ایران کا شام دوست کردار بھی امریکی حکومت کو کھٹک رہا ہے۔ امریکی حکام میں سے بعض کی رائے ہے کہ شام کی صورتحال سے روس نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اسکو بحر متوسط میں گرم پانی کی بندرگاہ تک رسائی حاصل ہوگئی ہے، یہاں اسکی فضائیہ کو اڈے مل گئے ہیں، اسلحہ بھی بک رہا ہے تو تعمیر نو کے ٹھیکوں سے بھی حصہ ملنے کا امکان ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی سیاسی منظر نامے میں اسکی حیثیت ایک عظیم طاقت کے عنوان سے ہو رہی ہے۔ ایران کے حوالے سے بھی امریکہ میں ایک رائے یہ ہے کہ شام کے قضیے سے ایران کی اس خطے میں اپنے اتحادی گروہوں تک سپلائی لائن استوار ہوگئی ہے، ایران دنیا کے سامنے اس خطے کی اور زیادہ بڑی اور موثر طاقت بن کر سامنے آرہا ہے اور اسے بھی شام سے کاروباری تعلقات اور تعمیر نو کے ٹھیکوں سے حصہ ملنے کا امکان ہے۔ امریکی سمجھتے ہیں کہ چین بھی تعمیر نو کے کاموں میں حصہ لے سکتا ہے۔

فروری 2012ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد منظور کرکے مسئلہ شام کے پرامن حل کے لئے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کی مشترکہ کوششوں پر زور دیا تھا، جس کے تحت سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو اقوام متحدہ اور عرب لیگ کا مشترکہ نمائندہ خصوصی برائے شام مقرر کیا گیا۔ اگست 2012ء میں انکی عہدے سے دستبرداری کے بعد الاخضر الابراھیمی کو مقرر کیا گیا، جنہوں نے مذاکراتی عمل کو معطل کر دیا اور مئی 2014ء تک عہدے پر رہے۔ جولائی 2014ء سے اسٹیفان ڈی مسچورا کو نمائندہ خاص برائے شام مقرر کیا گیا اور اب وہ بھی عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور عرب لیگ بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے ہاتھوں یرغمال ادارے ہیں اور انکو بھی امریکی ڈکٹیشن دی جاتی ہے۔ سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنی یادداشتوں میں اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ نمائندہ برائے شام کوفی عنان کے حوالے سے لکھا:I began encouraging Kofi to take another tack. Perhaps he should organize an international conference to focus on transition planning. "In the first weeks of June, Kofi visited me in Washington, and we spoke often by phone as he shuttled between Moscow, Tehran, Damascus, and other capitals in the region. He agreed that it was time to take the next diplomatic steps and began formulating plans for a summit at the end of June."I had pressed Lavrov on the need to support Kofi's efforts and bring the conflict to an end. I knew the Russians would never be comfortable explicitly calling for Assad to leave office, but, with our help, Kofi had crafted an elegant solution.""یعنی اقوام متحدہ یا عرب لیگ کی جانب سے بھی اگر کسی کو نمائندہ بنایا جائے تو پس پردہ امریکہ ہی ان پر اثر انداز ہوکر معاملات کو اپنے سامرجی ایجنڈا میں استعال کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے، حتیٰ کہ روس پر بھی اثر انداز ہوتا رہا ہے اور اب امریکہ، سوچی یا آستانہ مذاکراتی عمل کے مقابلے میں اقوام متحدہ کو ایک اور مرتبہ استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

شام کے خلاف ان تمام تر اقدامات کے باوجود امریکی حکومت اور انکے اتحادی اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہے ہیں۔ ’’شام بغیر بشار الاسد کے‘‘ امریکی وزیر خارجہ کا بجٹ درخواست میں یہ عنوان تھا، لیکن آج ’’شام بغیر امریکہ کے‘‘ چل رہا ہے۔ حافظ الاسد کے دور میں امریکی سفارتکار دمشق جایا کرتے تھے۔ علاقائی معاملات خاص طور فلسطین و لبنان کی مزاحمتی تحریکوں اور امریکی حکومت کے مابین رابطے کا ذریعہ شام کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ حتیٰ کہ شام کی حکومت ہی تھی، جو ایران سے بات چیت کے لئے امریکہ کے کام آیا کرتی تھی۔ لیکن آج سب کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ اب فلسطین اور لبنان کی مزاحمتی تحریکوں اور روس کے مابین روابط ہیں، اب روسی حکام کا دمشق آنا جانا لگا رہتا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کا یہ حال ہے کہ امریکی افواج کی وسطی کمان (سینٹرل کمانڈ) جو کہ شام و ایران، پاکستان و افغانستان سمیت بیس ممالک کے معاملات پر فوجی نظر رکھنے کے لئے قائم کی گئی ہے، اس کے نئے سربراہ میرین کور کے لیفٹنٹ جنرل کینیتھ مک مکینزی نے امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے سوالات برائے شام کے جواب میں برملا کہا کہ بشار الاسد حکومت کی حامی فورسز ادلب صوبے کو کہ جو اپوزیشن کا آخری مضبوط گڑھ ہے ( انکا) صفایا کرتے نظر آرہے ہیں، ان فورسز کی حیثیت ان تمام اپوزیشن فورسز کے مقابلے میں قریب قریب ناقابل شکست و بالادست ہے کہ جو ترکی کے عارضی حفاظتی انتظامات کے تحت شام کے شمال مغربی علاقوں میں موجود ہیں۔ امریکی جنرل کا کہنا ہے کہ خانہ جنگی کو ختم کرنے میں شامی حکومت کی کامیابی قریب قریب یقینی دکھائی دیتی ہے۔ کیا یہ بیان امریکی ناکامی کا سرکاری سطح پر اعتراف نہیں ہے!


خبر کا کوڈ: 766425

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/766425/مائنس-امریکہ-مستقبل-کیجانب-گامزن-شام

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org