0
Friday 14 Dec 2018 19:49

پختون بمقابلہ پختون

پختون بمقابلہ پختون
رپورٹ: ایس علی حیدر

پختون قوم پرست جماعت اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی کے مطابق "پختون تحفظ موومنٹ" کسی اور کی پیداوار ہے۔ انہوں نے خیبر نیوز کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو کے ذریعے پاکستان سمیت دنیا بھر کے پختونوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا۔ ان کے مطابق وزیرستان جیسے علاقے سے پی ٹی ایم (پختون تحفظ موومنٹ) کے دو ارکان فوج کی نگرانی میں قومی اسمبلی میں بھیجے گئے، جبکہ اس کے برعکس اہم سیاسی، مذہبی لیڈروں کو سائیڈ لائن کیا گیا۔ پانچ بڑے لیڈروں کو شکست دلوا کر یہ پیغام دیا گیا کہ مقتدر قوتوں کی نظر میں پی ٹی ایم (پختون تحفظ موومنٹ) ہی کی افادیت ہے۔ ہمیں اسٹیبلشمنٹ نے حالیہ انتخابات میں شکست دلوائی اور پی ٹی ایم کو کامیابی دلوائی۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے دو ارکان کو وزیرستان جیسے علاقے سے کامیابیاں دلوا کر پارلیمنٹ بھیجا گیا۔ ان کے مطابق عام انتخابات میں ان سمیت آفتاب خان شیرپاؤ، مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق اور محمود خان اچکزئی کو شکست دلوا کر پارلیمنٹ کے راستے بند کر دیئے گئے، جو علاقے فوج کے مکمل کنٹرول میں ہیں اور جس فوج کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ پی ٹی ایم کی کٹڑ مخالف اور دشمن ہے، وہاں یہ سب کچھ ہوا۔

ان کے مطابق مقتدر قوتیں پی ٹی ایم کے پیچھے تھیں، ورنہ فوج کی موجودگی میں اس کے دو ارکان وزیرستان جیسے علاقے سے اسمبلی میں نہیں پہنچ پاتے۔ بقول انکے وہ اس بات کے قائل ہیں کہ پی ٹی ایم کسی اور کی پیداوار ہے اور اس کے ذریعے پشتونوں کی سیاسی اور مذہبی قیادت کو سائیڈ لائن کرنا ہے۔ اے این پی کے رہنماء اسفندیار ولی نے اپنے انٹرویو میں پختون تحفظ موومنٹ پر الزامات لگا کر پختونوں کو حیران کیا ہے، حالانکہ دونوں جماعتیں پختونوں کے حقوق کے تحفظ کی دعویدار ہیں۔ اب اے این پی قائد کے یہ الزامات حقیقت پر مبنی ہیں یا نہیں؟ اس کا فیصلہ وقت نے کرنا ہے اور کافی حد تک کیا بھی ہے۔ گو کہ پختون تحفظ موومنٹ کے خلاف بہت سے ثبوت موجود ہیں کہ وہ پاکستان مخالف جماعت ہے اور اس کے رہنما منظور پیشتین و دیگر قائدین کو ملک دشمن عناصر سمجھا جاتا ہے اور اب اسے اسٹبلشمنٹ کی پیداوار قرار دیا جا رہا ہے، یہ بات قابل غور ہے۔ بہرحال اس تحریک کو ایک مخصوص مدت تک پختونوں میں شہرت حاصل ہوئی، اس کی کئی وجوہات ہیں۔

یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ پختون تحفظ موومنٹ عوامی نیشنل پارٹی کی نسبت بہت کم عرصے میں کراچی میں نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد ردعمل کے طور پر منظر عام پر آئی اور شہرت حاصل کرتی گئی اور بعد میں اس کے مطالبات بڑھتے گئے۔ اکثریت خاص طور پر پختون نوجوان پی ٹی ایم کو اپنے حقوق کی ترجمان سمجھتے ہیں، جبکہ عوامی نیشنل پارٹی بھی پختون قوم پرست جماعت ہے۔ اب یہاں "پختون بمقابلہ پختون‘‘ کا جملہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا۔ بہرحال اسفندیار ولی جس طرح انٹرویو میں پی ٹی ایم، فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر بولے، الزامات لگائے، وہ زمینی حقائق سے متصادم ہیں یا حقیقت پر مبنی ہیں؟ یہاں اے این پی رہنما کو کچھ اپنی اداؤں پر بھی غور کرنا چاہیئے۔ اس حوالے سے مبصرین کی اپنی اپنی آراء ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بڑے بڑے برج نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ دیگر صوبوں میں بھی گرے اور تحریک انصاف نے اقتدار کی باگیں سنبھالیں۔ جہاں تک میری رائے ہے تو اے این پی یہاں بڑی غلطی کر رہی ہے۔

مرکزی رہنماء کو شکست کا اتنا افسوس ہے کہ وہ پی ٹی آئی پر تو تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن فوج، اسٹیبلشمنٹ و مقتدر اداروں کو اپنی و دیگر قوم پرست یا خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور امیدواروں کی شکست کا ذمہ دار بھی قرار دیکر تاحال اپنی شکست کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔ جہاں تک ان کے انٹرویو میں خیالات، تحفظات و خدشات ہیں تو یہ پختون سیاست کیلئے چنداں درست نہیں سمجھے جاسکتے۔ اسفندیار ولی کا شمار پختون قوم پرست جماعتوں کے علاوہ پاکستان کے بڑے سیاستدانوں میں ہوتا ہے اور یہ الزامات ان کی شخصیت سے چنداں مطابقت نہیں رکھتے۔ ماضی قریب یا بعید میں چلے جائیں تو عوامی نیشنل پارٹی ایک موروثی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ سیاسی و دیگر مفادات کو ٹھوکر لگنے کے بعد اسفندیار ولی کو اب کیوں اپنے سمیت دیگر پختون پرست و خیبر پختونخوا کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا خیال آیا ہے، جبکہ قبل ازیں وہ جن کی حمایت کر رہے ہیں، ان کے مخالف بھی رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 766654
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش