0
Monday 17 Dec 2018 16:43

کے ڈی اے نے مالی گھپلوں اور بے تحاشہ اخراجات میں تمام محکموں کو پیچھے چھوڑ دیا

کے ڈی اے نے مالی گھپلوں اور بے تحاشہ اخراجات میں تمام محکموں کو پیچھے چھوڑ دیا
رپورٹ: ایس ایم عابدی

ادارہ ترقیات کراچی (کے ڈی اے ) نے بے قاعدگیوں، مالی گھپلوں اور بے تحاشہ اخراجات میں تمام محکموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ادارے کی آمدن چار آنے کے برابر نہیں لیکن اخراجات 40 آنے سے بھی زائد کے ہیں۔ اے جی سندھ آئے ہوئے آڈیٹرز نے بھی بہتی گنگا میں ڈبکی لگانے کا اشارہ دے دیا۔ بے قاعدگیوں بے ضابطگیوں اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر بنائے جانے والے 3 سالہ اکاؤنٹس کے آڈٹ کلیئر کرانے کے معاملات آڈیٹرز سے طے پاگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق آمدنی اٹھنی خرچہ روپیہ اس محاورے کو بھی کے ڈی اے نے میلوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ادارہ ترقیات کراچی کے گزشتہ تین سالوں کے آڈٹ کے دوران اے جی سندھ کے آڈیٹرز نے سر پکڑ لئے ہیں۔ دوران آڈٹ ڈیفیشنسیسز کی بھرمار، پیراز ہی پیراز، اعتراضی نوٹس کی لائن لگ گئی۔ افسران ہاؤس رینٹ الاؤنس بھی لیتے ہیں اور کے ڈی اے کے فلیٹس پر بھی براجمان ہیں۔ ادارے سے رہائش حاصل کرنے والے افراد کا ہاوس رینٹ الاؤنس اور بیسک تنخواہ کا 10 فیصد بھی نہیں کاٹا جاتا۔

ذرائع نے بتایا کہ اصولی طور پر خسارے میں جانے والے سرکاری ادارے کانٹریکٹ ملازمین کو نہیں رکھ سکتے لیکن کے ڈی اے یہاں پر بھی کہیں پیچھے نہیں، ادارے میں کانٹریکٹ ملازمین کی بھرمار ہے۔ یوٹیلیٹی بلز الاؤنس سے بھی محظوظ ہوا جاتا ہے۔ کے ڈی اے ملازمین بجلی گیس کے بلوں کے خراجات بھی وصول کرتے ہیں۔ بکس آف اکاؤنٹس میں ڈیولپمنٹ سائیڈز کی ایڈجسٹمنٹ بھی سمجھ سے باہر ہے، ایڈجسٹمنٹ کرکے اضافی خطیر فنڈ خرچ کیا گیا۔ دوران آڈٹ ایڈمنسٹریٹو کیوریز کی بھرمار، ان ریگولر سیلریز کی ادائیگیاں، ایمرجینٹ ہائرنگ نے کھاتوں کو الٹ پلٹ ڈالا ہے۔ ادار ے میں سب انجینئرز سپریٹنڈنٹ انجینئر کی تنخواہ لے رہا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈائریکٹر کی تنخواہ کے مزے اڑا رہا ہے اور ان تمام بے قاعدگیوں کو اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ اور پیرول برانچ صرف نظر کر دیتا ہے۔ اخراجات کی طرح شعبہ آمدن کی بھی کوئی کل سیدھی نظر نہیں آتی ہے۔

ذرائع کے مطابق ادارہ ترقیات کراچی کی سب سے اہم آمدن کا ذریعہ روڈ کٹنگ ہے روڈ کٹنگ پر ادارہ 50 فیصد سے زائد کا انحصار کرتا تھا۔ ادارہ ترقیات کراچی روڈ کٹنگ پہلے ڈویژن اور ڈسٹرکٹ کی سطح پر وصول کیا کرتا تھا لیکن اس میں ہونے والے مسلسل اضافے نے بااثر افسر مافیا کو مجبور کردیا کہ روڈ کٹنگ سینٹرلائز بنیادوں پر وصول کی جائے۔ دفاتر کی ریونیویشن کے لئے سال میں تین تین مرتبہ رقم مختص کی گئی مگر ریونیشن ایک آدھ بار ہی ہو پائی وہ بھی مخصوص دفاتر کی۔ سیکرٹریٹ آڈٹ کے دوران آفس رینویشن کے لئے گیارہ کروڑ سے زائد کے بل جمع کرائے گئے اور رقم کا اجراء ہوا ہے۔ یہ تمام کام ظفر عباسی اسسٹنٹ سیکرٹری وہیکل اینڈ ایڈمنسٹریشن نے سرانجام دیا ہے۔ اسی طرح گاڑیوں کے لئے مختص پیٹرول کی لمٹ آسمانوں کو چھو چکی ہے، پیٹرول کی مد میں ہی کروڑ روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے بکس آف اکاؤنٹس میں ریکوری کی مد میں آمدن مسلسل کم ہی ہوتی نظر آئی ہے۔

ذرائع کے مطابق بغیر گورننگ باڈی کے مختلف مدوں میں وصول کئے جانے والے چالانوں کی فیسوں میں کمی کی گئی کہیں معاف کر دی گئی اور بیشتر آدھی کردی گئی یہ بھی آمدن میں کمی کا باعث بنا۔ ادارے کی بکس آف اکاؤنٹس کو ترتیب دینے کے لئے مروجہ اکاؤنٹس کے عالمی اصولوں کو مکمل طور پر بالائے طاق رکھتے ہوئے انٹریاں کی گئیں۔ ادارہ ایک ارب 44 کروڑ روپے کے آؤٹ اسٹینڈنگ کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ہر ماہ 20 کروڑ روپے کی سندھ حکومت کی گرانٹ ادارے کے ملازمین کے تنخواہوں کا بوجھ کم کرتی ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ تین سالہ کھاتوں کا آڈٹ کلیئر کروانے کی ذمہ داری سیکرٹری کے ڈی اے فضیل بخاری، ڈائریکٹر فنانس و اکاؤنٹس، پے رول، ریکوری عطاء عباس کو سونپ دی گئی ہے، جنہوں نے بے قاعدگیوں، بے ضابطگیوں اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر بنائے جانے والے 3 سالہ اکاؤنٹس کے آڈٹ کلیئر کرانے کے معاملات آڈیٹرز سے طے کرلئے ہیں۔ ڈائریکٹر فنانس عطاء عباس 30 لاکھ روپے سالانہ کے حساب سے 90 لاکھ جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ واضح رہے کہ تین سالہ آڈٹ کلیئر ہونے کی ہی بنیاد پر ہی 1 ارب 44 کروڑ روپے واجبات کی ادائیگیوں کے لئے مطلوبہ گرانٹ سندھ حکومت سے منظور ہوسکے گی۔
خبر کا کوڈ : 766686
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش