0
Saturday 15 Dec 2018 10:19

امریکی دباؤ اور دو ٹوک قومی موقف

امریکی دباؤ اور دو ٹوک قومی موقف
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

مسئلہ افغانستان پہ کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی، لیکن پاکستان کے موقف میں مزید بہتری آرہی ہے، جس کی وجہ سے امریکہ افغان مسئلہ پر ڈومور کے مطالبے سے دستبرداری کی بعد مذہبی آزادیوں اور اقلیتوں کے حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے الزامات کے حوالے سے بھی پاکستان پر دبائو ڈالنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے خود ساختہ کمیشن برائے انٹرنیشنل ریلجیس فریڈم کی رپورٹ پر پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا، جو مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کے اعتبار سے دنیا کے تشویشناک ملک تصور کئے جاتے ہیں۔ امریکی سفارت خانے کے نائب سربراہ کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے پاکستان نے اس رپورٹ کو مکمل طور پر بے بنیاد، یک طرفہ اور سیاسی مقاصد کی حامل قرار دیتے ہوئے امریکہ سے شدید احتجاج کیا گیا، جس پر امریکہ نے پاکستان کو ان تادیبی معاشی پابندیوں سے استثنا دے دیا، جو اس فہرست میں شامل ممالک کو امریکہ کی جانب سے بھگتنا ہوتے ہیں۔

ایک احتجاجی مراسلہ بھی امریکی سفارت کار کے حوالے کیا گیا، جس میں امریکی رپورٹ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو ملکی آئین کے مطابق تمام تر آزادی حاصل ہے۔ امریکہ سے کہا گیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو کیسے نظر انداز کرسکتا ہے؟ وہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے اذیت ناک سلوک کو بھی نظر انداز کر رہا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک اور کسی امتیاز کے بغیر ان کے انسانی حقوق کو یقینی بنانا پاکستان کے آئین کا بنیادی اصول ہے۔ انسانی حقوق کے دعویداروں نے بیرونی تسلط کے تحت زندگی گزارنے والی اقلیتوں پر منظم ظلم و ستم جیسا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے، پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ پاکستان کو کسی سے اقلیتوں کے حقوق پر لیکچر لینے کی ضرورت نہیں، وفاقی وزیر شیریں مزاری نے بھی امریکی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن اسلام آباد پر دبائو بڑھانے کی مضحکہ خیز کوشش کر رہا ہے۔

امریکی بلیک لسٹ میں روس، چین، ایران، سعودی عرب، اریٹریا، سوڈان، شمالی کوریا، برما، تاجکستان اور ترکمانستان بھی شامل ہیں۔ امریکہ کے گشتی سفیر ولیم بیک کا کہنا ہے کہ امریکہ نے بلیک لسٹ میں شامل ہونے کے باوجود اپنے ملکی مفاد میں پاکستان کو استثنا دیا ہے، جبکہ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب پر استثنا کی وجہ سے جرمانہ عائد نہیں کیا جائے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی رپورٹ پاکستان پر دبائو ڈالنے کا ایک ناروا حربہ تھی، جسے پاکستان نے سختی سے مسترد کر دیا۔ پاکستان میں نادرا کی گذشتہ رپورٹ کے مطابق تقریباً 14 لاکھ ہندو، 13 لاکھ عیسائی، 6 ہزار سکھ اور ستر ہزار کے قریب دیگر مذہبی اقلیتیں آباد ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد ملکی آبادی کا تقریباً 2 فیصد ہے، امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اقلیتوں کو انتہا پسندوں کے حملوں سے تحفظ دینے میں ناکام رہا، جبکہ ملک میں اس نوعیت کے ایک بھی واقعے کی نظیر پیش نہیں کی گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ اور مطمئن ہیں اور ان کی عبادت گاہوں کی مناسب دیکھ بھال کی جا رہی ہے، انہیں یونین کونسلوں سے پارلیمنٹ تک آبادی کے لحاظ سے خصوصی نمائندگی حاصل ہے۔ آسیہ کیس میں حکومت اور سپریم کورٹ کا کردار اقلیتوں کے تحفظ کی گواہی دیتا ہے۔ اس کے برخلاف بھارت میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے، ہندو انتہا پسند گائے ذبح کرنے کے مفروضوں پر مسلمانوں کے گلے کاٹ دیتے ہیں، مگر وہ تشویشناک ملکوں کی فہرست میں شامل نہیں۔ خود امریکہ اور یورپ میں اسلامو فوبیا بڑھتا جا رہا ہے اور آئے روز کسی نہ کسی ملک میں اسلامی شعائر پر پابندی کی خبریں منظر عام پر آرہی ہیں۔ حکومت پاکستان نے امریکی رپورٹ مسترد کرکے قوموں کی برادری میں پاکستان کا درست اور موثر دفاع کیا ہے۔ خود اقلیتی برادری کے رہنما بھی پاکستان میں مذہبی رواداری کی تعریف کرتے ہیں۔ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ پاکستان کو نشانہ بنانے کی بجائے بھارت اور اس جیسے ملکوں کو بلیک لسٹ کرے اور ان پر پابندی لگائے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ‎پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان وزراء خارجہ سطح کے مذاکرات کے لئے کابل میں موجود ہیں، سہ فریقی مذاکرات کا مقصد افغانستان میں دیرپا امن کا مستقل حل تلاش کرنا ہے۔ یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ پاکستان اب کسی اور کی جنگ لڑنے کی بجائے ثالثی کے ذریعے تصفیہ میں اپنا کردار ادا کرے گا، امریکہ نے یہ بات پہلی مرتبہ تسلیم کی ہے، افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ موجودہ وزیراعظم کا موقف ہے کہ یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی تھی، افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑیں گے، امریکہ کو افغانستان کی جنگ میں اتنی کامیابی نہیں ہوئی، جتنی پاکستان کو حاصل ہوئی، پاکستان سیاسی مذاکرات کی بات کر رہا ہے اور ہر وہ قدم اُٹھا رہا ہے، جو مذاکرات کو کامیاب کرے۔ پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان حالیہ سہ فریقی مذاکرات کے تین ادوار ہوں گے۔ مذاکرات کے پہلے دور میں افغانستان کی سیاسی صورتحال اور افغان طالبان سے مفاہمتی عمل کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی، مذاکرات کے دوسرے دور میں خطے میں تعاون جبکہ تیسرے دور میں سکیورٹی تعاون پر بات ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 766739
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش