0
Monday 17 Dec 2018 23:21

سوڈان کے صدر عمر البشیر کا اچانک دورہ شام

سوڈان کے صدر عمر البشیر کا اچانک دورہ شام
تحریر: حسن رستمی

سوڈان کے صدر عمر البشیر غیر متوقع طور پر اچانک شام کے دورے پر گئے ہیں۔ وہ بغیر کسی پیشگی اعلان کے آج اتوار 17 دسمبر کو اچانک دمشق پہنچے اور شام کے صدر بشار اسد نے ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا۔ دونوں سربراہان مملکت وہاں سے الشعب محل گئے جہاں بند کمرے میں ان کے مذاکرات کا آغاز ہو گیا۔ ان کے درمیان بات چیت دوطرفہ تعلقات اور شام اور خطے کے حالات کے بارے میں انجام پائی۔ عمر البشیر اس مختصر ملاقات کے بعد سوڈان واپس چلے گئے۔ موجودہ حالات میں سوڈان کے صدر عمر البشیر کا دورہ شام اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کا یہ دورہ 2011ء میں شام میں سکیورٹی بحران کے آغاز کے بعد تمام عرب ممالک کی جانب سے شام سے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے جانے کے بعد کسی عرب حکمران کا پہلا سرکاری دورہ ہے۔ یہ دورہ کسی پیشگی سرکاری اعلان کے بغیر انجام پایا ہے اور خود سوڈانی حکام نے بھی اس دورے کو اہمیت کا حامل دورہ قرار دیا ہے۔
 
جب شام میں سکیورٹی بحران کا آغاز ہوا تو اس کے 8 ماہ بعد عرب ممالک نے آپس میں اتفاق رائے سے عرب لیگ میں شام کی رکنیت معطل کر دی اور دمشق کے خلاف سیاسی اور اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ عرب ممالک نے شام آرمی سے مطالبہ کیا کہ وہ شام میں حکومت مخالف گروہوں کے خلاف شدت پسندی کا مظاہرہ نہ کرے اور ان کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرے۔ عمر البشیر نے ایسے وقت شام کا دورہ کیا ہے جب سات سال بعد اس ملک میں جنم لینا والا بحران اپنے خاتمے کے قریب ہے اور اکثر عرب ممالک جو شام کی حکومت میں تبدیلی کے خواہاں تھے اب اپنے گذشتہ موقف سے دستبردار ہوتے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب نے گذشتہ سات برس کے دوران شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کی بھرپور مالی اور فوجی امداد جاری رکھی ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے شام میں سکیورٹی بحران کے آغاز سے ہی یہ موقف اپنایا ہے کہ شام کے صدر بشار اسد کو ہر حال میں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑے گا چاہے یہ کام سیاسی طریقے سے انجام پائے یا طاقت کے زور پر۔
 
بہرحال، عمر البشیر کا دورہ شام ظاہر کرتا ہے کہ شام سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی میں اسٹریٹجک تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ آج کوئی عرب حکمران صدر بشار اسد کی اقتدار سے علیحدگی کی بات نہیں کرتا اور سب شام کا بحران سیاسی طریقہ کار سے حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ حال ہی میں ترکی کے وزیر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ اگر صدر بشار اسد کو عوامی مینڈیٹ حاصل ہو جائے تو وہ انہیں قانونی صدر قبول کرنے پر تیار ہیں۔ عرب ممالک نے زمینی حقائق اور خطے میں رونما ہونے والی اسٹریٹجک تبدیلیوں کو درک کرتے ہوئے شام سے تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اردن کا ایک وفد بھی شام کا دورہ کر چکا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات نے بھی دمشق میں اپنے سفارتخانے کی بحالی کا عندیہ دیا ہے۔ البتہ عرب ممالک کی خارجہ پالیسی میں یہ تبدیلی اتنی آسانی سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ شام کی عوام اور حکومت کی جانب سے سات برس تک استقامت اور مزاحمت کا نتیجہ ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ شام آرمی ملک کے اکثر رقبے پر اپنا کنٹرول برقرار کئے ہوئے ہے اور صرف صوبہ ادلب تکفیری دہشت گرد عناصر کے قبضے میں ہے۔
 
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ سوڈان کے صدر عمر البشیر اور شام کے صدر بشار اسد کے درمیان کیا بات چیت انجام پائی۔ چونکہ سوڈان سعودی عرب کی سربراہی میں فوجی اتحاد کا بھی رکن ہے لہذا کہا جا رہا ہے کہ ان کا یہ دورہ سعودی عرب کی اجازت سے انجام پایا ہے۔ بعض حلقے یہ امکان بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے اس دورے میں سوڈانی صدر نے ریاض سے کوئی پیغام دمشق پہنچایا ہو۔ سوڈان کے صدر عمر البشیر نے اعلان کیا ہے کہ وہ شام میں مکمل امن و امان کے قیام اور عرب دنیا میں شام کی واپسی کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عرب ممالک عرب لیگ میں شام کی رکنیت بحال کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ سوڈانی صدر عمر البشیر کا دورہ شام ایک اہم پیغام کا حامل ہے۔ یہ پیغام اس حقیقت پر مشتمل ہے کہ شام کا سکیورٹی بحران اختتام پذیر ہونے والا ہے اور شام مخالف ممالک جو کسی زمانے میں صدر بشار اسد کی حکومت سے برطرفی پر زور دیتے تھے اب انہیں قبول کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
 
خبر کا کوڈ : 767240
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش