0
Monday 17 Dec 2018 18:39

خاشقجی کا سفاکانہ قتل اور انصاف کا الٹا ترازو

خاشقجی کا سفاکانہ قتل اور انصاف کا الٹا ترازو
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

کہتے ہیں ایک رات قصر شاہی میں بڑی پُر تکلف دعوت ہوئی، مملکت کے بڑے بڑے تاجر، وزراء، عمائدین، کاروباری اور پیسہ والے تو تھے ہی مزدور و محنت کش طبقہ، کسان، بڑھئی، مستری، پتائی کرنے والے چھوٹے موٹے کام کر کے اپنا گزارا کرنے والے سبھی دعوت میں شہزادہ مملکت کی طرف سے مدعو تھے۔ شہزادے کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ سب لوگ کھانا تو ساتھ کھائیں گے ہی ہمارے انصاف کو بھی دیکھیں گے، اگر کسی نے کسی کا حق مارا ہے، کسی کو ستایا ہے تو اسے چھوڑا نہیں جائے گا اسی وقت محل میں سب کے سامنے سزا دی جائے گی۔ سو ہر ایک پہنچا تھا جسے کھانا تھا وہ بھی، اور جسے نہیں کھانا تھا وہ بھی، کچھ مرغن غذاؤں سے سیر ہو کر کھانے اور محل کے اندر کے ماحول کو دیکھنے  پہنچے تھے تو کچھ بادشاہ کے انصاف کو دیکھنے محل میں پہنچ گئے تھے۔ جب کھانا ہو گیا تو شہزادے  نے پوچھا کسی کو ہماری مملکت میں شکایت تو نہیں سب لوگ چین و سکون سے تو ہیں؟ اگر کسی کو شکایت ہے تو بتائے اس کے حق میں انصاف ہوگا۔ شہزادے  کی بات ختم ہوئی تو ہر طرف سناٹا چھا گیا، ہر طرف خاموشی تھی گوکہ کسی کو کسی سے شکایت ہی نہ تھی، یا سب کو کہیں نہ کہیں ایک تلخ تجربہ ہوا تھا اس لئے  انہیں ظلم و ستم میں رہنا گوارا تھا، شہزادے کے انصاف سے سروکار نہ تھا۔ شاید انہیں معلوم تھا یہاں انصاف کا ترازو ہی الٹا ہے، تو انصاف کی امید کیا رکھنا۔

جب کافی دیر ہر طرف سناٹا چھایا رہا اور کوئی آگے نہ بڑھا تو ایک بار پھر شہزادے کی رعب دار آواز گونجی، کیا کوئی ہے جسے ہماری مملکت میں کوئی شکایت ہو کسی سے؟ کیا کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے؟ اس بار ایک آدمی آیا اور اس نے  اپنے آپ کو شہزادے کے حضور پیش کیا، تمام مہمان ٹکٹکی باندھے اس کی طرف دیکھنے لگے کہ اب کیا ہوگا؟ لوگوں نے دیکھا وہ شہزادے کے تخت کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ  اس کی ایک آنکھ کا دیدہ باہر ہے اور خالی جگہ سے خون بہہ رہا ہے۔ حب وہ بالکل شہزادے کے سامنے پہنچ گیا تو شہزادے نے اس سے پوچھا کہ یہ تمہاری آنکھ سے خون کیوں بہہ رہا ہے؟ آخر کیا ہوا؟ اس نے جواب دیا "جہاں پناہ  میں ایک پیشہ ور چور ہوں اور آج شب ہمیشہ کی طرح تاریکی میں اپنے کام پر نکلا لیکن کیا کروں رات  اس قدر اندھیری تھی کہ مجھے کچھ نظر نہیں آیا اور میں نکلا تو ساہوکار کی دکان لوٹنے کے لئے تھا  لیکن دکھائی نہ دینے کے سبب غلطی سے جولاہے کے گھر میں داخل ہو گیا۔ جوں ہی میں کھڑکی سے کودا میرا سرجولاہے کے کرگھے کے ساتھ ٹکرایا اور میری آنکھ پھوٹ گئی۔ شہزادے! میں تو ایمانداری سے اپنے کام کے لئے نکلا تھا اور کسی کو پریشانی نہ ہو اس لئے میں نے رات کا وقت چنا تھا لیکن میری آنکھ پھوٹ گئی، آپ کے انصاف کے بڑے چرچے ہیں آپ کے در سے کوئی  خالی ہاتھ نہیں پلٹتا  میری مشکل کو آپ ہی حل کریں۔ شہزادے نے پوچھا کہ تو اب تمہیں کیا چاہیئے؟ اے شہزادے اب میں اس جولاہے کے معاملے میں انصاف چاہتا ہوں اور بس۔ یہ سن کر شہزادے نے جولاہے کو طلب کیا اور یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ اس کی ایک آنکھ نکال دی جائے۔ جولاہا پریشان ہو کر بولا ظل سبحانی آپ کا فیصلہ درست ہے کہ میری آنکھ نکالی جانی چاہیئے اور یہ میرا حق ہے، آپ کے فیصلہ میں آپ کے بابا جانی ظل سبحانی کی جھلک آتی ہے وہ بھی اسی طرح جرات مندانہ فیصلہ سنایا کرتے تھے اور لوگ انکے فیصلوں پر راضی پلٹتے تھے۔

لیکن شہزادے میرے کام میں دونوں آنکھوں کی ضرورت ہے تاکہ میں اس کپڑے کے دونوں اطراف میں دیکھ سکوں جسے میں بنتا ہوں، آپکی مملکت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ بہترین کپڑے یہاں سے دوسرے علاقوں میں بکنے جائیں اسکا  فائدہ آپ کی مملکت کو پہنچے، اب میری مشکل یہ ہے کہ اگر میری ایک آنکھ نکال لی گئی تو میں صحیح ڈھنگ سے کرگھے کی طرف نہیں دیکھ سکوں گا، جسکی وجہ سے کپڑا صحیح نہیں تیار ہو سکے گا، اس طرح مجھے بھی نقصان اٹھانا پڑے گا اور آپ کو  بھی۔ چنانچہ مجھے ہر حال میں دونوں آنکھوں کی ضرورت ہے اب آپکا اختیار ہے بندہ آپکے حضور میں ہے آپ چاہیں ایک آنکھ نکالیں چاہیں دونوں نکال لیں۔ بندہ ہر حال میں راضی ہے اور آپ کے فیصلہ کو قبول کرتا ہے۔ شہزادے نے کہا بات تو تیری ٹھیک ہے تجھے تو واقعی دونوں ہی آنکھوں کی ضرورت ہے  لیکن ہم نے دعوت عام دی ہے کہ انصاف آج ہو کر رہے گا تو ہمیں تو کچھ کرنا ہی ہوگا، اچھا تو ہی بتا کیا کریں؟ جولاہے نے کہا میرے پڑوس میں موچی ہے جس کی دونوں آنکھیں سلامت ہیں اس کے پیشے میں دونوں آنکھوں کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اکثر ایک آنکھ بند کر کے جوتے سیتا ہے لہٰذا آپ اسکی ایک آنکھ نکال لیں گے تو انصاف کا تقاضا بھی پورا ہو جائے گا اور اسکا کام بھی ہوتا رہے گا۔ یہ سن کر شہزادے نے موچی کو طلب کیا وہ آیا اور ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ شہزادے نے پوچھا کہ تم کونسی آنکھ جوتا سیتے وقت بند رکھتے ہو ، موچی جی حضور والا بائیں آنکھ۔ شہزادے نے جلاد کو حکم دیا ا س کی بائیں آنکھ نکال لی جائے  اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ داہنی آنکھ کو کوئی نقصان نہ پہنچے تا کہ خدانخواستہ کوئی یہ نہ کہے شہزادے نے انصاف کا تقاضا پورا نہیں کیا۔ جلاد آگے بڑھا اور ایک تیز دھار چاقو کو آنکھ میں ڈال کر موچی کی آنکھ نکال دی۔

اس طرح انصاف کا تقاضا پورا ہوا۔ کہنے کو تو یہ ایک کہانی ہے لیکن ہم شہزادے کے اس انصاف کی بازگشت کو دنیا کے منظر نامے پر دیکھ سکتے ہیں، جہاں ایک شہزادے کو بچانے کے لئے دنیا کی سب سے بظاہر بڑی طاقت نہ صرف ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے بلکہ  اسے جب بھی موقع ملتا ہے۔  اپنے بگڑے شہزادے کو بچانے کے لئے بات کا رخ دوسری طرف گھما دیتی ہے۔ چاہے وہ امریکی صدر ٹرمپ کی بات ہو یا امریکی حکومت کے دیگر اہلکاروں کی بات جو کہنے کو تو ظالم دنیا میں ایک پل نہیں جی سکتے، جنہیں ظلم دیکھ کر گھٹن کا احساس ہوتا ہے، سب کے سب دنیا میں انصاف چاہتے ہیں لیکن کونسا انصاف؟ وہی انصاف جو ایک دیوانے شہزادے نے بے چارے موچی کے ساتھ کیا، جبکہ چور سے یہ بھی سوال نہیں کیا کہ تم چوری کیوں کرتے ہو، سب سے پہلے تو تمہیں تمہاری چوری کی سزا دی ملنی چاہیئے تاکہ دوسروں کے مال پر تمہاری نظر نہ پڑے، اس لئے تمہارے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں گے کہ تم دوسروں کے مال پر ہاتھ صاف کرتے ہو لیکن یہ کیوں کر ہوتا؟ یہ سب ہو جاتا تو انصاف کہاں ہوتا انصاف تو تبھی ہوگا جب کسی بے گناہ کو پھنسایا جائے۔ اسی طرح آج جس نے اپنی سفاکیت و درندگی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اس سے سوال نہیں ہو رہا ہے کہ تم نے یمن کو تاراج کیوں کیا؟ تم نے بے گناہوں کو کیوں مارا ؟ بحرین میں تمہارا کیا کام ہے؟ اپنے ہی خاندان کے بے گناہوں کو اپنی ذاتی مخالفت کے شک میں تم نے کیوں کر قید کر رکھا ہے، ایک صحافی کی اپنے ہی سفارت خانے میں تم نے بوٹی بوٹی کیوں کر دی ؟ اور اسکی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے تیزاب میں تحلیل کر دیا (1) کہ کوئی ثبوت فراہم نہ ہو سکے؟ تم جرم کے بعد جرم کرتے رہے، ایک سے بدتر ایک جرم  تو اب سزا تو بھگتنا ہی ہوگی۔

افسوس ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے بلکہ سب کچھ سامنے آنے کے بعد بھی نہ صرف آنکھیں بند کر لی جاتی ہیں، بلکہ کسی کے کئے کی سزا کسی اور کو دی جاتی ہے، چنانچہ ابھی گذشتہ جمعہ کے دن ہونے والی پریس کانفرنس میں  امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع جیمز میٹس سے جب امریکی وزیر دفاع و کینڈین وزیر خارجہ و دفاع کی موجودگی میں جمال خاشقجی کے بارے میں سوال ہوا تو نہ صرف یہ کہ اسکا جواب دینے سے امریکی  وزیر خارجہ نے گریز کیا بلکہ بات کو دوسری طرف گھما کر ایران کو مورد الزام ٹہراتے ہوئے  کہا کہ ہم اپنی مقننہ کی جانب سے انجام پانے والے کاموں کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کانگریس کے اراکین سے ہم جڑے ہوئے ہیں اور مسلسل رابطے میں ہیں انکے خدشات، تحفظات اور انکی  پریشانیوں کو ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں، ہم اپنی پوری کوشش کریں گے کہ اپنی موجودہ اختیار کی گئی سیاست کو انکے سامنے واضح کر سکیں، امریکی وزیر خارجہ نے خاشقجی کے معاملہ پر اپنے صدر ٹرمپ کا دفاع کرتے ہوئے مزید کہا صدر جمہوریہ  ٹرمپ نے نہ صرف خاشقجی کے قتل کے سلسلہ میں جوابدہی پر گفتگو کی ہے بلکہ تمام امریکی باشندوں کے تحفظ و انکی امنیت کے بارے میں بات کی ہے سیکڑوں  ہزار لوگ جنہیں ایران نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور مشرق وسطٰی میں انکے قتل میں ان کا ہاتھ ہے ہم انکے بارے میں لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ (2) امریکی وزیر خارجہ نے خاشقجی کی طرف سے ذہن کو موڑتے ہوئے عجیب و غریب انداز میں مزید جو کہا وہ من و عن کچھ یوں ہے، "سینکڑوں ہزاروں لوگ ہیں جنہیں ایرانیوں نے مشرق وسطٰی بھر میں ہلاک کیا، یا ہلاکتوں میں ملوث کر دیا جو کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لئے حقیقی خطرہ ہے۔ آپ یاد رکھیں گے کہ ایرانیوں اور ان کے دھماکہ خیز مواد نے سینکڑوں امریکی فوجیوں کو ہلاک کر دیا، اور صدر ٹرمپ نے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ  کہ ہم اس وقت اپنا  دفاع کریں گے۔" (3) امریکہ کی جانب سے مسلسل بن سلمان کی حمایت ایسی حالت میں ہے کہ سی آئی اے نے واضح طور پر عیاں کر دیا کہ خاشقجی کے قتل میں بن سلمان کا ہاتھ تھا۔(4)

نیز خود امریکہ میں اب جگہ جگہ آوازیں بلند ہونے لگی ہیں، حتٰی امریکی سینیٹ میں دو قراردادیں بھی سعودی عرب کی مذمت میں منظور ہو چکی، جن میں سے ایک یمن میں جنگ بندی کے سلسلہ سے تو دوسری باب کوکر کی جانب سے محمد بن سلمان کی مذمت کے بارے میں، خبروں کے مطابق امریکہ کی سینیٹ نے یمن میں جاری سعودی عرب کی جنگ سے اپنی فوجیں واپس بلانے اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے لئے سعودی ولی عہد کو ذمہ دار ٹھہرانے کے حق میں ووٹ دیا ہے اتنا ہی نہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بعض رپبلکن ساتھی اراکین نے بھی ان کے خلاف جاتے ہوئے ڈیموکریٹس کے اس اقدام کی حمایت کی اور اسے 41 کے مقابلے میں 56 ووٹ حاصل ہوئے۔(5) محمد بن سلمان کے جرم کے بارے میں جہاں سینیٹر بوب بیننڈز نے کہا کہ امریکہ کو سعودی عرب کو واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے اقدامات دنیا کے لئے ناقابل قبول ہیں، وہیں رپبلکن سینیٹر باب کروکر کا کہنا تھا، اگر سعودی شہزادی کسی عدالت کے سامنے پیش ہوں تو میرے خیال میں انہیں 30 منٹ میں سزا ہو جائے گی۔(6) اسی طرح سینیٹر لنڈزی گراہم نے کہا کہ وہ پریقین ہیں کہ محمد بن سلمان اس قتل میں ملوث تھے، سینٹر لنڈزی ہی کی طرح جنوبی کیرولینا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نے سعودی شاہوں کے بارے میں کہا کہ وہ ایک پاگل پن اور خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔(7) غرضیکہ جہاں ایک طرف امریکہ میں ٹرمپ کی موجودہ پالیسیوں خاص کر خارجہ پالیسی پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں، وہیں وائٹ ہاؤس حکام بار بار اس بات پر زور دے رہے  ہیں کہ امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ معاشی تعلقات ہیں، جنہیں خراب نہیں کیا جا سکتا۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر اور داماد جیرڈ کشنر کے محمد بن سلمان کے ساتھ تعلقات مسلسل گرم ہوتے چلے جا رہے ہیں، ان بڑھتے ہوئے تعلقات میں کیونکر کوئی رکاوٹ ڈال سکتا ہے، جبکہ یہ دونوں ہی افراد وہ ہیں جو یہودی لابیوں کی آنکھوں کا تارا ہیں، اور انکے منصوبے پر اپنے تئیں پوری طرح ایمانداری کے ساتھ عمل کر رہے ہیں۔ ایسے میں امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے ایران کو مورد الزام ٹہرایا جانا کوئی عجیب بات نہیں ہے، کیونکہ دنیا میں خاشقجی کے قتل کو لیکر انصاف کی آواز تو مسلسل اٹھ رہی ہے، اب انصاف تو ہونا ہی ہے یہ اور بات ہے کہ موجودہ مجرم اور چور اپنے تعلقات کی دہائی دے کر یہ باور کرا دیں کہ دنیا میں قتل و غارتگری کے لئے مجھے دونوں آنکھوں کی ضرورت ہے، سو ایسے میں موچی کے ساتھ انصاف والی کہانی ہی دہرائی جا سکتی ہے لیکن یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ چور اور شہزادے کی تطبیق تو ہو رہی ہے لیکن موچی والا معاملہ صادق نہیں آ رہا ہے کیونکہ  موچی تو سر جھکائے ظلم کو بنام انصاف سہہ گیا، لیکن جسے آج مجرم ٹہرایا جا رہا ہے اس ملک کی ۴۰ سالہ تاریخ پکار کر آواز دے رہی ہے کہ ہم موچی طرز انصاف کو نہ قبول کرتے ہیں اور نہ اس کاروائی کو انجام دینے والے کو چھوڑ سکتے ہیں، دم ہو تو آگے بڑھو تم ایک آنکھ نکالنے کی کوشش کرو گے  تو تمہاری آنکھوں کے دونوں ہی دیدے نکلے نظر آئیں گے اور تمہارے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا، اتنا کہ تمہیں اپنا ہی وائٹ ہاؤس بلیک نظر آئے گا اور پھر وائٹ ہاؤس ہی نہیں دنیا کی ہر چیز کالی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
1۔ https://www.bbc.com/news/world-middle-east-46070087
2۔ https://www.state.gov/secretary/remarks/2018/12/288109.htm
3۔ https://www.farsnews.com/news/13970923000748/-
4۔ https://www.state.gov/secretary/remarks/2018/12/288109.htm 5۔https://www.washingtonpost.com/world/national-security/cia-concludes-  saudi-crown-prince-ordered-jamal-khashoggis-assassination/2018/11/16/98c89fe6-e9b2-11e8-a939-9469f1166f9d_story.html?noredirect=on&utm_term=.3b44373bc07c۔
https://www.theguardian.com/us-news/2018/nov/25/democrats-accuse-trump-lying-cia-jamal-khashoggi-mohammed-bin-salman
6۔ https://www.bbc.com/urdu/world-46562169   
7۔ Senate Foreign Relations Committee Chairman Bob Corker
https://www.usatoday.com/story/news/world/2018/11/23/jamal-khashoggi-congress-donald trump-saudi-arabia/2091709002/
خبر کا کوڈ : 767244
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش