0
Tuesday 18 Dec 2018 09:28

یمن میں امن کی چابی

یمن میں امن کی چابی
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

یمن پچھلے چار سال سے سعودی جارحیت کا شکار ہے۔ ناتجربہ کار سعودی ولی محمد بن سلمان نے خطے میں اپنی طاقت کے اظہار کے لئے یمن پر حملہ کیا، جس کا ظاہراً بہانہ ہادی حکومت کا عوام کے ہاتھوں تختہ الٹے جانا بتایا۔ یمن میں حکومت کس کی ہوگی؟ ان کی خارجہ پالیسی کیا  ہوگی؟ وہ کس ملک سے تعلقات کو بہتر بنانا چاہیں گے؟ کون ان کا دوست اور کون ان کا دشمن ہوگا؟ یہ سب کرنے کا اختیار فقط اور فقط یمنی عوام کو حاصل ہے۔ خطے میں موجود کسی ملک کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی پسند و نا پسند کو اہل یمن پر مسلط کرے۔ مفکرین کہتے ہیں کہ طاقت ایک نشہ ہے، جب کسی نااہل کے ہاتھ میں آتی ہے تو وہ حماقتیں کرتا ہے۔ بندر کی مثال دی جاتی ہے کہ جب اس کے ہاتھ میں چھری تھما دی جائے گی تو  اپنے مالک کو نقصان پہنچائے گا یا اپنی ہی ناک کاٹ ڈالے گا۔ سعودی عرب نے یمن پر حملہ کیا اور غریب عرب اسلامی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے لگا تو بہت سے  مفکرین نے لکھا تھا کہ جلدی
میں کیا گیا حملہ یمن میں تو تباہی لائے گا ہی، لیکن سعودیہ کی بھی بنیادیں ہلا دے گا۔ جیسے کسی زمانے میں مصر نے طاقت کے گھمنڈ آکر یمن پر حملہ کیا تھا، مگر تاریخ بتاتی ہے اہل یمن نے مصری فوج کی وہ درگت بنائی کہ اس کے بعد کبھی مصری فوج کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ دوبارہ یمن پر حملے کا سوچے بھی سہی۔

مسلسل بمباری، سمندری اور فضائی ناکہ بندی نے یمن کو انسانی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ رہی سہی کسر قحط اور ہیضہ کی وبا نے نکال دی ہے، اہل یمن شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ آئے دن بیسیوں بچوں کے شہید ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔ بات بات پر اسلام خطرے میں ہے، کا نعرہ لگانے والوں کو یمن کے اہل اسلام کی یہ مشکلات نظر نہیں آتیں، نہ مظاہرے کئے جاتے ہیں اور نہ ہی کوئی احتجاجی تحریک برپا کی جاتی ہے۔ اسلام اور مذہب کو استعمال کرتے ہوئے دوسروں کے مفادات کی حفاظت کرنے والے یمن کے اہل ایمان کے تڑپتے زخمیوں اور ایڑیاں رگڑتے مریضوں پر  ترس کھانے کے لئے تیار نہیں ہیں، بلکہ
جب بھی ان کے سامنے اہل یمن کی بات کی جاتی ہے تو موضوع ہی بدل دیتے ہیں یا دوسروں کی طرف انگلیاں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں۔ بھائی سادہ سی بات ہی صنعا کے ہسپتالوں، بازاروں اور مسجدوں پر  حملے کرنے والے جہاز جہاں سے اڑ رہے ہیں، وہی اس قتل عام کے ذمہ دار ہیں، جن لوگوں نے بری، بحری اور فضائی ناکہ بندی کر رکھی ہے، وہی قحط کو جنم دے رہے ہیں۔

ہر مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ہوتا ہے، پچھلی صدی میں دو جنگ ہائے عظیم روئے زمین پر برپا کی گئی ہیں۔ کروڑوں انسانوں کو کٹوانے، لاکھوں شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کرانے اور انسانی تاریخ کے بڑے بڑے قحط جنم دینے کے بعد یہ جنگیں بھی مذاکرات کی میز پر ہی ختم ہوئیں۔ طاقت کے نشے میں یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ یہ حوثی کیا کر لیں گے؟ ان کے پاس نہ ڈھنگ کا لباس ہے، نہ لڑنے کے لئے تجربہ ہے، جدید اسلحہ تو انہوں نے خوابوں میں بھی نہیں دیکھا، یہ چند دنوں میں مٹی کا ڈھیر ثابت ہوں گے۔ دنیا نے دیکھا جن کا عرب سائٹس پر مذاق اڑایا جا رہا
تھا، جن پر جملے کسے جا رہے تھے، آج درجنوں ممالک جمع کر لینے کے بعد بھی اہل یمن وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔

نام نہاد آزاد عرب میڈیا بھی کئی بار حدیدہ کے فتح کی خبریں نشر کرچکا ہے اور جنگ کے حمایتی اور حواری رات کو جشن فتح منا کر سوئے اور صبح کو ٹی وی پر یہ مناظر دیکھ کر ان کی رات کی دعوت غارت ہوگئی کہ چپلیں پہنے، رواتی لباس میں اہل یمن پوری قوت سے حدیدہ میں موجود ہیں اور حملہ آوار قوتیں اپنا سامان چھوڑ کر بھاگ رہی ہیں۔ کافی عرصے سے جنگ رکوانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، اہل یمن اس جنگ سے نجات چاہتے ہیں اور ہر صورت چاہتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جنگ نے یمن کے سکول، ہسپتال، سڑکیں غرض ہر طرح کے انفراسٹکچر کو  ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور پوری ایک نسل تعلیم سے محروم رہ جانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

دوسری طرف سعودی شہزادہ جمال خاشقجی کے مسئلہ پر دنیا میں تنہائی کا شکار ہے، جس تیزی سے دنیا میں شہرت ملی تھی، لگ یوں رہا ہے کہ اسی تیزی سے تنزلی کی
طرف جا رہا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوں؟ یمن کے مظلوم مسلمانوں کی آہ و بکا نے بھی اپنا اثر ادکھانا ہے۔ سویڈن میں حوثیوں اور حملہ آور قوتوں کے درمیان مذاکرات ہوئے ہیں۔ ان مذاکرات میں یہ طے پایا کہ حدیدہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کر دی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں بڑی پیمانے پر انسانی امداد حدیدہ کے ذریعے یمن پہنچ سکے گی اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں اس جاری بحران سے نمٹا جائے گا۔ اس معاہدہ کا تمام  فریقوں نے خیر مقدم کیا، سعودیہ، امریکہ سمیت حوثیوں اور ایران کی طرف سے بھی اسے ایک مثبت قدم قرار دیا گیا۔ کوئی بھی جاری تنازعہ جس میں ہزاروں لوگوں کا خون بہہ چکا ہو، جس میں حملہ آور کی انا داخل ہو، اسے بند ہونے میں وقت لگے گا۔ ایک اہم بات جس کا خدشہ ہے کہ یہ چال ثابت ہو اور وہ شہر جسے کئی بار کے حملوں سے حاصل نہیں کیا جا سکا، وہ ایک چال کے ذریعے  حاصل کر لیا جائے۔

یمن میں امن کی چابی سعودی عرب کے ہاتھ میں ہے، وہ جب چاہے امن ہوسکتا ہے، وہ یمن پر اپنے
حملوں کو فوری طور پر بند کر دے، اس کے نتیجے میں یمن میں جاری  قتل عام رک جائے گا، بری، بحری اور فضائی ناکہ بندی ختم کر دی جائے، اس کے نتیجے میں وہاں جاری قحط ختم ہو جائے گا اور یمن کے معاملات میں مداخلت بند کر دے، اسے اپنا  صوبہ سمجھنے کی بجائے ایک برادر اسلامی ملک سمجھا جائے۔ حوثی یمن کی ایک حقیقت ہیں، وہ عرب کے دلیر ترین لوگ ہیں، عزت و غیرت کے لئے وہ ہر وقت جان قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں، حملہ آور قوتیں بارہا اس کا مشاہدہ کر چکیں ہیں، اس لئے ان کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ بات کریں۔ آسمان سے اتر کر زمین پر آئیں، آپ عملی طور پر جنگ ہار چکے ہیں۔ یمن کی جنگ نے جہاں آپ کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگائے ہیں، وہیں لاکھوں بے گناہوں کا خون بھی آپ کے سر ہے، اس لئے ان سے معافی مانگتے ہوئے ان کے  نقصانات کا ازالہ کریں، امن کی چابی یہی ہے، ورنہ یمن کے مظلوموں کا خون یوں ہی بہتا رہے گا اور اس کا ردعمل آپ کا سکون بھی غارت کرتا رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 767360
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش