0
Wednesday 19 Dec 2018 11:52

تعلیم و تربیت اور ہمارا مستقبل

تعلیم و تربیت اور ہمارا مستقبل
تحریر: نذر حافی

ہم نے گذشتہ کالم میں امریکی و مغربی نظامِ تعلیم کے نتیجے میں دنیا میں ہونے والے مظالم کی نشاندہی کی تھی، ہم نے عرض کیا تھا کہ پرانے عہد میں جھانکنے کے بجائے اپنے دور میں ہی امریکی و مغربی سوچ، سماج اور نظام تعلیم کو سمجھنے کی کوشش کیجئے، اس مناسبت سے ہم نے 16 ستمبر 2001ء کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی وائٹ ہاوس میں کی جانے والی اس تقریر کا حوالہ بھی دیا تھا، جس میں انہوں نے صلیبی جنگ (crusade) کا لفظ بھی استعمال کیا تھا۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ امریکی و مغربی جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تو صرف اس کی حکومت کو ختم نہیں کرتے بلکہ اس کی ملت کو بھی تباہ کرتے ہیں اور ملتوں کی تباہی کے لئے فرقہ واریت، باہمی نفرت، علاقائی تعصب  فحش فلموں، اخلاقی فساد، جنسی بے راہروی، کلاشنکوف کلچر، اغوا برائے تاوان، اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ نیز منشیات تک کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے لئے ہم نے کشمیر، فلسطین، ہیروشیما، ناگا ساکی، فلوجہ، بوسنیا وغیرہ کی مثالیں بھی پیش کی تھیں۔

ہمارا مدعا یہ تھا کہ جب تعلیم کا مقصد پیسے کمانا اور مفاد حاصل کرنا ہو تو انسان جتنا تعلیم یافتہ ہوتا جاتا ہے، اسی قدر دوسرے انسانوں کے لئے مہلک اور خطرناک ہو جاتا ہے۔ حتی کہ ایک انسان علم حاصل کرکے ڈاکٹر بنتا ہے اور ڈاکٹر بننے کے بعد پیسے اور مفاد کی خاطر  ایک مریض کو بے ہوش کرکے اس کا گردہ نکال کر بیچ دیتا ہے، یا مریض کے دل میں جعلی سٹنٹ ڈالتا ہے، یہ دراصل اس کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے۔ اس تعلیم و تربیت نے اسے پڑھنا لکھنا تو سکھا دیا، اسے جدید ٹیکنالوجی سے بھی لیس کر دیا، لیکن اس کے اندر کی انسانیت اور انسانی شعور کو کچل دیا۔ یہ واقعات ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اور مورخ وہ ہے جو واقعات کو انتہائی سادگی سے بیان کرنے میں کامیاب ہو جائے، جبکہ تجزیہ کار وہ ہے، جو ان سادہ سے واقعات کی کڑیاں منطقی طور پر آپس میں ملا کر استدلال کرتا ہے اور کسی نتیجے تک پہنچتا ہے۔ ہمارے دور کا مورخ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ ہم نے بخوشی اپنی نئی  نسل کو امریکی و مغربی نظامِ تعلیم اور معاشرے کی گود میں ڈال دیا ہے۔

یہاں سے ایک تجزیہ کار باآسانی یہ تجزیہ کرسکتا ہے کہ افراد اور معاشرہ باہم لازم و ملزوم ہیں، اگر کہیں پر افراد غریب ہونگے تو وہاں کا معاشرہ بھی غریب ہوگا، اگر افراد ان پڑھ ہونگے تو معاشرہ بھی ان پڑھ ہوگا، اگر افراد امریکی و مغربی تعلیم و تربیت کے عاشق و دلدادہ ہونگے تو وہ معاشرہ بھی امریکی و مغربی تعلیم و تربیت کا عاشق اور دلدادہ ہوگا۔ یاد رہے کہ انسان کی تعلیم و تربیت میں دو چیزیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں ایک زبان اور دوسرا ماحول۔ ہمارے معاشرے کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ ان کے بچوں کو انگلش زبان و ماحول میں تعلیم ملے، تاکہ کل کو وہ اچھی ڈگری، خوب درآمد اور بے تحاشا منافع کما سکیں۔ اس زبان اور ماحول کا ایک چھوٹا سا نتیجہ مالی کرپشن کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں لڑکیوں کی وضع قطع جیسے لڑکے اور لڑکوں کی چال ڈھال جیسی لڑکیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں، ساتھ ساتھ فحاشی، بے حیائی اور جنسی بےراہروی بھی عام ہوتی جا رہی ہے۔

خوب درآمد اور کمائی کی ہوس کا سلسلہ ہمارے سکولوں سے شروع ہوتا ہے اور تھانے و کچہریوں سے ہوتا ہوا منی لانڈرنگ اور طرح طرح کی لوٹ مار کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں رہنے والے افراد اپنے معاشرے کو کسی بھی دوسرے معاشرے سے قریب یا نزدیک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج ہمارے معاشرے نے اپنا سارا زور امریکی و مغربی معاشرے سے نزدیک ہونے اور عہد نبوی ﷺ نیز سلف صالحین سے دور ہونے میں لگا رکھا ہے۔ ہم تعلیم و تربیت کے لحاظ سے جس قدر عہد نبویﷺ سے دور ہوتے جا رہے ہیں، اسی قدر امریکی و مغربی دنیا کے بچھائے ہوئے جال میں  پھنستے جا رہے ہیں اور پھر ساتھ ساتھ یہ شکوہ بھی کر رہے ہیں کہ برق گرتی ہے تو بےچارے مسلمانوں پر۔ جب مسلمانوں نے اپنی تعلیم و تربیت کا مقصد اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے قرب اور رضا کے بجائے کفار کی طرح مال و دولت کی جمع آوری بنا لیا ہے تو پھر برق تو گرنی ہی ہے۔ اگر تعلیم و تربیت کا مقصد روزگار کا حصول اور آمدن میں اضافہ ہو تو اس کی خاطر دی جانے والی تعلیم اس تعلیم سے قطعاً مختلف ہوگی، جس کا مقصد روزگار اور آمدن کے حصول کے بجائے روزگار اور آمدن کے ذریعے خدا کو  خوش کرنا ہے۔

اسلامی نظام تعلیم سے مراد ایک ایسا نظامِ تعلیم ہے، جو دنیاوی اسباب کو استعمال کرکے انسان کو  قربِ الٰہی حاصل کرنا سکھاتا ہے۔ دنیاوی اسباب سے ہمای مراد تمام مادی وسائل، قدیم و جدید علوم اور ماڈرن ٹیکنالوجی ہے۔ ہمارے نزدیک تعلیم، تعلیمی سند یا تعلیمی ادارہ خود کوئی مقصد نہیں ہے بلکہ ایک مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ یہ اصل میں دو طرح کے نظام تعلیم و تربیت کا فرق ہے کہ جہاں ایک طرف تو ایک پڑھا لکھا، ڈگری ہولڈر، تعلیم یافتہ، سند یافتہ اور ماہر ڈاکٹر اپنی آمدن کی خاطر ایک مریض کو بے ہوش کرکے، اس کا گردہ نکال کر بیچ دیتا ہے اور دوسری طرف ایک آدمی اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنا گردہ کسی مرتے ہوئے آدمی کو دے کر اس کی جان بچا لیتا ہے۔ جب نظامِ تعلیم و تربیت تبدیل ہو جاتاہے تو تربیت پانے والوں کے اہداف  بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کیا آج ہم نہیں دیکھتے کہ ہمارے دور کا طالبعلم اور مسلمان اسلامی مسائل اور اسلامی دنیا کے حالات سے یا تو لاتعلق نظر آتا ہے اور یا پھر شدت پسند بن کر ابھرتا ہے۔ یہ دونوں طرح کے طالبعلم غلط نظام تعلیم و تربیت کے پروردہ ہیں۔

ہمیں بحیثیت مسلمان کسی بھی نظام تعلیم و تربیت پر اعتماد کرنے سے پہلے اس نظام کے اختراع کرنے والے فرد یا گروہ کو قریب سے دیکھنا چاہیے کہ یہ لوگ خود علم التعلیم اور دینی و جدید علوم  کے لحاظ سے کتنے ماہر اور تجربہ کار ہیں اور انہوں نے خود کس زبان، ماحول اور معاشرے میں تعلیم حاصل کی ہے!؟ جنہیں خود علم التعلیم سے آگاہی نہیں، یا جدید تعلیم سے آشنائی نہیں اور یا دینی تعلیم سے نابلد ہیں اور یا پھر دوسری طرف مکمل انگلش زبان و ماحول کے رسیا ہیں، اپنی نئی نسل کو ایسے لوگوں کے سپرد کرنے کا نتیجہ یہی افراط و تفریط کی صورت میں نکلنا ہے، جو آج ہمارے سامنےہے۔ ہمارے مسائل کا حل ایک ایسے نظامِ تعلیم میں ہے، جس کے اختراع کرنے والے علم التعلیم، جدید علوم اور دینی تعلیم یعنی ان تینوں چیزوں میں ماہر ہوں اور ان کا مقصد مال و زر بٹورنے کے بجائے قربِ خداوندی، انسانیت کی خدمت، مظلومین کی حمایت اور دوسروں کے ساتھ رواداری ہو۔ جس دن ہم نے اپنے معاشرے کو امریکی و مغربی نطام تعلیم کے متبادل کے طور پر حقیقی معنوں میں مدنی و نبوی ﷺ نظام تعلیم و تربیت دے دیا اس روز کشمیر سے لے کر فلسطین تک ہمارے مسائل کی گرہیں کھلنی شروع ہو جائیں گی۔ قوموں کا مستقبل ان کے جوان سنوارتے ہیں، اگر ہم نے اپنے جوانوں کو امریکہ و مغرب کی آغوش سے نکال کر اسلام کی آغوش میں جدید تعلیم و تربیت دینے کا انتظام کر لیا تو پھر یہیں سے ہمارا مستقبل سنورنا شروع ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 767532
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش