0
Wednesday 19 Dec 2018 17:40

چین میں مسلمانوں کی ری ایجوکیشن، پاکستان توجہ دے

چین میں مسلمانوں کی ری ایجوکیشن، پاکستان توجہ دے
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

چین میں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے، جو مقامی ثقاٖفت اور اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گذار رہے ہیں۔ چین میں سوشلزم نافذ ہے، اسوقت چین میں ایک بے خدا نظام رائج ہے، معاشی اور تیکنیکی اعتبار سے ترقی کی منزلیں طے کرتے چینی معاشرے میں حقیقی ترین سچائی یعنی مذہب بالخصوص اسلام کے مطابق زندگی گذارنے والوں کو سخت دباؤ اور پابندیوں کا سامنا ہے۔ دنیا امریکی سرپرستی میں مذہب کے نام پر ہونیوالی دہشت گردی کی وجہ سے دنیا کی توجہ چین میں رہنے والے مسلمانوں کی جانب بہت کم ہے۔ مقامی مسلمانوں کے مطابق بظاہر بے ضرر نظر آنے والی چیزیں مثلاً 5 وقت کی نماز پڑھنا، غیر ملکی ویب سائٹ کا وزٹ کرنا یا بیرونِ ملک سے موصول ہونے والی رشتہ داروں کی کالز پر سزا کے طور پر کیمپ میں بھیجا جاتا ہے۔

چینی حکام انہیں اسکول کہتے ہیں لیکن وہ قید خانے ہیں، جہاں جانے والے نکل نہیں سکتے، بھاری چینی سرمایہ کاری سے ہاتھ دھونے کے خطرے اور سیاسی اور اقتصادی معاملات کی وجہ سے پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک، چین میں مسلمانوں کی حالتِ زار کے بارے میں خاموش ہیں، کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں ہمیشہ سرد اور ٹھوس مفادات کو مد نظر رکھا جاتا ہے، اسی طرح مسلم دنیا کا چین کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر خاموشی کی وجہ اگلی سپر پاور سے اپنے قریبی تعلقات استوار رکھنا ہوسکتا ہے۔ لیکن اللہ کے حضور مسلمان حکمران، آواز اٹھانے والے ادارے اور جماعتیں جوابدہ ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے چیئرمین مشاہد حسین کہتے ہیں کہ پاکستان اور چین کے گہرے تعلقات کا بنیادی اصول دونوں ممالک کو ان کے ذاتی معاملات پر تبصرہ کرنے سے روکتا ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور خاص کر مسلم دنیا میں، چینی موقف کو بلا چوں چراں تسلیم کرلیا جاتا ہے، جیسے وہی ٹھیک ہے۔

حالیہ مہینوں میں پاکستانی مردوں کی بڑی تعداد نے اپنی بیویوں کی رہائی کے سلسلے میں آواز اٹھانے کے لیے بیجنگ کا رخ کیا، جن میں سے کچھ کا کہنا تھا کہ انہوں نے متعدد مرتبہ اس سلسلے میں چین میں تعینات پاکستانی سفیر مسعود خالد سے ملاقات بھی کی اور انہیں چینی حکام کے سامنے اپنے مسائل پیش کرنے کا بھی کہا۔ اسوقت دو ایسے پاکستانیوں کی کہانی انگریزی اور اردو جرائد اور اخبارات میں زیرگردش ہے، جنہوں نے چین میں شادیاں کر رکھی ہیں اور انکی بیوی بچوں کو چین میں اسلام پر رہتے ہوئے زندگی گذارنے میں شدید رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔ پاکستانی تاجر چوہدری جاوید عطا اور 25 سال قبل مزدوری کیلئے چین جانے والے میر امان کی مشکلات مغربی میڈیا میں زیحث ہیں، جہاں بالخصوص امریکی میڈیا چین کیخلاف پروپیگنڈہ اسے ہتھیار کے طور پر استعمال بھی کر رہا ہے۔

چوہدری جاوید عطا کہتے ہیں کہ انہوں نے آخری مرتبہ اپنی چینی اہلیہ کو اس وقت دیکھا تھا جب ایک سال قبل وہ چین کے شمال مغربی حصے سنکیانگ سے اپنے ویزے کی تجدید کروانے اور آبائی وطن پاکستان واپس آنے کے لیے اپنے گھر سے نکلے تھے۔ آخری ملاقات میں انکی چینی مسلمان زوجہ نے کہا تھا کہ جب آپ یہاں سے چلیں جائیں گے تو یہ لوگ مجھے کیمپ میں لے جائیں گے اور پھر میں واپس نہیں آؤں گی۔ یہ اگست 2017ء کی بات تھی، جب جاوید عطا کی چین کے صوبے سنکیانگ کی رہائشی اور یوغور مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والی آمنہ مناجی سے ان کی شادی کو 14 برس بیت چکے تھے۔ جاوید عطا ان سیکڑوں پاکستانیوں میں سے ہیں، جن کی شریک حیات کو غائب کردیا گیا، ان کے مطابق ایسے پاکستانیوں کی تعداد 200 ہے اور انہیں ایسے کیمپوں میں لے جایا گیا ہے جنہیں چینی حکومت تعلیمی کیمپ کہتی ہے۔

جاوید عطا کے لیے یہ صرف ان کی اہلیہ سے علیحدگی نہیں، بلکہ انہوں نے 5 اور 7 سال کے اپنے 2 بیٹوں کو بھی چھوڑا تھا جن کے پاسپورٹ چینی حکومت نے ضبط کرلیے تھے اور اب وہ ان کی اہلیہ کے خاندان کی سرپرستی میں ہیں، ورنہ حکام انہیں یتیم خانوں میں ڈال دیتے۔ بعد ازاں جاوید عطا 2 مرتبہ کچھ ماہ کے لیے چین گئے، لیکن ویزے کی میعاد ختم ہونے کے باعث انہیں واپس آنا پڑا، اب سنکیانگ میں موجود اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرنا، ان کے لیے انتہائی پیچیدہ عمل ہے، جو وہاں موجود پاکستانیوں کی مدد سے ممکن ہوپاتا ہے۔ اپنے بچوں کے بارے میں پریشان جاوید عطا کا کہنا ہے کہ اب 8 سے 9 ماہ ہونے والے ہیں میں نے انہیں نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے بات ہوسکی ہے، البتہ گزشتہ ہفتے ان کے دوست نے ان کے برادرِ نسبتی سے بات کروائی، جنہوں نے بتایا تھا کہ ان کے بچے خیریت سے ہیں لیکن ان کی اہلیہ کا کچھ پتہ نہیں۔

ان ہی حالات کی وجہ سے چین پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنی مسلمان آبادی کے لاکھوں افراد کو نظر بند کرچکی ہے تاکہ انہیں دوبارہ تعلیم دے کر ان کے عقائد سے دور کیا جاسکے، یہ اقدام اشتعال انگیز حملوں اور فسادات کے ردِ عمل کے طور پر سامنے آیا جس کا الزام حکومت کی جانب سے علیحدگی پسندوں پر لگایا جاتا رہا ہے۔ چین کا یوغور مسلمانوں کے حوالے سے کہنا ہے کہ ان کی پالیسی کا مقصد سنکیانگ میں استحکام اور پائیدار امن کا قیام ہے اور چینی صدر زی جِن پنگ کی جانب سے شورش کا شکار خطے کو مغلوب کرنے کے اقدامات جیسے لاکھوں یوغور مسلمانوں کو نظر بند کرنے کے اقدام کو یو این او اور امریکہ بالخصوص اشتعال پھیلانے کیلیے استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستانی شہری میر امان کی کہانی سنگین پابندیوں کی نشاندہی کرتی ہے،جو 25 سال قبل مزدور کی حیثیت سے کام ڈھونڈنے چین گئے، وہاں ان کی ملاقات مہربان گل سے ہوئی۔ دونوں نے شادی کی اور جوڑے نے سخت محنت کر کے وہاں ایک ہوٹل بھی خریدا، ان کی 2 بیٹیاں 16 سالہ شہناز اور 12 سالہ شکیلہ ہیں، جو والد کے ساتھ پاکستان میں رہتی ہیں۔

گزشتہ برس میر امان نے اکیلے چین جانے کی کوشش کی لیکن حکام نے اہلیہ کے بغیر اکیلے سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دی، جس کی وجہ سے وہ دونوں اکھٹے سنکیانگ پہنچے، وہاں پہنچنے پر ان کی اہلیہ کو روزانہ پولیس تھانے آنے کا حکم دیا گیا جہاں انہیں کمیونسٹ پارٹی کی کتابیں پڑھنے کے لیے دی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ اردو میں لکھی ہوئی کوئی چیز دیکھتے یا مذہب سے متعلق کوئی شے مثلاً جائے نماز وغیرہ تو اسے ضبط کرلیتے، بعدازاں کچھ ہفتوں بعد میر امان کو چین سے واپس جانے کا حکم دے دیا گیا جبکہ ان کے پاس 6 ماہ کا ویزا تھا، ان سے کہا گیا کہ وہ ایک ماہ بعد واپس آسکتے ہیں لیکن جب ایک ماہ بعد وہ واپس چین پہنچے تو ان کی اہلیہ غائب تھیں۔ 4 ماہ تک وہ پولیس کے پیچھے پڑے رہے اور سب کے سامنے خودکشی کی دھمکی بھی دی جس کے بعد انہیں ان کی اہلیہ کو دیکھنے کی اجازت دے دی گئی جنہیں ایک مقامی پولیس اسٹیشن میں صرف ایک گھنٹے کے لیے لایا گیا۔ ملاقات کے بعد میر امان سے کہا گیا کہ وہ انتظامیہ کے لیے مسائل پیدا نہ کریں اور پاکستان چلے جائیں اور اب وہ نہیں جانتے کہ ان کی اہلیہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔

چینی حکام نے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے مسلمان آبادی پر نومولود بچوں کے محمد، جہاد، مجاھد اور عرفات سمیت کئی دوسرے ناموں پر پابندی عاید کر دی ہے۔ اگرچہ حکام کی طرف سے اس کی کوئی ٹھوس وضاحت نہیں کی گئی۔ یغور نسل کے مسلمانوں کی نمائندہ بین انٹرنیشنل کانگریس کا کہنا ہے کہ چینی سرکاری کی پالیسی مخالفت کی تمام حدیں پار کر چکی ہے۔ یہ یغور انٹرنیشنل کانگریس کی رپورٹ ہے، جنکا صدر دفتر میونخ میں قائم ہے اور یہ تنظیم مشرقی ترکستان کی چین سے علاحدگی کے لیے سرگرم عمل ہے۔ قبل ازیں یہ اطلاعات بھی آئی تھیں کہ چینی حکومت نے یغور نسل کے مسلمانوں کے خلاف سخت اقدامات کیے تھے جن میں روزہ رکھنے پر پاپندی اور بسوں میں حجاب اوڑھنے پر پابندی عاید کر دی گئی تھی۔

امریکی جریدے کی رپورٹ کے مطابق سنکیانگ صوبے کی مسلمان آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے، مگر دوسرے اعداد وشمار نیویارک ٹائمز کے دعوے کے برعکس ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ مشتری ترکستان میں 25 ملین افراد آباد ہیں۔ یہ سب مسلمان اکثریت ہیں اور ان کے پڑوسی علاقوں میں قزاقستان، کرغیزستان اور ازبکستان ہیں۔ نسلی اعتبار سے یہاں بسنے والے زیادہ تر ازبک قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ چینی حکومت کا خیال ہے کہ مشرقی ترکستان میں یغور نسل کے لوگوں کی شناخت مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ گذشتہ طویل عرصے سے یہ صوبہ شورش کا شکار رہا ہے۔ اس کے دو بڑے شہروں کاشغر اور اورمچی میں بڑے بڑے اور پر تشدد مظاہرے ہوچکے ہیں، جب کہ چین کا کہنا ہے کہ یہاں بسنے والے مسلمان علیحدگی کے لیے تحریک کی آڑ میں دہشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ايک اندازے کے مطابق ايسے افراد کی تعداد ايک ملين سے زائد ہے، جنہیں ان جبری کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ پاکستانی وزیر برائے مذہبی امور نے چینی سفیر سے اس معاملے پر بات کی ہے، لیکن زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے، پاکستانیوں کی بڑی تعداد اب چین کا رخ کریگی اور چینی پاکستان آئیں گے، مغربی ممالک کو دونوں ملکوں کے تعلقات خراب کرنے کا کوئی بہانہ ہاتھ نہیں آنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 767580
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش