0
Wednesday 19 Dec 2018 15:32

اسلام، حُسن معاشترت کا کامل نظام

اسلام، حُسن معاشترت کا کامل نظام
تحریر: فداحسین بالہامی
Email:fidahussain007@gmail.com

اسلامی معاشرے کا تصور اس قدر جامع اور ہمہ جہت ہے کہ جس میں انسان کی تمام مادی اور معنوی ضرورتوں کا بدرجہ اتم خیال رکھا گیا ہے۔ بالفاظِ دیگر اسلام ایک ایسے مثالی معاشرے کا تصور پیش کرتا ہے کہ جو ایک انسان کے لئے ہر لحاظ سے فائدہ بخش ہو۔ دیگر ادیان کے ساتھ دین اسلام کا تقابلی جائزہ کیا جائے تو اسلام کا اجتماعی پہلو اور بھی زیادہ روشن و تابناک دکھائی دیتا ہے، معتدد ایسے ادیان جن کے ماننے والوں کی اچھی خاصی تعداد اس وقت دنیا میں موجود ہے، انسان کے معنوی اور انفرادی پہلو کی کسی حد تک تو تشفی کرتے ہیں مگر ان مذاہب میں اجتماعیت کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ملتا ہے، گویا وہاں مذہب ایک ذاتی اور انفرادی چیز ہے۔ ممکن ہے کہ بعض مذاہب فلسفی، نظریاتی، معنوی اعتبار سے کافی مالا مال دکھائی دیں مگر ان میں معاشرتی پہلو کا فقدان صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ اسلام چونکہ دین اعتدال ہے، اس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں کا خیال رکھا گیا ہے بلکہ ان دو پہلوؤں کے مابین بھی ایک خوبصورت توازن پایا جاتا ہے۔ اگر ہم جدید مکتب ہائے فکر کو بھی اسلام کے روبرو کریں تو ان میں بھی بیشتر مکتب ہائے فکر افراط و تفریط سے دوچار نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر شوشلزم (اشتراکیت) اور کیپٹلزم (سرمایہ دارانہ نظام) کو ہی لیجئے، ان میں سے اول الذکر مکتب انسان کی انفرادی حیثیت کو کلی طور پر نظر انداز کرتا ہے جبکہ ثانی الذکر مکتبۂ فکر معاشرے کی فلاح و بہبود کی بجائے تمام تر توانائی ایک فرد کی ضروریات اور حیثیت پر صرف کرتا ہے۔

مگر اسلام اس افراط و تفریط سے مبراء ایک ایسا الٰہی دین ہے کہ جسے بجا طور پر دینِ وسط یا متوازن مذہب کہا جا سکتا ہے۔ جہاں تعمیرِ شخصیت اور تذکیۂ نفس کی تاکید ہے وہاں اصلاحِ معاشرہ کی بھی ذمہ داری ایک فرد کو سونپی گئی ہے۔ ایک جانب حُبِ ذات (جوہر جاندار وجود کا فطری میلان ہے) کی تشفی کا اہتمام ہے تو دوسری جانب جذبۂ ایثار کے ذریعے اپنی ذات کو معاشرے کے لئے وقف کرنے کا بھی اثر انگیز درس ہے کہ جو ایک فرد کو ذاتی منفعات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے پر آمادہ کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ایک فرد کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے فائدے کی سوچے۔ اسے دوسروں کے نفع و نقصان کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جبکہ اشترکیت نے جن اقدار کو اپنے منشور میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا، انکے مطابق ایک فرد کی اجتماع کے سامنے کوئی اہمیت و حیثیت ہی نہیں ہے۔ اس لئے انفرادی سطح پر ایک فرد کتنی بھی امتیازی خوبیوں کا حامل کیوں نہ ہو اور دوسروں کی بہ نسبت کتنا بھی زیاہ محنت کش اور سخت کوش ہی کیوں نہ ہو اسی وہی کچھ ملے گا جو ایک غبی ذہن، سست، اور کام چور کے حصے میں آئے گا۔ اور اسی چیز کو یہاں پر مساوات کا نام دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً سرمایہ دارانہ نظام نے ایک انسان کو ”خود غرضی اور خود خواہی “ کے اس صحرا میں لا کھڑا کر دیا کہ جہاں اسے اپنی ذات کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ وہ خواب و بیداری کی حالت میں صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے جبکہ دوسری جانب اشتراکیت نے”حبِ ذات“ جیسی فطری اور بنیادی جبلت پر کاری ضرب لگا کرایک فرد کو ”بے غرضی اور بے التفاتی“ کی جھکڑ بندیوں میں قید کر کے رکھ دیا۔

اس افراط و تفریط سے مبراء اسلامی نظام معاشرت میں اگرچہ ایک فرد کو انفرادی طور پر کوئی قدغن نہیں ہے کہ وہ مادی اور معنوی اعتبار سے اوجِ کمال تک پہنچے لیکن اس کا اوج کمال تک پہنچنا اسی صورت میں قابلِ تعظیم و تکریم ہے۔ جب اس نے فلاح و کمال کے راستے پر گامزن رہنے کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کو بھی اسی راستے پر چلنے کی دعوت دی ہو اور انہیں وقتاً فوقتاً ہر لازمی کمک و امداد بہم پہنچائی ہو۔ اسلامی اصول کی رو سے ”خود غرضانہ نیکی“ بھی کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ یعنی اگر کوئی شخص محض یہ چاہے کہ وہ تمام تر نیکیوں کو اپنے دامنِ کردار میں سمیٹے اور اپنے معاشرے کے ساتھ اس کا کوئی سروکار نہ ہو تو چاہے وہ کوہ ہمالیہ جیسی نیکیاں کیوں نہ اپنے ارد گرد جمع کرے، اسے کسی قسم کی جزا نہیں ملنے والی۔ خداوند عالم نے قرآن کریم میں ایک بہترین اور مثالی انسانی معاشرے کا خاصہ بیان کیا ہے کہ اس معاشرے کے افراد ایک دوسرے کو برائیوں سے روکتے ہیں اور اچھائیوں کی دعوت دیتے ہیں اور اسی بنیاد پر امت مسلمہ کو بہتریں امت قرار دیا ہے۔ چنانچہ خداوند عالم امت مسلمہ سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ” تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی تفسیر نمونہ میں درج بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”اس آیت میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ امت کے بہترین ہونے کی دلیل کو امربالمعروف، نہی عن المنکر اور خدا پر ایمان بیان کیا گیا ہے اور اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو ''خدا پر ایمان'' کے اوپر مقدم کیا ہے، تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ ان دونوں فرائض کے بغیر دلوں میں خدا پر ایمان کی بنیادیں سست ہو جاتی ہیں اور اس کے ستون گر جاتے ہیں، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ خدا پر ایمان انہی دو فریضوں پر استوار ہے۔ جس طرح معاشرہ کے تمام امور کی اصلاح بھی انہی دونوں کے اوپر استوار ہے۔یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو زندہ کرنے والوں کو زمین پر خدا کا نمائندہ، پیغمبر اور کتاب کا جانشین کہا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام نے دوسرے تمام فرائض سے مقایسہ کرتے ہوئے ان دونوں فرائض کی بہت زیادہ اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا؛ "تمام نیک کام یہاں تک کہ خدا کی راہ میں جہاد بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے دریا کے سامنے انسان کا لعاب دہن۔" نہ صرف معاملات بلکہ عبادات میں بھی اجتماعیت کا ایک واضح تصور ہے۔ کسی بھی عبادت پر غور و فکر کریں ہر عبادت میں جماعت و اجتماع کی کوئی نہ کوئی صورت دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے نماز اگر ایک جانب فرد کا خالق کے ساتھ راز و نیاز کا نام ہے، مگر اسی نماز کے ذریعہ جماعت کا خوبصورت گلدستہ بھی روحِ عبادت کو معطر کردیتا ہے۔ سورہ حمد جس کی تلاوت ہر نماز گزار کرتا ہے۔ اس سورہ میں ایک بندہ جب خدا سے مخاطب ہو کر اس کی ربوبیت کا اقرار کرتا تو وہ یعنی چاہے ایک اکیلا ہی نماز کیوں نہ ادا کر رہا ہو، وہ بھی "ایاک نعبد و ایاک نستعین" جیسی آیات میں چند ایک جمع صیغے ادا کرتا۔ صاحبِ تفسیر نمونہ اس بات کی وضاحت خوبصورت انداز میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "یہ (جمع کے صیغے) اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت اور خصوصاً نماز کی اساس جمع و جماعت پر رکھی گئی ہے، یہاں تک کہ جب بندہ خدا کے سامنے راز و نیاز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اسے چاہیئے کہ اپنے آپ کو جماعت و اجتماع کے ساتھ شمار کرے چہ جائے کہ اس کی زندگی کے دیگر کام۔ اس بنا پر ہر قسم کی انفرادیت، علٰیحدگی، گوشہ نشینی اور اس قسم کی چیزیں قرآن اور اسلام کی نظر میں مردود قرار پاتی ہیں۔"
 
روزہ ایک ذاتی اور انفرادی عمل ہونے کے ساتھ ساتھ اس لحاظ سے اجتماعی عمل کے ساتھ گہرا ربط و تعلق رکھتا ہے کہ تمام مسلمانوں کے لئے ایک خاص اور مقررہ وقت میں روزہ فرض کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک مسلمان ایک ماہ میں روزہ رکھے اور دوسرا مسلمان دوسرے ماہ میں روزے کی سعادت سے مستفید ہو۔ اس کے علاوہ علماء نے روزہ دار کی گرسنگی اور تشنگی کے متعلق یہ خوبصورت اور معنی خیز توجیہ بھی پیش کی ہے کہ روزے دار کے فاقوں کا ایک مدعا یہ بھی ہے کہ اس کے دل میں دوسرے فاقہ کشوں اور محتاجوں کے متعلق احساس ہمدردی جاگ اٹھے۔ اسی طرح حج تو سراسر اجتماعیت کا آئینہ دار ہے۔ حج تمام ذاتی و انفرادی رنگ و ڈھنگ کے لباس کو اتار کر اجتماعی یعنی الٰہی رنگ میں رنگ جانے کی بہترین مثال ہے اسی رنگ کو "صبغتہ اللہ" قرآنی اصطلاح میں کہا گیا ہے۔ وجوبِ صیام کے متعلق ایک معروف آیت جو زبان زد عام و خاص ہے میں خداوند تعالٰی نے اپنے بندوں کو روزے کی فرضیت ساتھ ساتھ اس کے مدعا و مقصد سے بھی آگاہ فرماتا ہے۔ "يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ" (183)اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔ اسی آیت سے ملتی جلتی اور دو آیتیں قصاص کے متعلق قرآنِ کریم میں موجود ہیں۔ اور وہ دو آیتیں بھی سورہ بقرہ میں ہی درج ہیں۔چنانچہ خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ "یاایھا الذین آمنوا کتب علیکم القصاص فی القتل الحر بالحر والعبد بالعبد والانثیٰ بالانثی۔۔۔۔۔ ولکم فی القصاص حیاة یا اولی الالباب لعلکم تتقون" (البقرہ (178) (179) اے ایمان والو! مقتولوں میں برابری کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے، آزاد بدلے آزاد کے اور غلام بدلے غلام کے اور عورت بدلے عورت کے۔ اور قصاص (یعنی ناحق خوں کا بدلہ لینے) میں تمہار ی زندگی ہے۔ اے عقلمندو! تمہیں تقوٰی و پرہیزگاری کی راہ اختیار کرنا چاہیئے۔

ان تین آیات پر ایک ساتھ غوروخوض کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پہلی آیت جس میں روزہ کا حکم وارد ہوا ہے۔ روزوں کو انسان کے باطنی تقوٰی، طہارتِ نفس اور قلبی پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور مختلف قسم کے روحانی امراض کا علاج روزوں میں موجود ہے۔ دوسری جانب دیگر دو آیات مبارکہ میں ایک تعزیر یعنی قصاص کے ذریعے انسانی جان کی حفاظت کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ جس سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر ایک حفاظتی ڈال کی ضرورت ہے۔ انفرادی سطح پر اسے نفسانی خواہشات اور شیطان کی خفیف یورشوں کا سامنا ہے اور اجتماعی سطح پر بھی ان افراد کے ظلم و زیادتی کا شکار ہو سکتا ہے کہ جو اپنی انانیت کو برقرار رکھنے کے لئے دوسروں کے جان و مال کو غارت کرنے کی حد تک جا سکتے ہیں۔ خواہشات نفس کے پیدا کردہ ان مفاسد کے خاتمہ کے لئے روزہ اور اسی جیسی دیگر ریاضتیں سمِ قاتل ہیں۔ جو انسان کے قلب و روح کی دنیا میں اچھے میلانات کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور قانونِ قصاص معاشرے میں ان فاسد عناصر کے سر پر لٹکتی تلوار کی مانند ہے کہ جو حقیر مفادات کے لئے قیمتی انسانی جانوں سے کھلواڑ کرنے کی حد تک جا سکتے ہیں۔ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو عبادتِ الٰہی اور خوف خدا کا مدعا و مقصد بھی یہی ہے کہ ایک عبادت گزار بندہ مخلوقِ خدا کے لئے جابر و ظالم نہ بن جائے۔ وگرنہ خداوند جبار کو اسکی عبادت اور تقوٰی سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ان کا براہِ راست اور مثبت اثر عبادت گزار اور تقوٰی شعار بندے کی زندگی پر پڑتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ مخلوقِ خدا بھی اسے کسی قسم کے دکھ اور تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتی۔ بالفاظِ دیگر خوفِ خدا کا مدعا و مقصد یہ ہے کہ خوفِ خدا سے آراستہ مومن سے مخلوقِ خدا بے خوف رہے۔ وہ ہر اعتبار سے نہ صرف دیگر انسانوں کے لئے حلیم و شفیق ثابت ہو جائے۔ بلکہ ہر ذی حیات اس کے شر سے محفوظ ہو۔ بصورت دیگر اس کی عبادتوں اور ریاضتوں کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے۔

چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ "رسولِ خدا کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ فلاں شخص دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات عبادت میں گزار دیتا ہے لیکن بد اخلاق ہے، اور ہمسایوں کو ستاتا ہے، تو آنحضرت نے فرمایا اس شخص میں کوئی اچھائی نہیں، وہ جہنمی ہے"۔ (میزان الحکمہ ج۳ص ۴۵۱ بحوالہ آداب معاشرت ۔۔ ناشر تنظیم المکاتب لکھنو)۔ مسجد سے نکلا ہوا عابد انسانی معاشرے کے لئے اگر سودمند نہ ہو تو جان لیجئے کہ وہ عادتاً مسجد جایا کرتا ہے کیونکہ مسجدیں دراصل وہ انسان ساز کار خانے ہیں جہاں انسانی معاشرے کی تعمیر کے بہترین اکائیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسلامی معاشرے کی بنیاد توحید کے محکم اور مستحکم تصور پر رکھا گیا ہے۔ لہٰذا اسلامی معاشرے کی اصل بنیاد عقیدہ توحید پر ہی ہے۔ توحید یعنی تمام کائنات کا ایک اور واحد خالق و مالک جس نے تمام کائنات کو بنایا ہے، اور انسان کیلئے کائنات کی تمام اشیاء کو مسخر کردیا ہے۔ انسان کو چاہیئے کہ نہ صرف اپنے خالق کے ساتھ عبادت و ریاضت کے ذریعے رابطہ قائم کرے، بلکہ اپنے بہترین معاملات کی بنیاد پر اپنے جیسے دیگر انسانوں کے ساتھ بھی مرتبط رہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ اس وقت ظلم و تعدی کے ساتھ پیش آتا ہے کہ جب اسے یہ گمان ہو کہ وہ نہایت ہی بہادر اور طاقتور ہے اور تکبر کے نشے میں چور وہ ظلم و زیادتی میں جا نکلتا ہے۔ اس کے برعکس عقیدہ توحید ایک مومن کو یہ باور کراتا ہے کہ ایک انسان کتنا ہی بڑا ذی اقتدار، ذی اختیار اور صاحبِ جاہ و حشم کیوں نہ ہو وہ خدائے کبیر و قادر کی بارگاہ اپنے آپ کو ذلیل و پست سمجھے۔ نتیجتاً بنی آدم کے درمیان اونچ نیچ، ذلت و عزت، صغیر و کبیر، قدرتمند و کمزور کے لئے عامیانہ تصور مٹ جاتا ہے۔

چنانچہ قرآن مجید ایک آیت کے ذریعے عالمی سطح پر انسانی برادری کی تشکیل کا اعلان یوں کرتی ہے۔ "یاایھاالناس انا خلقنکم من ذکر و انثیٰ و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوہٰ" انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر ہم نے تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اس آیت کا پہلا ہی حصّہ یعنی "انسانو؛ ہم نے تم کو ایک ہی مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے" تمام انسانوں کو عالمی برادری تشکیل دینے کی دعوت ہے۔ اور اس کی معقول اور ٹھوس وجہ بھی بتائی گئی ہے کہ خلقت کے اعتبار سے تمام انسانوں کا ایک ہی سرچشمہ ہے اور دوسرے حصّے میں انسانیت کی قبائلی، نسلی اور صنفی کثرت کا بھی اعتراف کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی غرض و غایت بھی بتائی گئی ہے کہ قبائل و گروہ میں انسانوں کو بانٹنے کی غرض محض ان کی شناخت و پہچان کو برقرار رکھنا ہے۔ اس آیۂ مبارک کے ضمن میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں افراد کے مابین آپسی روابط کا انحصار آپسی بھائی چارے پر ہے کیونکہ خلقت کے اعتبار سے یہ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہاں مساوات ہی مساوات ہے۔ تمام انسان پیدائشی طور پر مساوی اور برابر ہے۔ کسی انسان کو کسی انسان پر پیدائشی طور پر برتری حاصل نہیں ہے۔ ظاہر ہے جب مساوات ہر طرف کارفرما ہو تو بنی آدم کے مابین رشتۂ اخوت و محبت استوار ہوگا۔ جہاں کہیں ذات پات ،رنگ و نسل وغیرہ کی اونچ نیچ کی آمیزش ہوئی وہاں پر نفرت اپنے آپ ہی سرابھاتی ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 767585
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش