0
Thursday 20 Dec 2018 20:31

آئمہ جمعہ و خطباء کانفرنس، عقائد تشیع کے دفاع کا عزم

آئمہ جمعہ و خطباء کانفرنس، عقائد تشیع کے دفاع کا عزم
لاہور سے ابوفجر کی رپورٹ

19 دسمبر 2018ء کو حوزہ علمیہ جامعۃ المنتظر لاہور میں پنجاب کے چند ڈویژنوں سے تعلق رکھنے والے آئمہ جمعہ و خطباء کرام کا عظیم الشان اجتماع ہوا، جس میں سینکڑوں علماء کرام نے شرکت کی۔ آئمہ جمعہ و خطباء نے اپنے خطابات میں تبلیغ دین اور مکتب اہلبیت کی نشر و اشاعت میں حائل رکاوٹوں اور درپیش مشکلات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی، مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی، علامہ سید ساجد علی نقوی، علامہ سید نیاز حسین نقوی، علامہ ظہور حسین خان نجفی، علامہ محمد افضل حیدری نے اپنے خطابات میں اس شعبہ کی اہمیت و عظمت اور درپیش مشکلات کے حوالے سے ثابت قدمی پر آئمہ جمعہ و خطباء کی حوصلہ افزائی کی اور ہمت و استقامت سے یہ جہاد جاری رکھنے کی نصیحت کی۔ مولانا محمد افضل حیدری کا اپنے خطان میں کہنا تھا کہ آپ تمام علماء کرام کی تشریف آوری کا شکریہ، اللہ تعالیٰ بزرگان کا سایہ ہمارے سر پر قائم و دائم رکھے۔ ان کے حکم سے آپ صاحبان کو یہان زحمت دی گئی۔ جو حالات ہیں، وہ آپ سماعت فرمائیں گے۔ آپ خود بھی بیان کر رہے ہیں اور قریب سے انہیں درک کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اللہ رب العزت کی توحید کی معرفت اتنی احادیث سے نہیں ہوتی، جتنی مناجات معصوم سے ہوتی ہے۔ جب بندہ آئمہ معصومین ؑ کی مناجات پڑھتا ہے کہ وہ کس انداز سے خالق سے محوِ گفتگو ہوتے ہیں، خالق کی بارگاہ میں اپنے آپ کو کس انداز سے پیش کرتے ہیں اور خالق سے باتیں کرتے ہیں، خالق سے کس انداز میں مانگتے ہیں۔ اس سے انسان کو اپنے رب کی بہتر معرفت ہوتی ہے۔ جہاں قرآن مجید کی تلاوت ہونی چاہیئے، وہی اس میں فکر، غور اور تدبر ہونا چاہیئے، نہج البلاغہ پڑھیں، صحیفہ کاملہ پڑھیں اور اس کیساتھ ساتھ صحیفہ کاملہ کی دعاؤں میں معصومین ؑ کو بھی اپنے مطالعہ میں رکھیں، ان شاء اللہ اس سے بہتر ہدایت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ سٹیج سے تشیع کے عقائد کو اس حد تک مسخ کرکے پیش کیا گیا کہ ہمیں سرکاری افسر کے سامنے خدا کی وحدانیت اور توحید ثابت کرنا پڑتی ہے اور اس حقیقت کے دلائل دینا پڑتے ہیں کہ علی ؑ ابن ابی طالب ؑ ، اللہ نہیں بلکہ عبدِ خدا ہیں۔

حوالے پیش کرنا پڑتے ہیں کہ حضرت آدم ؑ کا خالق اللہ ہے یا علی ؑ ، یا حضرت علی ؑ ابوالآدم ہیں یا ابنِ آدم ؑ ؟ منبر سے علی الاعلان مراجع کرام، آئمہ معصومین حتیٰ کہ اللہ کیخلاف باتیں کی جاتی ہیں اور لوگ نعرے لگاتے ہیں۔ اس سے زیادہ برا وقت کب آئے گا؟ علامہ افضل حیدری کا مزید کہنا تھا کہ اب ضرورت ہے کہ مصلحتوں سے باہر نکلیں۔ آپ کی مشکلات کا اندازہ ہے، بزرگان بھی اس پر متوجہ ہیں۔ اس جہاد میں اللہ آپ کا حامی و ناصر ہے۔ یہ دینی مراکز آپ کیساتھ ہیں، آپ کے ساتھ قریبی رابطہ رہے گا۔ آپ بھی رابطہ میں رہیں۔ اس مقصد کیلئے ایک وٹس اپ نمبر 0346-5121280 نوٹ فرما لیں۔ جن کا وٹس اپ ہے، وہ اس ذریعہ سے اور دیگر حضرات SMS کے ذریعہ رابطہ کریں۔ جمعہ کے خطبات کے حوالے سے آپ سے رابطہ ہوتا رہے گا اور کچھ راہنمائی کی جائے گی۔

مولانا ظہور حسین خان نجفی کا کہنا تھا کہ امام حسین ؑ نے فرمایا "الا ترون ان الحق لا یعمل بہ و ان الباطل لا یتناہی عنہ" پھر فرمایا ان حالات میں مومن لقاء اللہ کی خواہش کرے۔ ہمارے حالات بہت ابتر ہوچکے ہیں۔ ان کے بارے چند بزرگان نے بجا فرمایا کہ شرک بیان کرنیوالے تو جہنم میں جائیں گے، مگر ہم جو خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، کہاں جائیں گے؟ اس دین کی بقاء کیلئے کربلا میں کیا ہوا ؟ فرزندِ زہراء (س) نے کون سی قربانی نہیں دی؟ کیا ہم اس کیلئے دو ڈنڈے بھی نہیں کھا سکتے؟ اسلامی اصولوں کو پامال کیا جا رہا ہو تو ہمیں دیکھتے نہیں رہنا چاہیئے، دنیاوی زندگی کے تقاضوں کا خیال نہیں رکھنا چاہیئے، امیرالمومنین حضرت علی ؑ نے ضمانت دی ہے کہ امر بالمعروف، نہی عن المنکر نہ تیری موت کو قریب لا سکتے ہیں اور نہ ہی تیرے رزق کی کمی کا سبب بن سکتے ہیں۔ ہمارے بزرگان نے ہم تک صحیح اور واضح دین پہنچایا، جو اللہ کی طرف سے نازل ہوا اور معصومین ؑ کے ذریعے ہم تک پہنچا، اللہ نے بزرگان کو محروم نہیں رکھا۔ سٹیج سے ناقابل برداشت خرافات بیان کی جاتی ہیں۔ MI6 کے ٹکڑوں پر پلنے والے پوری ملت کو یرغمال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے فریضہ پر توجہ کرنا چاہیئے۔ قرآن کا واضح حکم ہے، ایک جماعت ایسی ہونی چاہیئے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے۔

علامہ سید نیاز حسین نقوی کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ارشاد الٰہی ہے: "الذین یبلغون رسالات اللہ و یخشونہ ولایخشون احدا الا للہ وکفیٰ باللہ حسیبا"(الاحزاب39-)۔ اس آیت میں دینِ خدا کو لوگوں تک پہنچانے کے ذمہ داروں کی دو اہم صفات بیان کی گئی ہیں۔ وہ اللہ سے ڈرتے ہیں یعنی متقی ہیں، خوفِ خدا رکھتے ہیں اور تبلیغ دین میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ بلاشبہ علماء، انبیاء و معصومین کے نمائندے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑا اعزاز یہ ہے کہ العلما امناء الرحمان، علماء اللہ کے نمائندے ہیں۔ ایک مرجع تقلید سے لیکر خطیب مسجد و مبلغ تک سب دین خدا پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ درحقیقت سلسلہ نبوت کا استمرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم کی بہت عظمت بیان کی گئی۔ اگر عالم کا کسی بستی سے فقط گزر ہو تو وہاں کے قبرستان سے 40 دن تک عذاب ٹل جاتا ہے۔ اگر عالم دعا کرے تو پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں۔ یہ فضیلت ان علماء کیلئے ہے جو آیت شریفہ میں بیان کی گئی صفات پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی اپنے علم پر عمل نہیں کرتا تو بے عمل عالم بے اثر ہوتا ہے۔ قیامت کے دن اہل جہنم بھی اس سے پناہ مانگیں گے۔

آیت اللہ مشکینی فرماتے تھے کہ وہ جب تک خود کسی اچھی بات پر عمل نہ کریں، دوسروں کو نہیں کہتے۔ آیت میں بیان کی گئی دوسری صفت کے مطابق کسی سے بھی نہیں ڈرنا چاہیئے۔ رزق کی کمی یا کسی کی مخالفت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، فقط اللہ کو رازق سمجھیں۔ علامہ نیاز نقوی کا کہنا تھا کہ ہمارے بزرگان کی بہت خدمات ہیں، انہوں نے کبھی عقائد پر سمجھوتہ نہیں کیا اور کسی کی مخالفت کے ڈر سے کبھی اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ہمارا فریضہ ہے کہ بلاوجہ سخت گیری، لڑائی وغیرہ سے اجتناب کریں اور بردباری، عقلمندی و تدبیر سے کام لیں۔ مقامی امامِ مسجد اور امام جمعہ کی بہت اہمیت ہے۔ وہ ہر وقت مومنین سے رابطہ میں ہے۔ بڑے علماء یا خطیب تو کبھی کبھی آتے ہیں۔ بچوں، جوانوں اور نوجوانوں کی تربیت کی بہت ضرورت ہے اور یہ کام فقط مقامی پیش نماز اور امام جمعہ ہی کر سکتا ہے، کیونکہ وہ ہر وقت ان کے درمیان رہتا ہے۔ فقط نماز جماعت کرا دینا کافی نہیں، نماز جماعت تو مومنین کو مسجد میں لانے کا بہترین طریقہ و بہانہ ہے۔ جب کوئی مسجد میں آجائے گا تو اس سے رابطہ اور تربیت کا کام آسان ہو جائے گا۔ امام مسجد کو ہر حال میں مسجد میں جانا چاہیئے، چاہے کوئی نمازی نہ بھی آئے یا ایک دو آتے ہوں۔ جس حد تک دین داری کا ماحول ہے، یہ آپ کی زحمات کا نتیجہ ہے۔ مدارس کی موجودہ آبادی، بزرگان کی سرپرستی اور آپ کی خدمات کا ثمر ہے۔

چند سال پہلے مجھے لکھنوء جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کے ویران مدارس دیکھ کر بہت دکھ ہوا۔ یہ وہی لکھنوء ہے، جو اجتہاد کا مرکز تھا اور جہاں ایران و عراق سے لوگ پڑھنے آتے تھے، لیکن الحمد للہ پاکستان میں علمی و دینی فضاء بہت بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ بزرگان کی زحمات کے نتیجہ میں 450 کے قریب مدارس کام کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ایک چھوٹی مسجد کے خطیب اور امام جمعہ کی خدمات بڑے علماء سے بھی زیادہ مؤثر ہوں۔ سیاسی طور پر دنیا بھر میں تشیع کیخلاف مہم جاری ہے، اسے بدنام کرنے کے بہانے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ غلط عقائد کے پرچار کی وجہ سے ہم پر کفر کے فتوے لگ رہے ہیں۔ لہٰذا لوگوں کا عقیدہ درست کرنے پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض قوتیں چاہتی ہیں کہ مدارس کو پابند کیا جائے، نئے مدارس شہری آبادیوں سے دور بنائے جائیں۔ اسی طرح نئی مساجد کی تائسیس میں بھی مشکلات ہیں۔ ان حالات میں ہمیں ان کو کچھ کرنے کا بہانہ فراہم نہیں کرنا چاہیئے۔ اس وقت بہائیت کا فتنہ بھی قادیانیت کی طرح ہے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ 80 ہزار کے قریب بہائی پاکستان میں ہیں۔ بہایت کے بارے بھی لوگوں کو مطلع کرنا ضروری ہے۔ بزرگان کا وجود ہمارے لئے نعمت ہے۔ ان سے فیض حاصل کریں اور ان کی سرپرستی سے فائدہ اٹھائیں۔

علامہ شیخ محسن علی نجفی کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ آپ حضرات سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور معاشرے میں سب سے زیادہ نظر انداز بھی ہیں۔ آپ کے مسائل سنگین ہیں۔ عوام میں رہتے ہیں لیکن عوام کے اندر آپ کو انصاف نہیں ملتا۔ عالم کو جاہل سے انصاف نہیں ملا کرے گا۔ آپ کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ آپ کو نصیحت کرنا درست نہیں کیونکہ آپ طوفان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ نصیحت نہیں بلکہ چند باتیں عرض کرنا ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا "لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علیٰ لسان داود۔" حضرت داؤد کی زبان سے بنی اسرائیل کے مردوں پر لعنت کی گئی۔ "کانو الا یتناہون عن المنکر" جو منکرات سے نہیں روکتے تھے۔ بعض اوقات اس خوف سے بھی بات نہیں کی جاتی کہ معاشرے میں ہماری کوئی حیثیت نہیں، کوئی مقام نہیں۔ شیخ محسن نجفی کا کہنا تھا کہ مدرسہ میں بیٹھ کر بھی اسی سوچ کے تحت بات نہیں کی جاتی۔ آپ دل سے یہ ڈر نکال دیں۔ حدیث ہے کہ اگر آپ اللہ سے ڈریں گے تو سب آپ سے ڈریں گے اور اگر اللہ سے نہیں ڈریں گے تو پھر آپ سب سے ڈریں گے۔ اللہ کا خوف لازم ہے۔ انہوں نے اقبال کے ایک شعر میں تصرف کیا کہ
یہ ایک خوف جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار خوف سے دیتا ہے آدمی کو نجات

ایک اللہ پر یقین کریں۔ وہ اللہ جو 70 ماؤں سے زیادہ محبت رکھتا ہے، الرحمن الرحیم ہے۔ اس پر بھروسہ کریں۔ "من یتوکل علی اللہ فہو حسبہ" اللہ کافی ہے کسی اور کی ضرورت نہیں۔ اس پر ایمان لا کر تجربہ بھی کریں۔

ہر سچ بات ہر وقت، ہر جگہ نہیں کی جاتی اور بلاوجہ لڑائی درست نہیں، حکمت سے کام کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ فقط ایک اللہ کا خوف دل میں رکھ کر بات کریں، کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں (رزق و اسباب زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے)۔ حدیث ہے "لو علم الناس مافی السوال لم یسئل احداً احد۔" سوال کرنے، ہاتھ پھیلانے کی ذلت کا اندازہ ہو تو کوئی کسی سے کچھ نہ مانگے۔ اللہ پر توکل کے بعد کچھ آزمائش اور پریشانی تو ہوگی، حتی کہ انبیاء بھی بعض اوقات مایوس ہونے لگتے تھے، لوگ شک کرتے کہ ہم سے جھوٹ بولا گیا۔ مگر بالآخر اللہ کی مدد آجاتی۔ اگرچہ آپ کا تعلق محروم طبقہ سے ہے، مگر آپ سب سے زیادہ سعادت مند ہیں۔ آپ کے ذریعے امت کی اصلاح ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضور اکرم ؐ نے حضرت علی ؑ کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر ایک آدمی کی بھی ہدایت ہو جائے تو یہ ہر اس شئے سے بہتر ہے، جس پر سورج چمکتا ہے (یعنی دنیا و مافیہا)۔ آپ کے خطبات اثر کرتے ہیں، نمازیوں کی تعداد بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس وقت بین الاقوامی سازشیں زیادہ ہیں، آپ کو علمی، فکری مواد دینے کی کوشش کی جائے گی۔ اس لحاظ سے ہم بہت امیر ہیں۔ معصومین ؑ کے فرامین کا سرمایہ ہمارے پاس ہے۔ لوگوں کو احادیث سنائیں، اپنی بات کی بجائے کلامِ معصوم سنائیں، جن کا فرمان ہے "لو علم الناس محاسن کلامنا لا تبعونا۔" اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

علامہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ آپ کا مقام و درجہ بہت بڑا ہے۔ سب سے پہلے انسان کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ خاتم الانبیاءؐ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ہمارے اوپر جتنی تکالیف آئیں یا ناگوار باتیں سننا پڑیں، ان کا رسول اکرم ؐ کی تکالیف سے کوئی تقابل نہیں، کیونکہ آنحضور ؐ نے فرمایا تھا کہ جس قدر مجھے ستایا گیا، کسی کو نہیں ستایا گیا۔ امیر المومنین ؑ کی سب سے بڑی مصیبت تنہائی تھی۔ ان سے بات کرنیوالا کوئی نہیں تھا، مگر علم کے دریا بہا دیئے۔ یہ سب کچھ ہمارے پاس ہے۔ امام جعفر صادق ؑ کی وجہ سے ہم جعفری کہلاتے ہیں۔ ان کے 4 ہزار سے زیادہ شاگر تھے۔ آپ بھی امام جعفر صادق ؑ کے شاگرد ہیں۔ معروف محدثین کا ایک معتبر سلسلہ موجود ہے۔ مجتہدین عظام، موجودہ مراجع کرام اور یہ آپ علماء کا دور ہے۔ ہمارا کام انبیاء کا کام ہے۔ ان کو اللہ نے علم دیا، انہوں نے اخلاق سے اپنے آپ کو سنوارا۔ کوئی بھی نبی ایسا نہ تھا، جس پر تکالیف کا پہاڑ نہ ٹوٹا ہو۔ ان کے مقابلے میں ہماری تکالیف کچھ نہیں۔

یہ آپ کی عظمت ہے آپ کے پاؤں کی جگہ پر بادشاہوں، حکمرانوں کے سر ہوتے ہیں۔ عام لوگ بھی دین کا کام کرتے ہیں، لیکن یہ آیت کریمہ علماء کے بارے ہے "ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر، یامرون بالمعروف و ینہون عن المنکر۔" اسی گروہ کو کامیاب قرار دیا گیا کہ "اولٰئک ہم المفلحون" ایسے ہی لوگ لاکھوں افراد کی شفاعت کرسکیں گے۔ جتنا قرآن کے زیادہ قریب آئیں گے، اتنا دین کا زیادہ علم حاصل ہوگا اور اسی قدر بہتر تربیت کرسکیں گے۔ علامہ ریاض نجفی کا مزید کہنا تھا کہ جس قدر قرآن میں غور و فکر کریں گے، اسی قدر لوگوں کی بہتر تربیت کرسکیں گے۔ اس کے بعد احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ ہے، پھر خطبات امیر المومنین ؑ ہیں۔ اگر تمام تک رسائی نہ ہو تو 800 سے زیادہ کلمات قصار بھی بہت مفید ہیں۔ ہر محفل، گھر، درس وغیرہ میں ایک نصیحت بھی سنا دی جائے تو بہت فائدہ ہوگا۔ اس کے ساتھ امام سجاد ؑ کے صحیفہ کاملہ میں اللہ سے مانگنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ جب طریقہ آئے گا تو لوگوں سے مانگنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ روزانہ کم از کم 5 منٹ قرآن مجید، 5 منٹ نہج البلاغہ اور 4 منٹ صحیفہ کاملہ کو دیں، مزید وقت ہو تو مالی مشکلات کا حل قبلہ علامہ سید محمد یار شاہ صاحب نے بیان فرمایا تھا کہ اس پر عمل کیا جائے تو کسی کی احتیاج نہیں رہے گی۔ ہر روز نماز صبح کے بعد 1 ہزار مرتبہ درود شریف پڑھیں تو گویا مصلیٰ کے نیچے سے رزق ملے گا۔ اس پر تقریباً پونا گھنٹہ صرف ہوتا ہے۔ آپ جب پچاس آدمیوں سے بات کرتے ہیں تو یہ بات 50 خاندانوں تک پہنچتی ہے۔ آپ سب کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

علامہ سید ساجد علی نقوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس بابرکت محفل میں شرکت ایک سعادت ہے۔ دونوں بزرگان کے پرمغز، مؤثر نصائح سے استفادہ کرنا چاہیئے۔ اس پر اضافہ کی ضرورت نہیں، جو لوگ تشیع کو بدنام اور اس کا چہرہ مسخ کرنا چاہتے ہیں، وہ اب بے نقاب ہوچکے ہیں۔ اپنی کفریات کے ذریعہ انہوں نے خود کو بے نقاب کر دیا۔ اس سے صرف نظر ممکن نہیں۔ پہلے ان کا انداز مبہم تھا، اب وہ کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ آپ کے پاس خطبہ جمعہ اور منبر کا میڈیا ہے۔ لوگوں سے براہِ راست رابطے میں ہیں۔ ان تک تشیع کا روشن چہرہ پہنچانا لازم ہے۔ یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے بھی بڑھ کر ہے۔ رسالات اللہ کا معاملہ لوگوں کی مکمل راہنمائی کرنا ہے۔ لڑائی، جھگڑے کی ضرورت نہیں، محاذ آرائی میں کسی اور کا فائدہ ہوگا۔ مؤثر تبلیغ و دلائل سے ضرب لگا کر اس فرصت سے فائدہ اٹھائیں۔ تشیع کے خلاف جتنی سازشیں ہوئی ہیں، ہم نے ان کا مقابلہ کیا۔

علامہ ساجد علی نقوی نے مزید کہا کہ شہادتِ ثالثہ بھی تشیع کو تقسیم کرنے کی سازش تھی، تاکہ ہر جگہ 2 مساجد ،2 امام بارگاہیں بنائی جائیں، مگر ہم نے اس کا مقابلہ کیا اور کہا کہ مسلمہ مراجع کرام کی طرف رجوع کیا جائے۔ ان حالات میں اصولی، اخباری، مقلد، غیر مقلد کی بحث ایک دھوکہ ہے۔ یہ کفریات بہت واضح ہیں، جو مسلمہ عقائد کیخلاف ہیں۔ شیعہ مکتب فکر کے اصول و فروع اور عقائد کا ان کفریات سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سازش کہاں سے آئی۔ اسی وجہ سے ہم مجالس و عزاداری کیلئے ہمیشہ تاکید کرتے ہیں۔ اللہ کی ہدایت اور امام زمانہ کی نظر عنایت سے آج تشیع پاکستان قومی دھارے میں ہے۔ اہم فورمز کی صدارت پر ہے۔ تشیع کی ایک ممتاز حیثیت ہے۔ سازشیں ہوئی تھیں، چند ٹولیاں بنائی گئی لیکن ناکام ہوئیں۔ ہم مجلس عمل اور ملی یکجہتی کونسل کے بانیوں میں سے ہیں، جس نے تشیع کا روشن چہرہ پیش کیا ہے۔ بیہودہ، بازاری لوگ سامنے لائے گئے، تشیع کے خلاف اردن کی حکومت کے بجٹ کے برابر پیسہ صرف کیا گیا، لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ اب تشیع امت مسلمہ کا ہراول دستہ ہے، امت مسلمہ کا ترجمان ہے۔ آپ کو دینی مدارس، وفاق المدارس اور بزرگان کی سرپرستی حاصل ہے، جو ایک غنیمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ یکجہتی بھی نعمت ہے۔ آپ حضرات قوم تک واضح اور دو ٹوک انداز میں پیغام پہنچائیں۔ کفریات و لغویات کا سلسلہ کسی اور طریقے سے ہم بند کر سکتے تھے، لیکن میں اعتدال کا قائل ہوں۔ اصولوں پر ہرگز سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ہم نے مشکل حالات میں کام کیا، ہمیں اقتدار بھی مل سکتا تھا۔ ہمیں کہا گیا کہ قرآن پر عمل کرو۔ ہم سے بہتر قرآن پر عمل کون کرے گا؟ سنت ہم سے بہتر کون جانتا ہے؟ ہم نے دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ قرآن و سنت کے علاوہ کوئی تیسری بات قبول نہیں کریں گے۔ مثلی لا یبایع مثلہ۔ درحقیقت اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا واضح منشور ہے۔ تشیع میں کفریات کی کوئی گنجائش نہیں۔ تشیع کو کفریات سے پاک کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ آپ بھی یہ بات عوام اور بانیان کو سمجھائیں۔ ہم نے مشکل حالات کا بھی حکمت عملی سے مقابلہ کیا۔ اگر چاہتے تو پاکستان کے آسمان اور زمین کا رنگ بدل جاتا۔ میرا کام راہنمائی کرنا ہے۔ انہیں سمجھائیں کہ کفریات سے باز رہیں، وہ عقیدہ رکھیں جو علی ؑ کا تھا۔ آپ سے خواہش ہے کہ وحدت، اتحاد و یکجہتی کو برقرار رکھیں، اخلاقیات کو ملحوظ رکھیں۔
خبر کا کوڈ : 767794
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش