0
Sunday 23 Dec 2018 14:22

قائد اعظم کے فرامین اور ریاست مدینہ

قائد اعظم کے فرامین اور ریاست مدینہ
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا ہم پہ احسان عظیم ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ وطن کی جدوجہد کی قیادت کرتے ہوئے بے مثال قربانیاں پیش کرکے ایسے وطن کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوئے، جو آج کے دور میں واحد اسلامی ایٹمی مملکت ہے۔ جس کی افواج آج دنیا کی بہترین افواج میں شامل ہیں اور امت مسلمہ میں ہم ایک اہم ترین کردار رکھتے ہیں۔ قائد اعظم نے جو مملکت بنائی، اس کے بارے ان کا کیا خیال تھا، وہ اس مملکت کو کیسا بنانے کی خواہش رکھتے تھے اور اس کا اظہار مختلف مقامات پر انہوں نے کیا۔ آج ہم مدینہ کی ریاست اور اقبال و قائد کے پاکستان کی بات زور و شور سے کرتے ہیں، ہمیں قائد کے اقوال سے علم ہوگا کہ وہ کس قسم کی ریاست کیلئے جدوجہد کر رہے تھے، تب ہی ہم اس عظیم ریاست کے خدوخال سمجھ پائیں گے، ہم ذیل میں قائد کے اقوال پیش کر رہے ہیں، ان کو بغور پڑھنے اور بار بار پڑھانے کی ضرورت ہے، تاکہ ہمارے سیاست دان اور نئی نسلیں اقبال و قائد کے خوابوں کی تعبیر سے واقف ہوسکیں۔ ویسے بھی کسی شخصیت سے منسوب ایام کا تقاضا بھی یہی ہوتا ہے کہ ان کے افکار و کردار و گفتار و عمل کو اگلی نسلوں تک پہنچایا جائے، ہم ان کے فرامین سے ہی ان کے افکار کو محسوس کر سکتے ہیں۔
 
قائد اعظم فرماتے ہیں۔۔ "مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد، یقینِ محکم اور تنظیم ہی وہ بنیادی نکات ہیں، جو نہ صرف یہ کہ ہمیں دنیا کی پانچویں بڑی قوم بنائے رکھیں گے بلکہ دنیا کی کسی بھی قوم سے بہتر قوم بنائیں گے۔"(کراچی 28 دسمبر، 1947ء) "دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی۔"(لاہور 30 اکتوبر، 1947ء) "ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی سندھی، بلوچی، بنگالی، پٹھان یا پنجابی نہیں ہے۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہیئے۔"(15 جون، 1948ء) "انصاف اور مساوات میرے رہنما اصول ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر ہم پاکستان کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بنا سکتے ہیں۔"(قانون ساز اسمبلی 11 اگست، 1947ء) "دنیا کی کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی، جب تک اس کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں حصہ نہ لیں۔ عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں بند کرنے والے انسانیت کے مجرم ہیں۔"(مسلم یونیورسٹی یونین 1944ء) "پاکستان کی داستان، اس کے لئے کی گئی جدوجہد اور اس کا حصول، رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے رہنما رہے گی کہ کس عظیم مشکلات سے نبرد آزما ہوا جاتا ہے۔" (چٹاگانگ 23 مارچ، 1948ء)
 
آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942ء میں قائد اعظم نے وہ بصیرت افروز اور چشم کشا خطاب کیا، جس کی ضیا باری سے آج بھی تاریخ پاکستان روشن ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا: "مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا۔" 6 دسمبر 1943ء کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائد اعظم نے فرمایا: "وہ کون سا رشتہ ہے، جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں، وہ کون سی چٹان ہے، جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے، وہ کون سا لنگر ہے، جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآنِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسول، ایک امت۔"
 
قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا: "قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوجداری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں۔" 10 ستمبر 1945ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا: "ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کرسکتی۔" 1947ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ: "میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے، جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں۔"

تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا: "وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتائو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے۔" 2 جنوری 1948ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا : "اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیئے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے، جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کرسکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے۔"
 
مغرب کے اقتصادی نظام پر تنقید کرتے ہوئے اسی خطاب میں آپ نے فرمایا: "اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لئے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے، جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نظام پیش کرکے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے۔ انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ سے بچا سکتا ہے۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے۔" 14 فروری 1948ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا : "میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ عمل میں ہے، جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لئے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔"
 
13 اپریل 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا: "ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے، جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔" یکم جولائی 1948ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا : "میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے، جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لئے بے شمار مسائل پیدا کر دیئے ہیں، اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے سر منڈلا رہی ہے۔ مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے۔" 25 جنوری 1948ء کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : "آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھے، عظیم واضع قانون تھے، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی۔"
 
آخر میں ہم قائد اعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ کا وہ خطاب آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں، جو ان کے کردار کی سچائی کی سچی اور کھری شہادت کے طور پر تاریخ کے سینے پر چمک رہا ہے۔ یہ خطاب آپ نے 30 جولائی 1948ء کو لاہور میں اسکائوٹ ریلی سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: "میں نے بہت دنیا دیکھ لی، اللہ تعالیٰ نے عزت، دولت، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سربلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی، تنظیم، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردار ٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا۔"
خبر کا کوڈ : 768291
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش