1
Tuesday 25 Dec 2018 13:15

میرا بھائی، فاطمہ جناح

میرا بھائی، فاطمہ جناح
اسماء طارق، گجرات
 
پی ٹی وی پر ایک ڈرامہ لگتا تھا "جناح سے قائد تک" جس میں  قائد کے پورے اس سفر کو بہت اچھے انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم وہ بہت شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ ایک دن ماما سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ڈرامہ ایک کتاب میرے بھائی پر مبنی ہے، جو فاطمہ جناح نے قائد اعظم کے متعلق لکھی ہے اور یہ کتاب قائداعظم کی بائیوگرافی ہے۔ جس کی اصل کاپی تو انگلش میں ہے، جو آپ نے ایک  انگریز پپلیشر کے کہنے پر لکھی، مگر وہ اسے اس قدر مقبولیت نہ دلا سکا۔ بعد ازاں  قائداعظم لائبریری نے 1987ء میں یہ کتاب دوبار پپلش کی، جس نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ میرے بھائی کے نام سے اس کا اردو ترجمہ بھی موجود ہے اور انٹرنیٹ پر دونوں زبانوں میں کتاب موجود ہے۔ خیر میں تو اس کے بارے میں بھول چکی تھی، کیونکہ وہ پچپن کی بات تھی، مگر دو سال پہلے پی ٹی وی پر اگست میں یہ ڈرامہ  دوبارہ  لگایا جاتا ہے تو مجھے یاد آتا ہے اس کے بارے میں، بھلا ہو گوگل خالہ کا جس کی وجہ سے ایک منٹ دیر لگائے بغیر میں نے سرچ کیا اور پانچ منٹ میں اردو انگریزی  کاپیاں حاضر، دیکھ کر میری تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا، کیونکہ مجھے جہاں کتابیں پڑھنے کا شوق ہے، وہیں اکٹھی کرنے کا اس سے زیادہ شوق ہے۔
 
ہاں جی میں کچھ سالوں سے ایک عادت اپنانے کی کوشش کرتی ہوں، وہ یہ کہ جو خاص دن ہوتے ہیں نا، جو خاص شخصیات سے منسوب ہوتے ہیں، ان خاص دنوں ان شخصیات کے متعلق بےشک زیادہ نہیں مگر تھوڑا بہت پڑھنا، سننا اور چھوٹے بچوں  کو اکٹھا کرکے انہیں ان سے منسوب کوئی کہانی بنا کر سنانا۔ اب مجھے یہ کتاب 25 دسمبر تک پڑھنی تھی اور اللہ اللہ کرکے میں نے اسے 25 دسمبر سے پہلے ہی پڑھ لیا، کیونکہ یہ ہے ہی ایسی جسے مکمل کئے بغیر آرام نہیں آتا۔ کیونکہ یہ کتاب آپ کے ہیرو کی پوری زندگی کو کھول کر بیان کرتی ہے، ان کے پچپن سے لے کر انکی رحلت تک کے تمام واقعات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، جو جگہ جگہ ہمیں سبق دیتی ہے اور کئی حد تک ہماری کوتاہیوں کے لئے شرم سار بھی کرتی ہے۔ آج 25 دسمبر کے موقع  میرا دل چاہتا ہے کہ میں پھر سے اسے پڑھوں، اس کا تذکرہ کروں، اس کے بارے میں کچھ لکھوں۔ 11 ستمبر کے موقع پر میں نے ایک آرٹیکل لکھا تھا "قائداعظم، مشعل" جس میں وہی رونا تھا کہ ہم کیا کر رہے ہیں، کیوں کر رہے ہیں،  قائد نے یہ کہا، وہ کہا، مگر  ہم انکی سنتے نہیں ہیں۔ مگر آج میں ایسا کچھ نہیں لکھ رہی کہ قائد نے کیا کہا بلکہ آج ہم بات کریں گے کہ قائد نے کیا کیا، انہوں نے زندگی کیسے گزاری اور ان باتوں کو سامنے لانا ہے، جو چھپی ہوئی ہیں۔
 
اس کتاب میں درج ہے کہ بچپن میں وہ بہت شرارتی تھے، کھیل میں پڑھنے کی نسبت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے، جس وجہ سے کئی سکول بدلنے پڑے۔ خاندان والے کہنے لگ پڑے تھے کہ یہ بچہ کچھ نہیں کرنے والا، مگر انکی ماں کو یقین تھا کہ ان کا بیٹا ضرور بڑا ہو کر سب کا نام روشن کرے گا اور آخر ماں کا یقین اور محنت رنگ  لاتی ہے، جس کی بدولت ہی یہ بچہ آگے چل کر اتنا اچھا اور اعلیٰ آدمی بنتا ہے کہ سب دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یہاں ہمیں کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے، وہ یہ کہ کسی کا یقین آپ کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، خاص طور پر آپ کے والدین کا اور یہ یقین آپ کو کچھ بھی بنا سکتا ہے۔ کامیاب لوگوں کے پیچھے کسی نہ کسی کا یقین ضرور ہوتا ہے۔ وہ اکثر اپنی والدہ کی اس پیش گوئی کا ذکر کرتے تھے کہ وہ ایک دن بڑے آدمی بن کر رہیں گے، مگر ایک گمنام نوجوان ہونے کے ناتے انہیں اکثر حیرت ہوتی کہ کیا یہ پیش گوئی کبھی پوری ہو پائے گی۔
 
 پھر جب انہیں لندن کاروبار کی تعلیم کے لئے بھیجا جاتا ہے، مگر وہ وہاں جا کر وکالت میں داخلہ لے لیتے ہیں، حالانکہ گھر سے بہت مخالفت ہوتی ہے، مگر یہ فیصلہ اچانک نہیں ہوتا، وہ اپنی خود شناسی کرکے یہ فیصلہ کرتے ہیں، مگر جب وہ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو اب وہ پوری جان لڑا کر محنت کرتے ہیں۔ وہ صرف پڑھائی ہی نہیں کرتے تھے بلکہ مختلف سرگرمیوں میں حصہ بھی لیتے رہتے تھے۔ اپنا زیادہ تر وقت کتابوں کے مطالعہ اور مقررین کی تقرریں سننے میں استعمال کرتے، انگریزی ادب کے وسیع مطالعے نے انہیں بہت سے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات سے روشناس کروایا اور انہوں نے اپنے آخری ایام تک مطالعہ جاری رکھا۔ سخت محنت کرکے انہوں نے وکالت کا امتحان دو سال میں پاس کر لیا اور اٹھارہ سال کی عمر میں ہندوستان کے سب سے کم عمر بیرسٹر کہلائے۔ اس میں ہمارے نوجوانوں کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے، اگر ہم ان واقعات کو پرکھیں تو۔

قائد جب تعلیم مکمل کرکے گھریلو پریشانیوں کو کم کرنے کی خاطر وطن واپس تشریف لائے تو اس وقت ان کا مستقبل ایسے تاریک تھا جیسے گہرا سمندر، مگر انہوں نے ہار نہیں مانی، حتی کہ ہندوستان کا یہ بیسٹ بیرسٹر مہینوں ایک روپیہ کمائے بغیر گھر لوٹ آتا ہے، مگر انہوں نے مہینوں کیا، سالوں سخت محنت جاری رکھی اور آخر ان کی کوششیں رنگ لے آئیں۔ سب سے پہلے انہوں نے ایک انگریز بیرسٹر کے ساتھ کام کیا اور پھر خود مقدمات لڑنے لگے اور چھا گئے، مگر یہ سب قطعاً آسان نہیں تھا، بلکہ مشکلات سے بھرپور تھا، مگر قائد نے ہمت نہیں ہاری۔ قائد کی شخصیت میں کچھ چیزیں نمایاں تھیں۔ وہ بہت نفیس انسان تھے، صاف ستھرا رہتے، اچھا بولتے، اچھے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے اور وہ بہت ملنسار تھے، نئے نئے لوگوں سے ملنا انہیں پسند تھا، سماجی سرگرمیوں میں شریک رہتے۔ آج کا نوجوان اس تناظر میں کیسے سوچتا ہے، اسے دیکھنا ہوگا اور قائد سے سیکھنا ہوگا۔
 
 چالیس سال تک وہ گمنام تھے، مگر وہ اپنی ذات کو اس قابل بنا رہے تھے کہ ان کا  عنقریب بہت نام ہوگا۔ اسی طرح آپ اچانک ایک دن اٹھ کر کچھ نہیں بن جاتے بلکہ اس کے پیچھے پوری تیاری اور بیک گراؤنڈ ورک ہوتا ہے، جو آنے والے دنوں میں آپ کی منزل تعین کرتا ہے۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کی سرگرمیوں اور ذمہ داریوں میں  بہت اضافہ ہوچکا تھا، وہ ایک پوری قوم کی ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر لے چکے تھے اور ساتھ ہی ان کی صحت بھی گر رہی تھی۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور وہ اپنی صحت کا خیال کئے بغیر انہیں جاری رکھتے۔ کئی بار وہ بستر سے سیدھا اٹھ کر جلسوں میں شرکت کرنے چلے جاتے تھے۔ اگرچے کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہوتی اور یہ بات فاطمہ جناح کے سوا کسی کو معلوم نہ ہوتی تھی۔ وہ اپنے چہرے سے کبھی یہ ظاہر ہی نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ کتنی تکلیف میں ہیں۔ جب بھی فاطمہ انہیں کچھ کہتیں، وہ کہتے فاطمہ میری قوم کو میری ضرورت ہے۔

وہ اصولوں کے پکے آدمی تھے، جو کمٹمنٹ کی ہوتی اسے پھر ہر صورت پورا کرتے، کھانا، پینا آرام کرنا بھول جاتے، مگر وعدہ پورا کرتے۔ آخر ان کی اور مسلمانوں کی  انتھک کوششوں سے پاکستان بن جاتا ہے، مگر اب وہ نہ صرف سنجیدہ بلکہ پریشان بھی تھے، ایک طرف ان کی صحت گر رہی تھی اور دوسری طرف پاکستانیوں کو منظم کرنا تھا، مگر وہ صحت کی پرواہ کئے بغیر ہنگامی بنیادوں پر کوششیں کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی صحت مزید گرتی گئی۔ اگر وہ ڈاکٹروں کی بات مان کر آرام کرتے تو شاید یہ قوم اتنی جلدی یتیم نہ ہوتی، مگر وہ بابائے قوم اپنی قوم کو بےسہارا چھوڑ کر کیسے آرام کرتا اقتدار کی مالا جپنے والو اور پاکستان پاکستان کرنے والو سنو، یہ ہے وہ قائد جس کی تصویر دیواروں اور نوٹ پر چھپوا کر تم سمجھتے ہو کہ حق ادا ہوگیا۔

ابھی میں نے اس محسن قوم کے آخری گھنٹوں کی وہ تکلیف بیان نہیں کی، ایمبولینس کا وہ واقعہ نہیں لکھا، جو میری روح تک کو جھنجھوڑ دیتا ہے اور بےحسی کی ایک دردناک داستان بیان کرتا ہے اور وہ قائد جاتے ہوئے بھی یہ کہتا ہے کہ لوگوں کو پتہ نہ چلے کہ میں اس ایمبولینس میں جا رہا ہوں، انہیں پریشانی ہوگی اور قوم سوئی رہتی ہے اور وہ چپ چاپ چلا جاتا ہے۔ قائد نے یقین، کوشش اور مسلسل کوشش کا دامن کبھی نہیں چھوڑا اور یہ یقین اور کوشش ہماری زندگی میں بھی انقلاب لا سکتے، اگر ہم انہیں اپنا گرو بنا لیں تو۔۔۔
خبر کا کوڈ : 768608
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش