0
Tuesday 25 Dec 2018 17:37

پاراچنار، لاپتہ ناصر حسین کا جیل میں پراسرار قتل

پاراچنار، لاپتہ ناصر حسین کا جیل میں پراسرار قتل
رپورٹ: روح اللہ طوری

جیل میں جان بحق ہونے والے قیدی ناصر حسین بنگش کے انتقال پر پاراچنار میں طوری بنگش قبائل نے آج پریس کلب کے سامنے لاش کے ہمراہ احتجاجی مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ لاپتہ افراد پر روا رکھے جانے والے مظالم کا فوری طور پر نوٹس لیا جائے، نیز دیگر تمام لاپتہ افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ضلع کرم کے سرحدی علاقے خرلاچی کے ساکن اور عرصہ چار سال سے لاپتہ ہونے والے ناصر حسین بنگش لکی مروت جیل میں گذشتہ روز پراسرار طور پر انتقال کرگئے۔ مرحوم کی میت پاراچنار پہنچنے پر قبائل نے انکی لاش اٹھا کر شہر کے مختلف راستوں اور پریس کلب سے ہوتے ہوئے کچہری تک احتجاجی ریلی نکالی، جیل میں مذکورہ قیدی کے پراسرار انتقال پر شدید احتجاج کیا اور نعرہ بازی کی۔

اس موقع پر سے خطاب کرتے ہوئے طوری بنگش قبائل کے رہنماء اور سیکرٹری انجمن حسینیہ حاجی نور محمد، تحریک حسینی کے رہنما عابد حسین، جلال حسین، حاجی رؤف حسین، سر زاہد حسین، مولانا مزمل حسین، مولانا ایران علی اور دیگر رہنماؤں نے کہا کہ ناصر حسین پانچ سال قبل گھر سے پاراچنار شہر آتے ہوئے راستے میں لاپتہ ہوگیا تھا، پھر کئی سالوں تک ان کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔ کچھ عرصہ قبل ایک بھائی اور کمسن بیٹے نے لکی مروت جیل میں ناصر حسین سے ملاقات کی، کل دن کو اچانک پراسرار طور پر انکے جاں بحق ہو جانے کی اطلاع ملی اور  پھر کل رات کو ان کی لاش مل گئی۔ مگر تاحال ہلاکت کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔ قبائلی عمائدین نے کہا کہ ناصر حسین خود جاں بحق نہیں ہوئے، بلکہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قتل کے واقعے کی تحقیقات کی جائیں، نیز علاقے سے لاپتہ  ہونے والے دیگر 9 افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔

عمائدین کا کہنا تھا کہ جیل میں قیدی کا انتقال ایک افسوسناک اقدام ہے، چنانچہ اس واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرائی جائیں۔ عمائدین کا کہنا تھا کہ اگر واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات نہ کرائی گئیں تو وہ احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔ عمائدین نے کہا کہ ناصر حسین یا کوئی بھی قیدی ہو، اگر اس نے کوئی قانونی جرم کیا ہے، تو اس پر عدالت کے تحت مقدمہ چلایا اور اس کے جرم کا تعین کیا جائے، مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جرم کی نشاندھی کے بغیر کسی شخص کو طویل عرصہ تک حراست میں رکھتے ہوئے اس پر شدید تشدد کیا جائے اور پھر اسے قتل کر دیا جائے۔ کل سے عوام الناس خصوصاً سیاسی ماہرین اور رہنماؤں میں حکومت کے ایسے بے رحمانہ رویئے کے حوالے سے اضطراب پایا جاتا ہے۔

انکا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس طاقت ہے، سب کچھ ہے۔ کوئی مجرم اس کی دسترس سے باہر نہیں۔ اگر کسی نے کوئی قابل معافی یا کوئی ناقابل معافی جرم کیا ہے تو اس کے خانوادے سمیت اس کے پورے قبیلے کو مطلع کیا جانا چاہیئے، تاکہ وہ اپنے لاڈلے کے کرتوتوں سے باخبر رہے، نیز دیگر بھی اس سے عبرت حاصل کرسکیں کہ فلاں شخص نے فلاں جرم کیا تھا اور اسی پر اسے ایسی شدید سزا ملی۔ مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک شخص کو اپنے گناہ کا کوئی علم نہیں، اس کے قبیلے اور خاندان کو کوئی علم نہیں، اسے ناکردہ گناہ پر گرفتار کرکے طویل عرصہ تک لاپتہ رکھا جائے۔ اپنے لاڈلے کا پتہ لگانے کیلئے ورثاء کو کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کتنا خرچہ کرنا پڑتا ہے، جبکہ اس دوران ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہے، یہ ایک الگ کربناک مسئلہ ہے۔

اس تحریر کے ذریعے ہم حکومت کی توجہ اس بات کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ حکومت عوام کی قاتل نہیں بلکہ محافظ ہوتی ہے، حکومت عوام کو وسائل فراہم کرتی ہے، چھینتی نہیں۔ حکومت اپنے عوام کی اصلاح کرتی ہے، انہیں غلط راستہ نہیں دکھاتی۔ حکومت لوگوں کے مسائل حل کرتی ہے، انہیں مسائل کے گرداب میں پھنساتی نہیں، جبکہ مذکورہ واقعہ حکومت کی عدالت پر ایک بدنما داغ ہے۔ چنانچہ حکومت کو چاہیئے کہ اپنے ماتھے سے اس بدنما داغ کو فوری دھونے کی غرض سے ناصر حسین اور اسکی طرح دیگر لاپتہ افراد کے کیسوں کو عدالتوں کے سپرد کرتے ہوئے، انکے مبینہ جرائم کو منظر عام پر لاکر، ان پر اعلیٰ عدالتوں میں مقدمہ چلائے، یہی انصاف کا تقاضا ہے۔
خبر کا کوڈ : 768610
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش