0
Wednesday 26 Dec 2018 00:31

امریکی افواج کا انخلاء، ابہام برقرار ہے!

امریکی افواج کا انخلاء، ابہام برقرار ہے!
رپورٹ: این اے بلوچ

پاکستان سمیت مختلف ایشوز سے متعلق صدر ٹرمپ کے ٹوئیٹس جہاں سفارت کاری کی دنیا میں ہلچل مچا رہے ہیں، وہاں ان بدحواسیوں کی وجہ سے امریکہ داخلی طور پر بھی انتشار کا شکار ہے۔ حالیہ شٹ ڈاون اس کی تازہ مثال ہے۔ اسی طرح افغانستان سے 7000 اور شام سے 2000 فوجیوں کی واپسی کے فیصلوں کے متعلق امریکی انتظامیہ کے اراکین کا کہنا ہے کہ انکے صدر نے ایسا کوئی مشورہ نہیں کیا، یہ فیصلے اچانک کئے ہیں۔ امریکی صدر کے ان اعلانات سے نہ صرف امریکی انتظامیہ، سکیورٹی حلقوں اور وزارت دفاع یعنی پینٹاگون میں کھلبلی مچ گئی ہے بلکہ امریکہ کے قریبی اتحادی ممالک بھی پریشان ہوگئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگر امریکہ ان فیصلوں پر ثابت قدم رہتا ہے اور ان پر عمل درآمد کر دیا جاتا ہے، تو مشرق وسطیٰ اور افغانستان کے حوالے سے بڑے دُور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے ان فیصلوں کا اعلان اچانک کیا ہے اور ایسا کرنے سے قبل نہ تو انہوں نے اپنی کابینہ کے ارکان اور نہ ہی اپنے اتحادی ممالک سے مشورہ کیا۔

اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ کے سکیورٹی مشیران اور ڈیفنس سیکرٹری جم میٹس نے فوری طور پر ٹرمپ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ٹرمپ نے اُن کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ اس پر ڈیفنس سیکرٹری جم میٹس نے اپنا استعفیٰ صدر کے حوالے کر دیا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک صدر نے اپنے امریکی ہم منصب کو 2015ء میں شام میں امریکی افواج بھیجنے کے بارے میں اُنہی کا ایک بیان یاد دلایا، جس میں امریکی صدر نے کہا تھا کہ شام میں امریکی فوج بھیجنے کا واحد مقصد داعش کے خلاف جنگ جیتنا ہے اور کہا کہ اب جبکہ داعش کو تقریباً مکمل شکست ہوچکی ہے تو شام میں امریکی فوج کی موجودگی کا کیا جواز ہے؟ اس پر امریکی صدر لاجواب ہوگئے اور انہوں نے ترک صدر سے گفتگو کے دوران شام سے امریکی فوج کی واپسی کا فیصلہ سنا دیا۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے پر امریکی محکمہ دفاع کے علاوہ اسرائیل بھی پریشان ہے، کیونکہ شام سے امریکی فوج کے نکل جانے کے بعد اسرائیل کی نظر میں ایران کی شام میں پوزیشن مزید مضبوط ہو جائے گی۔

اسی تناظر میں دیکھا جائے تو ایران کے صدر حسن روحانی نے حال ہی میں ترکی کا اہم دورہ کیا تھا اور انہوں نے اپنے ترک ہم منصب صدر اردوان سے ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے شام میں قیام امن کیلئے اپنی کوششوں کو مزید مضبوط کرنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ پاکستان میں یہی باور کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے موثر کردار کیوجہ سے جنوبی ایشیائی خطے اور افغانستان کی صورت حال بدل رہی ہیے، اسی وجہ سے امریکی صدر ڈو مور کے مطالبے سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ لیکن افغانستان کے بارے میں صدر ٹرمپ کا موقف یہ ہے کہ چونکہ صدارتی مہم کے دوران انہوں نے افغانستان میں جنگ بند کرنے اور امریکی افواج کو واپس بلانے کا وعدہ کیا تھا، اس لئے اُس وعدے کے تحت اب باقی ماندہ امریکی افواج کے انخلاء کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما نے 2014ء میں افغانستان سے ایک لاکھ امریکی فوج کو واپس بلا لیا تھا۔ صدر ٹرمپ کے ان فیصلوں پر مختلف حلقے اپنا ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع اور امریکہ کے یورپی اتحادی صدر ٹرمپ کے ان فیصلوں پر خوش نہیں۔

امریکی اہلکاروں کے خیال میں امریکی صدر کے ان اقدامات سے شام اور افغانستان میں حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی ذمہ دار ایک بار پھر دنیا کو پروپیگنڈہ کی زد میں لیکر یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ شام سے اگر امریکی افواج نکل جاتی ہیں تو داعش اس سے فائدہ اُٹھا کر اپنے کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرسکتی ہے، میدان جنگ میں شکست کھانے کے باوجود داعش کے بچے کھچے اراکین مجتمع ہو کر دوبارہ ایک بڑے خطرے کی صورت اختیار کرسکتے ہیں، حالانکہ داعش کو شکست امریکہ نے نہیں دی بلکہ عراق اور شام کی مخلص اور محب وطن قوتوں نے انقلاب اسلامی کے زیرسایہ مزاحمتی بلاک نے دی ہے۔ سیاسی طور پر اب انہی قوتوں کو فائدہ ہوگا، اسی لیے شام سے امریکی افواج کے نکل جانے پر مزاحمتی بلاک خوش ہے، کیونکہ امریکہ شام میں داعش کے خلاف کارروائیاں کرنے کی بجائے بشار الاسد کی حکومت کی مخالفت اور ترک مخالف کرد ملیشیا کی حمایت کر رہا تھا۔

افغانستان سے انخلاء کا معاملہ بھی اسی سے ملتا جلتا ہے۔ کیونکہ سالِ نو کا آغاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی سے ہوا تھا۔ عالمی سیاست اور سفارت کاری میں ’’ٹویٹ‘‘ کے استعمال کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی طرح دی ہے۔ وہ اپنے پیغامات روایتی اور باضابطہ ذرائع کے علاوہ ٹویٹ کے ذریعے بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ کے ذریعے پاکستان پر فردِ جرم عاید کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ نے 15 سال میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر دے کر بے وقوفی کی، اربوں ڈالر کی امداد کے بدلے اسلام آباد نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اسلام آباد ہمارے رہنمائوں کو احمق سمجھتا رہا۔ اس نے اُن دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کیے ہیں، جنہیں ہم افغانستان میں تلاش کرتے رہے ہیں اور انہیں ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پاکستان ہم سے معمولی تعاون کرتا رہا ہے، مگر اب ایسا نہیں چلے گا۔ سال کے اختتام پر منظرنامہ یہ ہے کہ اسی امریکی صدر نے جو صرف حکم دینے کا عادی ہے، وزیراعظم پاکستان عمران خان کو خط لکھ کر افغانستان میں آزادی کی جنگ لڑنے والے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی درخواست کی۔

اس بات کا سب سے پہلے انکشاف خود وزیراعظم پاکستان نے کیا تھا، جس کی بعد میں امریکی حکومت نے بھی تصدیق کر دی اور اب طالبان دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر مذاکرات کر رہے ہیں۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی اس وقت تک ختم نہیں کرے گا، جب تک اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ افغانستان کی سرزمین کو اس کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ افغانستان اور اس کے قرب و جوار میں ایک لمبے عرصے کے لئے فوجی لحاظ سے موجود رہنے کی تیاریاں کر رہا ہے اور امریکہ اس کی اشد ضرورت اس لئے بھی محسوس کرتا ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ خطہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے دن بدن اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ مل کر اس خطے کی سلامتی کیلئے خصوصی اقدامات کئے ہیں۔ شام سے امریکی فوج کے انخلاء اور افغانستان سے امریکی افواج کی آدھی تعداد کو واپس بلانے کے اقدامات کو ان دونوں علاقوں میں امریکی حکمت عملی میں ایک ایڈجسٹمنٹ تو قرار دیا جا سکتا ہے، مگر جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں بنیادی تبدیلی قرار نہیں دیا جا سکتا۔  
خبر کا کوڈ : 768664
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش