0
Friday 28 Dec 2018 01:50

بینظیر بھٹو کی 11ویں برسی کے مرکزی اجتماع میں بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا مکمل متن

بینظیر بھٹو کی 11ویں برسی کے مرکزی اجتماع میں بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا مکمل متن
رپورٹ: ایس حیدر

گزشتہ روز 27 دسمبر کو سابق وزیراعظم اور چیئرپرسن پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کی 11ویں برسی کے موقع پر اندرون سندھ کے علاقے گڑھی خدا بخش میں منعقدہ مرکزی اجتماع عام سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری نے مخالفین کو خوب للکارا۔ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کا مکمل متن قارئین کیلئے پیش ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نعرہ تکبیر اللہ اکبر۔۔۔ نعرہ رسالت یا رسول اللہ۔۔۔ نعرہ حیدری یا علیؑ
نعرہ بھٹو


وقت کے گذرنے پر تم جو بھول جاؤ گے، ہم تمہیں بتائیں گے بے نظیر کیسی تھی، زندگی کے ماتھے پر وہ لکیر جیسی تھی، ظلم کے نشانے پر ایک تیر جیسی تھی، بینظیر بھٹو بس بے نظیر جیسی تھی۔

اس ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں آپ سب کو میرا سلام، آج اس تاریخ دن کو، اس تاریخ لمحے کو، جس روز میری ماں اور آپ کی بی بی کو ہم سے چھینا گیا، شہید کیا گیا، 11 سال بیت چکے ہیں، میرے لئے ان کی جدائی کے لمحات کو الفاظ کی شکل میں بیان کرنا، ان حسین یادوں کو بھلانا، اس درد کو سمیٹنا اور اس خلا کو پُر کرنا، جو ان کی شہادت کے بعد پیدا ہوا، ناممکن ہے، زندگی کے اس کٹھن سفر میں اگر میرے لئے کوئی امید ہے، کوئی سرمایہ ہے، تو وہ بی بی شہید کے جانثار ہیں، بی بی شہید کے کارکن ہیں، جو ان کی شہادت کے 11 سال گزرنے کے باوجود آج یہاں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوئے ہیں، اس ملک کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے بی بی شہید کے بھائی اور بہنیں ہیں، جو آج بھی بی بی شہید کی یادوں کے دیپ جلائے بیٹھے ہیں۔

ساتھیو!
میں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 2016ء سے جس سیاسی سفر کا آغاز کیا، اس مقصد اور اس کی منزل صرف اور صرف بی بی شہید کے اس قوم سے کیے ہوئے وعدوں کو نبھانا ہے، مساوات کے اس خواب کو پورا کرنا ہے، جس کو پورا کرنے کیلئے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جان دی اور معاشرے سے استحصال کو ختم کرنا ہے، جس نے اس ملک کے غریب عوام اور سفید پوش طبقے کو جکڑ رکھا ہے۔

لیکن دوستو!
مجھے اندازہ نہ تھا کے صرف ان 2 سالوں میں کس طرح میرے سامنے دیواریں کھڑی کی جائینگی، کس طرح میری راہ میں کانٹے بکھیرے جائینگے اور کس طرح میری ذات پر حملے کیے جائینگے۔ لیکن شاید اہلِ یذید کو اس چیز کا اندازہ نہیں کہ اس بلاول کی رگوں میں بھی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا خون دوڑ رہا ہے، شہید ذوالفقار علی بھٹو کا خون دوڑ رہا ہے اور آج میں شہیدوں کے مزار کے سامنے کھڑا ہو کر ان تمام قوتوں کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ قسم ہے مجھے اس شہیدوں کے لہو کی، قسم ہے مجھے ان شہید کی قربانی کی اور قسم ہے گڑھی خدا بخش کی اس مقدس مٹی کی، میں تم سے لڑونگا، تمہاری سازش سے لڑونگا، تمہارے جھوٹ سے لڑونگا، میں تمہارے ہر ظلم کے آگے ڈٹ جاؤنگا اور تمہارے غرور کو پاش پاش کر دونگا۔

ساتھیو!
شاید اس سلیکٹڈ وزیراعظم کو اس چیز کا اندازہ ہی نہیں کہ اس وقت وفاق کی بنیادیں کتنی کمزور ہو چکی ہے اور ایک چنگاری سب کچھ راکھ کے ڈھیر میں بدل سکتی ہے، کیا وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں نوجوانوں کی ایک تحریک زور و شور سے اٹھ کھڑی ہوئی ہے، کیوں اس تحریک میں لوگ جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں۔ میں 2 سال سے کہتا آرہا ہوں کہ ان نوجوانوں کو دیوار سے مت لگاؤ، ان کی بات کو سنو، ان کا گلا مت گھوٹو، لیکن مجال ہے کہ اس ملک کے ٹھیکیداروں کو کوئی احساس ہوا ہو۔ میں پوچھتا ہوں کے کیا وجہ ہے کہ مہینوں سے کوئٹہ میں کھلے آسمان تلے بیٹھی میری سینکڑوں بلوچ ماؤں اور بہنوں کے مطالبات نہیں سنے جا رہے۔ ان کے پیارے سالوں سال سے کیوں لاپتہ ہیں۔ اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کیا جا رہا۔ لیکن مجال ہے کہ اس ملک کے ٹھیکیداورں کو کوئی احساس ہو، میں پوچھتا ہوں کہ کیا وجہ ہے کہ تین صوبائی صوبائی اسمبلیوں سے کالاباغ ڈیم کے خلاف قرارداد منظور ہونے کے باوجود کالاباغ ڈیم بنانے کیلئے مہم چلائی جا رہی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ سندھ کے مفادات اور اعتراضات کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا جا رہا ہے، لیکن مجال ہے کہ اس ملک کے ٹھیکیداروں کو کوئی احساس ہو۔

میں پوچھتا ہوں کہ کیوں گلگت بلتستان سے سوتیلا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اگر وہاں پر ایف سی آر (FCR) کا خاتمہ ہوا، تو پاکستان پیپلز پارٹی نے کیا، اگر وہاں پر پہلی دفعہ وزیراعلیٰ اور اسیمبلی وجود میں آئی، تو پاکستان پیپلز پارٹی نے دی، پر کیوں گلگت بلتستان 70 سالوں سے سرزمین بے آئین ہے۔ وہاں کے عوام اب شاید زیادہ عرصہ بے انصافی نہ برداشت کریں، لیکن مجال ہے کہ اس ملک کے ٹھیکیداروں کو کوئی احساس ہو، اور تو اور جناب میں پوچھتا ہوں کہ میاں صاحب کو سزا دلوانے کے بعد جو نعرے پنجاب میں لگے، اس کا کوئی تصور بھی کر سکتا تھا۔ جس طرف نظر دوڑائیں، غم اور غصے کی ایک لہر ہے، لیکن مجال ہے کہ اس ملک کے نام نہاد ٹھیکیداوروں کو کوئی فکر ہو، وہ تو اپنی طاقت کے نشے میں مست ہے، دیکھنے سے قاصر ہے کہ ملک ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔

دوستو!
آج ملک کی بھاگ دوڑ ایک ناتجربہ کار کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے، یہ کیسا وزیر اعظم ہے کہ جس کو اپنے وزیراعظم ہونے کا بیوی سے پتا چلتا ہے اور روپے کے گرنے کا ٹی وی سے پتا چلتا ہے، اس نے پہلے 100 دنوں میں ملک کو مہنگائی کی سونامی میں ڈبو دیا، ملک کی معیشت کو ایسے نہج پر لاکھڑا کیا کہ جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا، ایک کروڑ نوکری اور 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کرنے والے نے مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان اٹھا دیا ہے، نام نہاد تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر لاکھوں غریب اور سفید پوش پاکستانیوں کو گھر کی چھت سے محروم کر دیا ہے، بجلی مہنگی، گیس مہنگی، مہنگی ہوئی روٹی اور نان، یہ ہے خان کا نیا پاکستان، اور پوری قوم یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی کے بعد آر ٹی ایس (R.T.S) کو فیل کرانے کے بعد نتائج 3 دن تک روکنے کے بعد، 95ویں فیصد فارم 45 غائب کرنے کے بعد، عوام کے ووٹ چوری کرنے کے بعد، الیکشن میں سب سے بڑی دھاندلی کرنے کے بعد، جو کھلی تو اصغر خان کیس سے بھی بڑا اسکینڈل بنے گا، اگر خان صاحب کو حکومت دینی ہی تھی، تو تھوڑی تیاری ہی کرا دیتے، آپ نے بے نامی اکاؤنٹس کی تحقیقات تو کی، اگر ہمت ہے تو بے نامی وزیراعظم کی تحقیقات کرو، اس کو یہ تو سکھا دیتے کہ کرکٹ کے کھیل میں اور حکومت کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس کو یہ تو سمجھا دیتے کہ مرغی اور انڈوں سے قوم کی تقدیریں نہیں بدلی جا سکتی، ملک اور قوم کی تقدیر بدلنے کیلئے ثابت قدم ہونا پڑتا ہے، اپنے وعدے پورے کرنا ہوتے ہیں، قربانی دینی پڑتی ہے، اور انفرادی کے بجائےِ اجتمائی سوچ رکھنی ہوتی ہے، لیکن خان صاحب تو کہتے ہیں کے یوٹرن (U-Turn) لینا عظیم لیڈرز کی نشانی ہوتی ہے، خان صاحب آپ کو یہ عظمت مبارک ہو۔ ذرا نظر دوڑا کر دیکھیں، اس مزار میں وہ لوگ دفن ہیں، جنہوں نے جان کی قربانی تو دے دی پر یوٹرن (U-Turn) نہیں لیا۔

لیکن ساتھیو!
میں سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کو لانے کا اصل مقصد کچھ اور ہے، عمران تو وہ کٹھ پتلی ہے، جو اس ملک کو ون یونٹ (One-Unit) بنانا چاہتا ہے اور ملک میں ایک جماعتی نظام (One Party Rule) لانا چاہتے ہیں، وہ ملک میں 18ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو ملنے والے حقوق ختم کرنا چاہتے ہیں، وہ این ایف سی (NFC) کے ذریعے صوبوں کو ملنے والے مالی اختیارات واپس لینا چاہتے ہیں، وہ صوبوں کے قدرتی وسائل جیسے کہ گیس اور معدنیات پر وفاق کا قبضہ چاہتے ہیں اور وہ ملک میں ون یونٹ (One-Unit) نظام کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں، ہم پر دباؤ اس لیے ڈالا جا رہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں 18ویں ترمیم ختم کرنے میں ان کا ساتھ دوں، وہ چاہتے ہیں کہ میں عوام کے حقوق کا سودا کروں، وہ چاہتے ہیں کہ میں غریبوں کی بات نہ کروں اور ان سے غداری کروں۔

 ہم نے ایوب کا سیاسی انتقام اور جیلیں دیکھی ہیں، تم کس کھیت کی مولی ہو؟ تمہاری کیا حیثیت ہے، تم تو صرف ایک کٹھ پتلی ہو، تمہاری ڈوریں تو کوئی اور ہلا رہا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے، یہاں تک کہ غیر جانبدار حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ یہ کیا احتساب ہے، جس کا نشانہ صرف اور صرف اپوزیشن کے رہنما ہیں۔ کیوں حکومتی وزیر، وزیراعظم اور اس کا خاندان اس سے بالاتر ہے، نیب کی پھڑتیاں صرف اپوزیشن کو گرفتار کرنے کیلئے کیوں ہیں، یہ کیسا نیب ہے کہ پروفیسرز کو تو ہتھکڑیاں لگا کر پیش کیا جاتا ہے، انہیں زیرِ حراست ہلاک کر دیا جاتا ہے اور علیمہ خان اور علیم خان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی، اور یہ جو مذاق ہمارے ساتھ کر رہے ہیں، ایک تو میں واضح کر دوں کہ یہ جے آئی ٹی (JIT) رپورٹ جھوٹ جھوٹ اور سفید جھوٹ ہے۔ نہ میں اس کو مانتا ہوں اور نہ ہی اس ملک کی عوام اس کو مانتی ہے۔

معزز عدالت کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، معزز عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، معزز عدالت کو Political Engineering کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر مجھے یقین ہے کہ معزز عدالت اس جھوٹی جے آئی ٹی (JIT) رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے۔ یہ تو چلے تھے منی لانڈرنگ کیتفتیش کرنے اور ڈھونڈ کے لے آئے لانڈری (Laundry) والا۔ یہ کیسا نظام ہے کہ شہید پولیس افسر ایس پی طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغوا کرنے اور مارنے والوں کا تو سراغ نہیں ملتا، لیکن میرے ناشتے کا بل بھی مل جاتا ہے۔ یہ کیسا نظام ہے کہ FIA سالہا سال سے پڑے اصغر خان کیس کی تو تفتیش نہیں کرتی، جہانگیر ترین کے باورچی اور مالی کی جائیداد پر JIT نہیں بناتی، لیکن ہمارے صدقے کے بکروں اور دھوبی کا بھی حساب لیا جاتا ہے۔ میرے اوپر وہ کیس ڈالے جا رہے ہیں کہ جب میں ایک سال کا تھا۔ دوسرا کیس وہ ڈالا جا رہا ہے کہ جب میں 6 سال کا تھا۔ اگر میں اتنا تیز بچہ تھا، تو مجھے تو ستارہ امتیاز ملنا چاہیے تھا، اور یہ مجھے نوٹسز بھیج رہے ہیں۔

آج پھر صدر زرداری کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔ پہلے ہی 11 سال جیل میں گزارے ، ان کیسز کا کیا بنا؟
ٹانگ پر بم لگانے کے کیس کا کیا ہوا؟
باعزت بری ۔۔۔
ARY Gold کے کیس کا کیا ہوا؟
باعزت بری۔۔۔
منشیات کے کیس کا کیا ہوا؟
باعزت بری۔۔۔
BMW کے کیس کا کیا ہوا؟
باعزت بری۔۔
پولو گراؤنڈ کے کیس کا کیا ہوا؟
باعزت بری۔۔۔
خون کے کیس کا کیا ہوا؟
باعزت بری۔۔
انشاء اللہ اس بار بھی باعزت بری ہی ہوں گے۔ اور تو اور ہماری گھر کی عورتوں پر بھی کیسز بنائے جا رہے ہیں۔ آج ہماری تیسری نسل کو جھوٹے کیسز میں عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ مگر ہمیں انصاف کب ملے گا، بھٹو شہید کے عدالتی قتل کا انصاف کب ملے گا، بی بی کے قاتلوں کو کب کٹھرے میں کھڑا کیا جائے گا، بی بی شہید کے قتل کا انصاف کب ملے گا۔

وہ قوم کی بیٹی تھی۔
وہ قوم کی لیڈر تھی۔
وہ 11 سال بعد آج بھی انصاف کی منتظر ہے۔
وہ لڑکی لعل قلندر تھی۔
جو قریہ قریہ ماتم ہے اور بستی بستی آنسو ہے۔
صحرا صحرا آنکھیں ہیں اور مقتل مقتل نعرے ہیں۔
وہ سنگ ستاروں کو لیکر، وہ چاند چمکتا نکلے گا۔
جو قتل ہوئی، وہ خوشبو ہے، تم کتنا راستہ روکو گے۔
وہ عورت تھی یا جادو تھی، جو سر پر چڑھ کر بولے گی۔
ہر زنداں کے ہر مقفل کو، وہ چابی بن کھولے گی۔
اور شور ہواؤں کا بن کر، وہ آنگن آنگن بولے گی۔
تم زندہ ہو کر مردہ ہو، وہ مردہ ہو کر زندہ ہے۔
تم خاکی وردی والے ہو، یا کالی داڑھی والے ہو۔
تم نیلے پیلے اُودے ہو، یا گورے ہو یا کالے ہو۔
تم اپنے ہو پرائے ہو، یا ادھیاروں کے پالے ہو۔
وہ شام شفق کی آنکھوں میں، وہ سوہنی سکھ سویروں کی۔
وہ دُکھی دیس کی کوئل تھی، یا تھر میں برکھا ساون تھی۔
وہ پیاری ہنسی بچوں کی، یا موسم لُڈیاں پاون تھی۔
تم کالی راتیں چوروں کی، وہ پنکھ پکھیرُو موروں کی۔
وہ بہن کسانوں کی پیاری، وہ بیٹی مل مزدوروں کی۔
وہ قیدی تھی زندانوں کی، عیاروں کی، سرداروں کی، جرنیلوں کی، غداروں کی۔
وہ ایک نہتی لڑکی تھی، اور پیشی تھی درباروں کی۔
وہ بیٹی تھی پنجابوں کی، خیبر کی، بولانوں کی۔
وہ سندھ مدینے کی بیٹی، وہ نئی کہانی کربل کی۔
وہ خون میں لت پت پنڈی میں، بندوقیں تھیں، بم گولے تھے۔
وہ تنہا پیاسی ہرنی تھی، اور ہر سُو قاتل ٹولے تھے۔
رُت چناروں سے کہنا، وہ آنی ہے، وہ آنی ہے۔
وہ سندر خواب حقیقت بن کر، چھا جانی ہے، چھا جانی ہے۔
وہ بھیانک سپنا آمر کا۔
وہ دریا دیس سمندر تھی، جو تیرے میرے اندر تھی۔
وہ سُوندہی مٹی سندھڑی کی، وہ لڑکی لعل قلندر تھی، وہ لڑکی لعل قلندر تھی، وہ لڑکی لعل قلندر تھی۔
تم زندہ ہو کر مردہ ہو، وہ مردہ ہو کر زندہ ہے۔
تم کتنے بھٹو مارو گے، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔

ساتھیو!
یہ کہتے ہیں کہ صدر زرداری نے یہ کیا، وہ کیا، میں مانتا ہوں کہ صدر زرداری کے جرائم کی فہرست طویل ہے، ان کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ بی بی کی شہادت کے بعد پاکستان جل رہا تھا اور سندھ سے ایک نعرہ اٹھا تھا، تو انہوں نے پاکستان کھپے کا نعرا لگایا۔
ان کا جرم یہ تھا کہ نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد صدر زرداری نے بلوچ عوم سے ان گناہوں کی معافی مانگی، جو ایک فوجی آمر نے کیے تھے۔
ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے آغازِ حقوق بلوچستان کیا۔
ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے سنگاپور سے گوادر پورٹ لیکر چائنہ کو دی، جس سے سی پیک (CEPC) جیسا عظیم منصوبہ شروع ہوا۔
ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے 18ویں ترمیم کرکے 1973ء کے آئین کو اصل شکل میں بحال کیا۔
ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے جو ملک گندم درآمد کرنے پر مجبور تھا، اسی ملک کو ایک سال میں گندم برآمد کرنے والا ملک بنا دیا۔
ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے تاپی اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن جیسے منصوبے شروع کیے، اگر یہ منصوبے مکمل کرنے دیئے جاتے، تو آج یہ گیس کا بحران نہ ہوتا۔
ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے کشکول لیکر گھومنے کے بجائے ایڈ (Aid) نہیں ٹریڈ (Trade) کی بات کی۔
ان جرائم کی فہرست بہت طویل ہے، مگر صدر زرداری کا عزم صرف یہ ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے وعدوں کو تکمیل کرنا ہے اور آج میں آپ سے کہتا ہوں کہ آؤ آج گڑھی خدا بخش کے اس میدان میں ہاتھ اٹھا کر اسی عزم کا پھر اظہار کریں، اپنے آپ کو ایک نئی لڑائی کیلئے تیار کریں، وہ لڑائی، جو لڑتے لڑتے بھٹو شہید نے پھانسی کا پھندا چوما، وہ لڑائی جو لڑتے لڑتے، بی بی شہید نے اپنی جان قربان کر دی، ہم اسی لڑائی کو جاری رکھیں گے، اور میں یہ لڑائی اگلے مورچوں پر خود لڑونگا۔

بولو! تم میرا ساتھ دو گے؟
میرے ساتھ لڑو گے؟
میرے ساتھ جدوجہد کرو گے؟
ہم اس ملک کو کٹھ پتلیوں سے نجات دلائینگے۔
آؤ ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے پرچم تلے اکٹھا ہو کر ان غیر جمہوری قوتوں کا مقابلہ کریں،
ہم اس ملک کی جمہوریت پر ہر حملہ روکیں گے،
ہم اس ملک کے اداروں پر ہر حملہ روکیں گے،
ہم عوام پر ہر حملہ روکیں گے،
ہم صوبائی خودمختاری پر ہونے والا ہر حملہ روکیں گے،
ہم آزادیِ اظہار پر ہونے والا ہر حملہ روکیں گے،
ہم 18ویں ترمیم پر ہونے والا ہر حملہ روکیں گے۔

ساتھیو!
ہمیں ہر دور میں عدالتوں میں گھسیٹا گیا، جھوٹے مقدمے بنائے گئے، ہمیں رسوا کیا گیا، ہم کل بھی ان عدالتوں میں پیش ہوئے تھے، ہم آج بھی ان عدالتوں میں پیش ہوں گے، ہم ناصرف ان عدالتوں میں پیش ہوں گے، بلکہ ہم عوام کی عدالت میں بھی جائیں گے، ہم پہلے بھی سرخرو ہوئے تھے، ہم اب بھی سرخرو ہونگے، کیونکہ ہم نے بھٹو شہید کا پرچم تھاما ہوا ہے، ہم نے بی بی شہید کا علَم اپنے ہاتھ میں اٹھایا ہے،ہ م ان ظالموں کا مقابلہ کریں گے، جن کا مقابلہ بھٹو شہید نے کیا، ہم ان طاقتوں کا مقابلہ کریں گے، جن کا مقابلہ بی بی شہید نے کیا، اور آخری فتح ہماری ہوگی، کیونکہ آخر میں فتح صرف حق اور سچ کی ہوتی ہے۔

اس دور کے رسم رواجوں سے، ان تختوں سے ان تاجوں سے،
جو ظلم کی کوکھ سے جنتے ہیں، انسانی خون سے پلتے ہیں،
جو نفرت کی بنیادیں ہیں اور خونی کھیت کی کھادیں ہیں،
وہ باغی تھی، میں باغی ہوں، جو چاہے مجھ پر ظلم کرو،
وہ جن کے ہونٹ کی جنبش سے، وہ جن کی آنکھ کی لرزش سے،
قانون بدلتے رہتے ہیں اور مجرم پلتے رہتے ہیں،
ان چوروں کے سرداروں سے، انصاف کے پہرے داروں سے،
وہ باغی تھی، میں باغی ہوں، وہ باغی تھی، میں باغی ہوں، جو چاہے مجھ پر ظلم کرو،
مذہب کے جو بیوپاری ہیں، وہ سب سے بڑی بیماری ہیں،
وہ جن کے سوا سب کافر ہیں، جو دین کا حرفِ آخر ہیں،
ان جھوٹے اور مکاروں سے، مذہب کے ٹھیکیداروں سے،
وہ باغی تھی۔ میں باغی ہوں، وہ باغی تھی، میں باغی ہوں، جو چاہے مجھ پر ظلم کرو،
میرے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہے، میرے سر پر ظلم کا پھندا ہے،
میں مرنے سے کب ڈرتا ہوں، میں موت کی خاطر زندہ ہوں،
میرے خون کا سورج چمکے گا۔ تو بچہ بچہ بولے گا،
وہ باغی تھی، میں باغی ہوں، وہ باغی تھی، میں باغی ہوں، جو چاہے مجھ پر ظلم کرو۔
خبر کا کوڈ : 768981
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش