0
Saturday 29 Dec 2018 00:02

آزادی کے رونے میں اقلیتی نمائندے کی امریکی بولی

آزادی کے رونے میں اقلیتی نمائندے کی امریکی بولی
تحریر: عمران خان

بھارت میں اس شخص کو مسلمانوں کا کتنا ہمدرد اور غمگسار تصور کیا جائے گا کہ جو نئی دہلی، گجرات، یوپی یا کرناٹک کے کسی علاقے میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کرے کہ ہمارے مذہب میں چونکہ گائے حلال ہے، اس کی قربانی ہمارے مذہبی عقائد کا حصہ اور باعث ثواب ہے لہذا ہمیں برسرعام گائے ذبح کرنے کی نہ صرف اجازت دی جائے بلکہ اس کے خلاف آنے والے عوامی ردعمل کو روکنے اور تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری بھی حکومت سر انجام دے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں اقلیت مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ جہاں ٹرین میں معمولی سے توں تکرار پہ درجنوں افراد ملکر پانچ نوجوانوں کو شدید تشدد کے بعد یہ بہانہ تراش کے موت کے گھاٹ اتار دیں کہ ان کا جرم گائے کی شان میں گستاخی تھا۔ جہاں لڑکی کے انکار پہ متعدد اوباش غریب کے گھر میں گھس کر پوری فیملی کو یہ کہہ کر کاٹ دیں کہ یہ بڑے کا گوشت پکا رہے تھے یا جس معاشرے میں پجاری اپنی ہوس پوری نہ کرنے والی اقلیتی خاتون کو بھگوان کی بیحرمتی کا مرتکب قرار دیکر زندہ جلانے کی سزا سنائے۔

ایسا معاشرہ جہاں اکثریتی آبادی کا بحیثت مجموعی یہ مزاج بنا دیا جائے کہ وہ اپنے ہر بے ضرر ذاتی مخالف کو مذہب کیلئے ضرر رساں قرار دینے پہ آمادہ ہو اور من مطلب کی سزا سنانے کا آرزمند، اس معاشرے میں اقلیتی نمائندگی کا لبادہ اوڑھ کر کوئی شخص عوام کے بیچوں بیچ میڈیا کے سامنے گلا پھاڑ کے ایسا مطالبہ کرے، ایسی خواہش کا اظہار کرے کہ جس سے پورے معاشرے کی دل آزاری ہو یا مذہبی، مسلکی مقدسات کی بیحرمتی کارنگ غالب ہو تو یقینی طور پر اس کا یہ مطالبہ، یہ خواہش اپنی قوم اور انتظامیہ کو ایک نئے امتحان میں جھونکنے کی کوشش ہی قرار پائے گی۔ بھارت میں اس نوع کی کسی بھی پریس کانفرنس کا نتیجہ مزید کئی بے گناہ مسلمانوں کے قتل، درجنوں خواتین کی آبروریزی یا مسلمان تاجروں کے معاشی قتل کی صورت میں برآمد ہو گا۔ اس کے باوجود کہ بھارت کے آئین و قانون میں نہ کہیں گائے کی حرمت کا ذکر ہے اور نہ ہی گائے کو ذبح کرنا یا اس کا گوشت کھانا جرم ہے۔ (چندریاستوں کو چھوڑ کر کہ جہاں گائے کو گزند پہنچانا قانوناً جرم ہے)۔ 

بھارت کو چھوڑیں آپ امریکہ، یورپ سمیت کسی بھی مغربی ملک میں کہ جہاں آزادی اظہار رائے کا نام نہاد طوطی بولتا ہے کہ جہاں اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں دیگر مذاہب بالخصوص مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ کرنے یا سستی شہرت کے حصول کیلئے مقدسات کی توہین کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا، ان ممالک میں بھی آپ ریاست یا حکومت سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کر سکتے کہ جس سے نقص امن کا خطرہ ہو یا وہاں کے اکثریت کے جذبات مشتعل ہوں۔ مثلاً اس معاشرے میں ایک ذہنی مریض قرآن مجید کی بیحرمتی کا اعلان کرے تو اسے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں ریاست تحفظ فراہم کرتی ہے تاہم اسی نام نہاد آزاد معاشرے میں اگر کوئی تاریخ کا طالب علم نظریہ ہولو کاسٹ کی ہیئت اور اس کی ماہیت پہ تحقیق کی کوشش کرے، یا اسی نظریہ کی مخالفت میں حقائق بیان کرے تو نہ صرف اس پہ عدالتی کاروائی ہوتی ہے بلکہ نقد جرمانہ یا پھر قید کی سزا بھی اس کو بھگتنا پڑتی ہے۔ اس وقت یورپ کے بہت سے ملکوں میں ہولو کاسٹ کے انکار یا اس کو مبالغہ آمیز قرار دیئے جانے کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔

آسٹریا، بلجیم، جمہوریہ چک، فرانس، جرمنی، لیتھوانیا، پولینڈ، رومانیہ، سلواکیہ اور سوئزرلینڈ وہ یورپی ممالک ہیں جن میں ہولو کاسٹ کے انکار کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ اسی لئے اب تک ان ملکوں میں بہت سی علمی سیاسی اور سماجی شخصیات کو ہولو کاسٹ پر تنقید کرنے کی وجہ سے سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2006ء میں برطانیہ کے مورخ ڈیوڈ ارونگ کو ہولو کاسٹ پر تنقید کرنے کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اسی طرح فرانسیسی محقق راجر گارودی کو بھی ہولو کاسٹ پر تنقید کرنے کی بنا پر سزائے قید کا سامنا کرنا پڑا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مغرب جیسا آزاد معاشرہ بھی ایسی متنازعہ بحث کو قبول کرنے سے انکاری ہے کہ جس سے شہریوں کو دل آزاری ہو، نقص امن کا خطرہ ہو، اس کے نتیجے میں کسی کمیونٹی کے خلاف کوئی خاص ردعمل آنا متوقع ہویا وہ بحث براہ راست ان کے کسی خاص نظریہ سے متصادم ہو،جیسا کہ ہولو کاسٹ۔ 

مشرق وسطیٰ، عرب ممالک، افریقہ، وسطی ایشیا یا برصغیر کے ممالک میں مزید ایسی مثالیں ڈھونڈنے کے بجائے براہ راست وطن عزیز کی بات کرتے ہیں کہ جس کا نام گزشتہ دنوں امریکہ نے اس کالی فہرست میں شامل کیا کہ جس میں اقلیتوں کو مذہبی حقوق فراہم نہ کرنے والے ممالک کے نام شامل ہیں۔ یقیناًامریکہ کا یہ عمل عدل و انصاف کے عالمی پیمانوں سے 180درجے کے زاویے پہ مبنی تھا۔ پاکستان نے اس امریکی اقدام کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اور سخت ردعمل دیا، جس کے فوراً بعد امریکہ نے پاکستان کا نام اس فہرست سے خارج کر دیا۔ اس معاملے کے اگلے ہی دن وفاقی دارالحکومت میں امریکی موقف کی حمایت اور حکومت پاکستان، نظریہ پاکستان اور کروڑوں پاکستانیوں کے نظریاتی و اخلاقی موقف کے خلاف ایک بھرپور کانفرنس کی گئی، جس کا اہتمام و انتظام اقلیتی تنظیم کی جانب سے کیا گیا۔ 

پاکستان کرسچن نیشنل پارٹی کے چیئرمین ایم اے جوزف فرانسس نے نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے بنیادی حقوق پامال کئے جا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے حقو ق کے لئے آواز نہیں اٹھا سکتے۔ ہمیں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرنے کے لئے اسرائیل جانے کی اجازت دی جائے۔ مسیحی قوم گزشتہ 71 سال سے بے شمار معاشرتی، معاشی اور مذہبی استحصال اور محرومی و محکومی کا شکار ہے۔ اگر فرانس، جرمنی اور انگلینڈ صدیوں کی جنگ کے بعد اکٹھے ہو سکتے ہیں تو اسرائیل اور پاکستان میں اختلافات بھی ختم ہو سکتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے ملکی خارجہ پالیسی کو بہتر اور موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ پاکستان کے مسیحیوں کا حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کئے جائیں۔

اس پریس کانفرنس کے بنیادی نکات آپ کے سامنے ہیں، یہاں مقدمہ فلسطین پیش کرنا مقصود نہیں ہے، نہ ہی یہ بحث کرنا مطلوب ہے کہ پاکستان اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کرتا اور پاکستان کے اس اصولی موقف کی بنیاد کیا ہے، نہ ہی مصور پاکستان، بانی پاکستان کے فرمودات، ارشادات پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ یہ پریس کانفرنس پاکستان میں موجود مسیحی برادری کے حقوق کی آواز ہے یا پاکستان میں متحرک اسرائیلی لابی کا اظہار۔ یہ پریس کانفرنس مسیحی برادری کو درپیش مسائل حل کرنے میں معاون و مددگار یا انہیں ایک اور امتحان میں جھونکنے کی کوشش۔؟ کرسمس کو گزرے دو دن ہوئے ہیں۔ اس الزام کے باوجود کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی جاری ہے، کرسمس کو پورے ملک میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پہ شاندار طریقے سے منایا گیا۔

پاکستان کے دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں بھی موجود گرجا گھر آباد ہوئے، خصوصی دعائیہ تقریبات منعقد ہوئیں۔ پاک فوج اور ضلعی حکومتوں کے زیراہتمام گرجا گھروں اور کمیونٹی سنٹرز میں مسیحی برادری کی تقریبات منعقد ہوئیں، جن میں حکومتی و سرکاری عہدیداران نے غیر معمولی شرکت کی۔ کرسمس پہ اس شاندار اہتمام کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ کہ پاکستان میں بھی توہین مذہب کا الزام ایک ہتھیار کے طور پر مذہبی اقلیت کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ کہیں اس الزام کا شکار اینٹوں کے جلتے بھٹے میں جل بھن جاتے ہیں تو کہیں پورا کا پورا علاقہ آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ کبھی اس ہتھیار کے ذریعے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی پجاری کی طرح یہاں کا مولوی اپنی تسکین کا سامان نہ ہونے پہ اقلیتی خواتین کو واجب القتل قرار دینے سے دریغ نہیں کرتا۔ اب ایسے معاشرے میں کہ جسے پہلے ہی اقلیتوں کیلئے غیر محفوظ ہونے کے الزام کا سامنا ہے۔

اقلیتی نمائندگی کا لباس پہن کر ایک شخص پرہجوم پریس کانفرنس میں مطالبہ کرے کہ جس سے کروڑوں پاکستانیوں کے نظریاتی اور کسی حد تک مذہبی جذبات مجروح ہوں، ایسی خواہش کا اظہار کرے کہ جس سے مصور پاکستان، بانی پاکستان اور پاکستان کے دیگر معماروں کے دوٹوک موقف کی توہین ہو تو کیا اس نام نہاد اقلیتی نمائندہ کو اپنی قوم کا ہمدرد، مخلص، غمگسار قرار دیا جا سکتا ہے۔؟ یقیناً نہیں۔ نیز ایسا شخص کیا کسی کمیونٹی کی نمائندگی کا حقدار ہے کہ جو اپنے مفاد کی روٹی سینکنے کیلئے اپنی ہی کمیونٹی کی مشکلات میں اضافے کا سامان کرے اور آ بیل مجھے مار کے مصداق اپنی ہی کمیونٹی کو نئی آزمائش سے دوچار کرے۔ اقلیتی حقوق کی آڑ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسا حساس مطالبہ بھارت میں نئی دہلی کی سڑکوں پہ گائے کا گوشت بیچنے کا حق مانگنے یا یورپ میں ہولوکاسٹ پہ غیر جانبدارانہ تحقیق کا مطالبہ کرنے کے مترادف ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کو بھی بیرونی ایماء پہ جاری ایسی چنگاری بھری شرارتوں کا بروقت سدباب کرنا چاہیئے کہ جو لوگوں کے جذبات برانگیختہ کرنے کی کوششوں پہ مشتمل ہوں۔
خبر کا کوڈ : 769101
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش