0
Sunday 30 Dec 2018 23:30

مذہبی رہنماوں کا دورہ شمالی وزیرستان، غلطی کہاں ہوئی؟

مذہبی رہنماوں کا دورہ شمالی وزیرستان، غلطی کہاں ہوئی؟
رپورٹ: ایس اے زیدی
 
شمالی وزیرستان کا شمار کچھ عرصہ قبل عالمی سطح پر دہشتگردی کے حوالے سے جانے جانیوالے علاقوں میں ہوتا تھا، افغان بارڈر سے متصل اس علاقہ سے ہی 2005ء میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت دہشتگردی کیخلاف جنگ کا آغاز ہوا۔ یہ علاقہ افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک سمیت کئی افغان جنگجووں کی کمین گاہ بھی رہا، تحریک طالبان پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد شمالی وزیرستان اس گروہ کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر بھی جانا جاتا تھا۔ یہاں امریکی ڈرون طیاروں نے اپنے کئی مخالفین کو بھی اسی علاقہ میں نشانہ بنایا۔ تاہم آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد یہاں دہشتگردوں کیخلاف منظم فوجی کارروائی شروع کی گئی، بعدازاں آپریشن ردالفساد نے یہاں پائیدار امن کی بنیاد رکھی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی شمالی وزیرستان میں فورسز نے کئی کارروائیاں کیں، تاہم مستقل امن قائم نہ ہوسکا۔ کچھ عرصہ قبل پاک فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان کو دہشتگردوں سے مکمل طور پر پاک کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان کے تناظر میں 3 روز قبل بعض مذہبی رہنماوں اور علمائے کرام کو پرامن شمالی وزیرستان کا دورہ کرایا گیا۔
 
ان شخصیات میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، مولانا مفتی عبدالرحیم، امت واحدہ کے سربراہ علامہ امین شہیدی، شیعہ علماء کونسل کے مرکزی جنرل سیکرٹری علامہ عارف حسین واحدی، مفتی محمد نعیم، محمد راغب حسین نعیمی، سابق وفاقی وزیر مذہبی امور پیر محمد امین الحسنات شاہ، رکن اسلامی نظریاتی کونسل علامہ افتخار حسین نقوی، مولانا زاہد محمود قاسمی، مولانا فضل الرحمان خلیل اور محمد یاسین ظفر شامل تھے۔ جی او سی میجر جنرل ممتاز حسین نے اس وفد کو علاقے کی موجودہ صورتحال سے متعلق تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے وفد کو علاقے میں فوجی آپریشن، امن و استحکام اور تعمیر نو سے متعلق آگاہ کیا۔ مذہبی رہنماوں نے دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کے کردار کو خراج تحسین پیش کیا اور علاقے میں امن و امان اور ترقیاتی کاموں کے متعلق صورتحال کو خوش آئند قرار دیا۔ شمالی وزیرستان کا دورہ کرنے والی ان شخصیات میں تمام مکاتب فکر کی نمائندگی شامل تھی، تاہم حیران کن طور پر مذہبی شخصیات کے اس اہم وفد میں کالعدم فرقہ پرست اور انتہاء پسند جماعت سپاہ صحابہ کا سربراہ مولانا احمد لدھیانوی بھی شامل تھا، ایسے متنازعہ شخص کی پاک فوج جیسے پروفیشنل اور اہم ادارے کی میزبانی میں مذہبی وفد کے ہمراہ شمالی وزیرستان آمد نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
 
شیڈول فور میں موجود اس شخص کو پاکستان میں کسی مذہبی طبقہ کی نمائندگی حاصل نہیں اور نہ ہی یہ شخص کسی مسلک کی نمائندگی کرتا ہے، بلکہ یہ شخص مخصوص شدت پسندانہ اور فرقہ پرستی پر مبنی رجحانات رکھنے والے گروہ کا سرغنہ ہے، مولانا احمد لدھیانوی اور اس کی جماعت کے عزائم اور کرتوتوں سے کونسا پاکستانی واقف نہیں، اسی جماعت نے وطن عزیز میں فرقہ پرستی کی بنیاد رکھی، جس کی بھینٹ ہزاروں اہل تشیع اور اہلسنت بریلوی شہری چڑھے۔ مولانا احمد لدھیانوی کی ہی بات کی جائے تو یہی وہ شخص ہے، جس نے سرعام مخالف مسلک کیخلاف کفر کے نہ صرف فتوے دیئے بلکہ باقاعدہ بزور طاقت اس مسلک کے لوگوں کو نشانہ بنانے کی ترغیب دی۔ اسی شخص نے تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی جیسی دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں (خودکش حملوں اور بم دھماکوں) کو جواز فراہم کئے، افغان جہاد کی کھل کر حمایت کی۔ ایسا کردار رکھنے والے شخص کی ملک کی اہم مذہبی شخصیات کے ہمراہ شمالی وزیرستان کے علاقہ میرانشاہ اور میر علی آمد پاکستانی شہریوں خاص طور پر شہداء کے خانوادوں کیلئے انتہائی تکلیف دہ تھی۔
 
حیران کن امر یہ بھی ہے کہ جن مذہبی شخصیات کے ہمراہ مولانا احمد لدھیانوی کو اس دورہ پر لایا گیا، ان میں بعض وہ علمائے کرام بھی شامل ہیں، جو کالعدم سپاہ صحابہ جیسی تنظیم کے شدید مخالف شمار ہوتے ہیں، ان حضرات کا ایسے متنازعہ شخص کے ہمراہ یہاں آنا باعث تعجب ہے۔ علامہ محمد امین شہیدی، علامہ عارف حسین واحدی اور علامہ سید افتخار حسین نقوی اہل تشیع مکتب فکر کی نمائندگی کرنے والی معزز شخصیات سمجھی جاتی ہیں، ان تینوں شخصیات کا اس وفد میں شامل ہونا اور شمالی وزیرستان جیسے علاقہ کا یہ اہم دورہ کرنا بلاشبہ مثبت اقدام ہے، تاہم مولانا لدھیانوی جیسے متنازعہ شخص کے ہمراہ سفر کرنے پر سوشل میڈیا پر کافی بحث جاری ہے، اس حوالے سے علامہ امین شہیدی نے ایک وضاحتی بیان بھی جاری کیا، جو کہ اسلام ٹائمز کی زینت بن چکا ہے۔ اگر پاکستانی قوم کے مزاج کو دیکھا تو وہ دہشتگردوں اور فرقہ پرستوں کے حوالے سے زیرو ٹالرنس پر ہے۔ پاکستانی قوم بالخصوص مکتب اہل تشیع احمد لدھیانوی کی اس وفد میں شمولیت کو کسی طور قبول کرنے کو تیار نہیں۔ واضح ہو کہ ماضی قریب میں بھی جب اس تکفیری گروہ کو قومی اور سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں، اس وقت بھی ان کوششوں پر کافی عوامی تنقید سامنے آئی تھی۔
 
شمالی وزیرستان جیسے ماضی کے دہشتگردوں کے گڑھ کو کلیئر کروانا پاک فوج سمیت دیگر سکیورٹی اداروں کی بہت بڑی کامیابی ہے، اس علاقہ میں سب سے پہلے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کو دورہ کروانا بھی ایک خوش آئند امر ہے، تاہم اس وفد میں مولانا احمد لدھیانوی جیسے شخص کا شامل ہونا کسی طور پر درست نہیں، کیونکہ ہمارے ہزاروں شہریوں اور فورسز کے جوانوں نے اسی طرز فکر اور آئیڈیالوجی کیخلاف قربانیاں دی ہیں، جسکا تعلق مولانا لدھیانوی کی فکر اور ایجنڈے سے ہے، دوسری جانب اہل تشیع اور اہلسنت علمائے کرام کو بھی اس حوالے سے اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کروانے کی ضرورت تھی۔ اگر اس طرح کا کوئی قدم اٹھایا جاتا تو یہ ملک میں موجود تکفیری سوچ اور دہشتگردوں کے سہولت کاروں کیلئے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوتا۔ اب جبکہ حکومت، پاک فوج، علمائے کرام اور عوام دہشتگردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں اور ملک کو اس ناسور سے مکمل طور پر خاتمہ کیلئے پرعزم ہیں تو احتیاط سے فیصلے کرنا ہوں گے۔ دہشتگردوں اور امن پسندوں میں تفریق کرنی ہوگی، ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا، جن سے قومی سطح پر قائم ہونے والی یکجہتی اور یکسوئی کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔
خبر کا کوڈ : 769399
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش