0
Monday 31 Dec 2018 21:30

نیا عیسوی سال اور ہم

نیا عیسوی سال اور ہم
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

ہم سب جب آج کی شب سو کر کل  سویرے اٹھیں گے تو نئے سال کا نیا دن ہمارا استقبال کر رہا ہوگا، نئے سال سے واضح ہے کہ پچھلے بارہ مہینے ختم ہو گئے، اب آنے والے ان بارہ مہینوں کا آغاز ہو رہا ہے جنکے مجموعہ کو سال کہا جاتا ہے۔ نیا سال درحقیقت کلینڈر کی ابتداء کا دن ہے، چونکہ ہمارے دور  میں گریگوری کیلنڈر یا انگریزی کیلنڈر کے حساب سے  شب و روز کے تسلسل کو سمجھا اور جانا جاتا اور اسی کلینڈر پر عمل کیا جاتا ہے، اس لئے یکم جنوری ہمارے یہاں نئے سال کا جشن منایا جاتا ہے جبکہ بہت سی قومیں ایسی  بھی ہیں جو یکم جنوری کو سال کا آغاز نہیں سمجھتیں تو اس کے مطابق عمل بھی نہیں کرتیں، مثلا ایران و چین میں سالوں کا الگ ہی مبنٰی ہے۔ اسی طرح ہندوستان، میں بعض اقوام مثلاً تیلگو افراد اگادی اور آسامی بیہو مناتے ہیں اور جنوری کو آغاز سال قرار نہیں دیتے، اسی طرح اسلام میں سال کا آغاز محرم سے ہوتا ہے۔ عام طور پر ہمارے یہاں ہند و پاک میں نئے سال پر خوشیاں منائی جاتی ہیں، لوگ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں، خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ جگہوں پر رقص و سرود کی شامیں سجتی ہیں۔
 
اس دوران  ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا نئے سال کا جشن منانا یا نئے سال کی مبارکباد دینا صحیح ہے، جہاں تک بات شریعت کی ہے تو اسکی رو سے یوں تو کوئی منادی نہیں ہے  کہ انسان خوشی منائے یا اپنے ملک میں مختلف مذاہب کے لوگوں کو مبارک دے ،لیکن اس بات کا ضرور دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری خوشی دینی اصولوں کی  پامالی کا سبب نہ بنے، اور بغیر کسی ضرورت کے ہم بلاوجہ اظہار خوشی نہ کریں۔ بعض افراطی مکاتب فکر میں نئے سال کے موقع پر کسی کو مبارک باد دینا تک حرام ہے۔ (1) اسی طرح بعض مذاہب میں نئے سال کے موقع پر جشن منانا بھی حرام قراردیا گیا ہے۔ (2)  جبکہ ہمارے یہاں دوسروں کے ساتھ خوشی میں شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، گرچہ بعض علماء نے یہاں بھی ضرورت کو پیش نظر رکھا ہے اور بغیر ضرورت کے بلاوجہ دوسروں کی تہذیب کو مطلقا اختیار کرنے کی اجازت ہمیں بھی نہیں دی گئی ہے۔ (3) البتہ ہمارے یہاں دوسرے ادیان کے ماننے والوں کو مبارک بار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (4) اپنی تہذِیب اور اپنے کلچر کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے، لہٰذا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ اچھا سلوک اپنی جگہ ہے، ہمیں اس بات کا خیال بہرحال رکھنا ہے کہ انکا کلچر اور انکی تہذیب، ہماری تہذیب کی تاراجی کا سبب نہ بنے۔ چنانچہ ہر خوشی کی طرح  نئے عیسوی سال کی خوشی میں بھی یہ پہلو پیش نظر رہنا ضروری ہے ہم دین کے دائرہ کے اندر رہ کر بقدر ضرورت خوشی منا رہے ہیں یا اپنی تہذِیب اور اپنے مذہب کی تعلیمات کو یکسر بھلا کر  تہذیب نو کے رنگ میں رنگے ہیں۔

ہمارے یہاں عیسائی اور دیگر ادیان کے ماننے والوں کی عزت افزائی کے طور پر بعض مقامات پر نئے سال کے سلسلہ سے تقاریب منعقد ہوتی ہیں، اس میں سبھی شریک ہوتے ہیں، خوشی منانا کوئی بری بات نہیں ہے، انسان خوش بھی ہو سکتا ہے اور دوسروں کی خوشی میں شریک بھی، یہ دین کا دستور ہے کہ دوسروں کی خوشیوں میں شریک رہو اور اپنی خوشیوں میں انہیں شامل  کرو، لیکن جو بات یہاں قابل غور ہے وہ یہ کہ اس نئے سال کے استقبال میں ہونے والی پارٹیوں میں بسا اوقات ایسا کچھ نظر آتا ہے جو سراسر خلاف دین و شریعت ہوتا ہے۔ بہت سی ایسی باتیں دیکھنے میں آتی ہیں جنکا تعلق دین و مذہب سے تو دور ہمارے قومی تشخص اور مشرقی تہذیب سے بھی انکا واسطہ نہیں ہوتا۔ اس نئے سال میں آتش بازی جیسی چیزیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں، جن سے حادثات کا خطرہ رہتا ہے، اور کہیں کسی کی آنکھ چلی جاتی ہے تو کہیں کسی کے کان میں مشکل ہو جاتی ہے۔ حتٰی بعض مقامات پر بے احتیاطی کی وجہ سے جان جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ان سب باتوں کے ساتھ فضول خرچی اور وقت کی بربادی کا اپنا حساب ہے، جو خدا کو ہمیں دینا ہوگا۔ نئے عیسوی سال کی حقیقت کیا ہے؟ یہ جنوری سے شروع بھی ہوتا ہے یا نہیں، شروع ہوتا ہے تو کیوں ہوتا ہے یہ سب باتیں اپنی جگہ تفصیل طلب ہیں۔ (5)   لیکن اگر ہم رائج نظریہ اور رسم کو دیکھتے ہوئے اس کو ایک مثبت رخ دینا چاہیں تو یقینا اس طرح دے سکتے ہیں کہ جناب عیسی (ع) کے ماننے والوں کے درمیان یہ سوال پیدا کریں کہ اس نئے سال کی خوشی میں کیا جناب عیسی علیہ السلام جب یمن کی ویران بستیوں کو دیکھتے ہوں گے، تو خوش ہوتے ہوں گے؟

کیا جناب عیسٰی شام و افغانستان کی حالت کو دیکھ کر خوش ہونگے؟ اگر نہیں تو آخر ہم ایسا کچھ کیوں نہیں کرتے کہ نئے سال کی آمد پر انہیں خوش کر سکیں جو دنیا میں امن و سلامتی کے پیغامبر بن کر آئے تھے۔ جناب عیسٰی علیہ السلام پیغمبر امن تھے لیکن آج دنیا میں انکے پیروکار ہونے کا دعوٰی کرنے والی بڑی طاقتیں دنیا کو ناامن کرنے کے درپے ہیں۔ یہ ایک افسوس کا مقام ہے، یمن کی ویرانی ہو، فلسطین و افغانستان ہوں یا عراق و شام ہر طرف ان بڑی طاقتوں کے طاقت کے مظاہرے نظر آتے ہیں۔ جو جناب عیسٰی علیہ السلام کے ماننے پر فخر کرتے ہیں۔ اور بڑی عجیب بات یہ ہے کہ یوں تو مسلمان اس جناب عیسی (ع) کی تصویر سے سخت اختلاف رکھتے ہیں، جو عیسائیوں کے یہاں ترسیم کی گئی ہے لیکن بذات خود جناب عیسٰی علیہ السلام اور انکی والدہ گرامی جناب مریم کا خاص احترام کرتے ہیں، جناب مریم کے سلسلہ سے پورا ایک سورہ قرآن کریم میں موجود ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب عیسائیوں کی بات آتی ہے تو اکثر و بیشتر حضور سرور کائنات کی ذات کو وہ نشانہ بناتے نظر آتے ہیں، گرچہ بہت ہی کم لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شخصیت کا اعتراف کیا ہے اور انکی عظمت پر کتابیں بھی لکھی ہیں، لیکن مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین دونوں پیغمبروں کے سلسلہ سے اظہار رائے کو لیکر بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک بھی مسلمان ایسا نظر نہیں آئے گا جو جناب عیسٰی علیہ السلام کے متعلق منفی نظر رکھتا ہو اور یا انکے خلاف کوئی غلط بات منسوب کرتا ہو، جبکہ اسکے برخلاف رحمۃ للعالمین کے سلسلہ سے عیسائیوں کی دشنام طرازیوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ دوسری طرف مسلمان نہ صرف جناب عیسٰی کا احترام کرتے ہیں اور انہیں نبی  تسلیم کرتے ہیں بلکہ جناب عیسی علیہ السلام کو ایک مجاہد الوالعزم پیغمبر مانتے ہیں۔(6) یہاں پر بھی عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان جناب عیسٰی علیہ السلام کو لیکر کافی فرق نظر آتا ہے، جس احترام و اکرام سے قرآن انکا تذکرہ کرتا ہے اور جو روحانی و معنوی شخصیت قرآن پیش کرتا ہے وہ اس شخصیت سے کہیں مختلف ہے جسے عیسائی پیش کرتے ہیں۔

قرآن و انجیل میں جناب عیسی علیہ السلام کی شخصیت:
قرآن کریم میں جناب عیسٰی کا نام ۲۳ یا اس سے زیادہ  مرتبہ عیسٰی، اور ۱۱ مرتبہ مسیح اور دو مرتبہ ابن مریم کے طور پر آیا ہے۔ جناب عیسٰی کے کاموں کو قرآن کریم اللہ کی جانب منسوب کرتا ہے اور اس طرح نقل کرتا ہے کہ جناب عیسٰی نے خود کہا کہ میں جو کچھ کرونگا، باذن اللہ کرونگا  چنانچہ سورہ آل عمران میں جناب عیسٰی (ع) کے سلسلہ سے ارشاد ہوتا ہے "وَ رَسُولًا إِلی بَنِی إِسْرائِیلَ أَنِّی قَدْ جِئْتُکمْ بِآیةٍ مِنْ رَبِّکمْ" بنی اسرائیل کی جانب آنے والے رسول نے ان سے کہا میں تمہارے لئے تمہارے رب کی جانب سے  واضح نشانی معجزہ لیکر آیا ہوں، پھر اپنے اپنے معجزے کو یوں بیان کیا "أَنِّی أَخْلُقُ لَکمْ مِنَ الطِّینِ کهَیئَةِ الطَّیرِ فَأَنْفُخُ فِیهِ فَیکونُ طَیراً بِإِذْنِ اللَّهِ" میں مٹی سے ایک پرندے کی شکل بناؤنگا اور اس میں پھونکونگا، پس وہ پرندہ بن جائے گا اللہ کے اذن سے، یا جب کوڑھ اور برص کے لوگوں کو شفا دینے کی بات آئی تب بھی یہی باذن اللہ کی قید ملتی ہے، جہاں آپ نے فرمایا: "وَ أُبْرِئُ الْأَکمَهَ وَ الْأَبْرَصَ وَ أُحْی الْمَوْتی بِإِذْنِ اللَّهِ"، شہید مطہری اس مقام پر فرماتے ہیں یہاں جناب عیسی علیہ السلام فعل کی نسبت تو خود کی طرف دیتے ہیں لیکن باذن اللہ کی قید کے ذریعہ (7) اس سے جناب عیسٰی علیہ السلام کے وجود کے اندر روح بندگی کا پتہ چلتا ہے، جبکہ انجیل میں جناب عیسی (ع) کا بڑا معجزہ شراب بنانے کے طور پر بیان ہوتا ہے جو قطعا غلط ہے۔ (8) شاید اس تحریف کا سبب یہ ہو کہ عیسائیوں کے یہاں جناب عیسٰی کے وجود میں ہی خدا کو انکے گوشت اور خون کے طور پر بیان کیا گیا۔  (9) لہذا عیسٰی (ع) کسی بات کے لئے اس حساب سے جوابدہ نہیں ہیں کہ حرام و حلال کی فکر کریں، نتیجہ میں جو کچھ عیسائیوں کو سمجھ آیا انہوں نے اس میں داخل کر دیا۔

جناب عیسٰی علیہ السلام کی ولادت کے سلسلہ سے بھی قرآن بہت ہی نزاکت و خوبصورتی کے ساتھ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ انکی ولادت بغیر باپ کے  ایک مشرقی مقام پر ہوئی، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: "وَاذْکرْ فِی الْکتابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِها مَکاناً شَرْقِیًّا"۔(10) اس مقام پر قرآن بہت ہی احترام کے ساتھ جناب مریم کا تذکرہ کرتا ہے اور ایک مشرقی مقام کا تذکرہ کرتا ہے جہاں جناب عیسٰی (ع) کی ولادت ہوئی، جبکہ اس کے برخلاف انجیل میں جناب مریم کے ساتھ انکے شوہر  یا منگیتر کا تذکرہ ملتا ہے کہ دونوں ساتھ ساتھ تھے جنکا نام یوسف نجار تھا۔ (11) اسی طرح انجیل میں جناب عیسٰی (ع) کی ولادت فلسطین کے جنوب میں نقل کی گئی ہے۔ قرآن کریم جناب مریم کی شخصیت کو ایک  با حیا خاتون کے طور پر پیش کرتا ہے اور انہیں اپنی منتخب کنیز بتاتے ہوئے انکی عصمت پر مہر تصدیق لگاتا ہے (12)، جبکہ انجیل میں جناب مریم کو ایک عام خاتون کے طور پر پیش کیا گیا ہے جسکی ایک مثال یہ ہے مختلف باتوں میں جناب عیسٰی (ع) کے ساتھ تکرار کا ہونا ہے۔ قرآن کریم جناب عیسٰی علیہ السلام کو جناب مریم کے ساتھ شفقت  کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیتا ہے۔ (13) اور انجیل میں جناب عیسٰی علیہ السلام کا جناب مریم (ع) سے شراب پر تند لہجے میں خطاب پیش کیا گیا (14)، قرآن کریم نے جناب عیسٰی (ع) کو ایک بشارت دینے والے نبی کے طور پر پیش کیا ہے، جو آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہے۔ (15) جبکہ انجیل میں  اقانیم ثلاثہ کے بیٹوں میں پیش کیا گیا  ہے۔ (16)

قرآن کریم نے جناب عیسی (ع) کے حواریوں کو انکے مخلص اصحاب اور جانثار و باوفا ساتھیوں کے طور پر پیش کیا ہے جو نیک  اور شریف تھے اور آپ پر ایمان رکھتے تھے، (17) جبکہ انجیل میں انکا ناسمجھ کوڑھ مغز اور نادادان لوگوں کے طور پر تذکرہ ہوا ہے۔ (18) قرآن جناب عیسٰی کو ایک مجاہد کے طور پر پیش کرتا ہے جبکہ انجیل جناب عیسی کو کچھ ہی لوگوں کی نجات کے لئے آنے والا نجات دہندہ (19)۔ الغرض جناب عیسٰی علیہ السلام کی انجیل و قرآن میں ولادت اور اختلافی و مشترکہ مسائل پر  بہت کچھ لکھا اور بیان کیا گیا ہے، جسے صاحبان فکر معتبر کتابوں میں تلاش کر سکتے ہیں۔ (20) یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر جناب عیسی (ع) کے بارے میں قرآن کا خاص اہتمام نہ ہوتا تو پتہ نہیں انکے ماننے والے ان کی کیا تصویر پیش کرتے اور لوگوں کے ذہنوں میں انکا کیا تصور قائم ہوتا، لیکن قرآن کریم نے نہ صرف یہ کہ انکا تذکرہ بہتر سے بہتر کیا بلکہ ان پر درود و سلام بھیج کر انکی اہمیت کو پیش کیا۔چنانچہ قرآن کریم میں دو ایسے انبیاء ہیں، جن پر خدا نے تین مرتبہ درود بھیجا ہے، ولادت کے موقع پر، وفات کے موقع پر اور قیامت کے دن مبعوث ہوتے وقت۔ ان میں سے ایک حضرت یحیٰی علیہ السلام ہیں، جو بنی اسرائیل کے ایک ظالم جابر حاکم کی اقتدار پرستی کا نشانہ بن گئے اور آپکو  ظالمانہ انداز میں شہید کر دیا گیا اور دوسرے نبی حضرت عیسٰی علیہ السلام ہیں جو باپ کے بغیر پیدا ہوئے اور خدا کی نشانیوں میں سے قرار پائے۔ یہ بات ہم نہیں بلکہ خود مغربی دانشور تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن نے جناب عیسٰی (ع) کی صحیح تصویر پیش نہ کی ہوتی تو پتہ نہیں جناب عیسٰی (ع) کو کیسے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا، چنانچہ  عظیم فلسفی ول ڈورنٹ، مشہور کتاب History of Civlizations میں رقم طراز ہیں، "قرآن کریم اور مسلمانوں کا عیسائیوں پر ایک بڑا احسان ہے اور وہ یہ کہ انکے دین اور کتاب میں انجیل اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو انتہائی عزت اور بزرگی کے ساتھ یاد کیا گیا ہے اور انجیل کی تائید بھی کی گئی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے وجود کو ثابت کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا کیونکہ انکی کوئی اولاد نہیں ہے اور نہ ہی انکا کوئی مزار یا مقبرہ ہے۔

سچ ہے اگر نبی خاتم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن کریم کی جانب سے حضرت عیسی علیہ السلام کی تائید نہ ہوتی تو منکر افراد بہت آسانی سے انکے وجود کا انکار کرسکتے تھے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ جناب عیسٰی علیہ السلام کی جو شخصیت قرآن نے بیان کی ہے اسے دیکھیں اور جو انجیل نے پیش کی ہے اسے دیکھیں، زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا، اب اگر اس نئے سال کی آمد پر ہلڑ ہنگاموں اور تفریح کے پروگراموں آتش بازیوں سے وقت نکال کر ہم ایسی گفتگو کا اہتمام کر سکیں  جس میں مسلمان اور عیسائی   دونوں ہی مکاتب فکر کے افراد جناب عیسٰی علیہ السلام کی تعلیمات پر روشنی ڈالیں اور اس بات پر اظہار خیال ہو کہ جناب عیسیی علیہ السلام نے کس مقصد کے تحت زندگی گزاری اور ہم کیونکر انکے مقاصد کی آبیاری کر سکتے ہیں تو شاید یہ وہ چیز ہے کہ جسکے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں نئے سال کی واقعی خوشی میں ہم اپنے عیسائی بھائیوں کے ساتھ  شریک و سہیم ہیں کہ ہم دونوں کا مقصد دنیا میں امن و بھائی چارہ کی فضا کو فراہم کرنا ہے اور ان طاقتوں کو شکست دینا ہے جو جناب عیسٰی جیسے پیغمبر امن و صلح کا نام لیتے ہیں لیکن دنیا کو انہوں نے اپنی کرتوتوں سے نا امن کیا ہوا ہے۔ تو آئیں اختلافات کو چھوڑ کر مشترکات کا دامن تھامیں، قرآن نے ہم سب کو آواز دی ہے "قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ۔"(21) اس آواز پر لبیک کہنے کا یہ بہترین موقع ہے لہٰذا  کسی کو کسی پر فوقیت نہ دیں، اللہ کے سوا کسی کو رب قرار نہ دیں اسکی بارگاہ میں اسکی پناہ میں آئیں، دنیا میں  ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور امن و  چین بھائی چارہ سلامتی کے پرچم کو ہاتھ میں لئے ایک ایسی دنیا قائم کریں، جسکا آنے والا یہ سال جناب عیسٰی علیہ السلام کے خوابوں کی تعبیر بن جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 حواشِی:
1۔ https://www.tabnak.ir/fa/news/864562/
2۔ http://www.afghanpaper.com/nbody.php?id=31121
http://mahdi.cc/fa/news/4800/
https://www.seratnews.com/fa/news/217269/
4۔http://www.ghatreh.com/news/nn45706300/
5۔ تفصیل کے لئے رجوع کریں: Anthony Aveni, "Happy New Year! But Why Now?" in The Book of the Year: A Brief History of Our Seasonal Holidays (Oxford: Oxford University Press, 2003), 11–28.
 Tek Web Visuals, Cochina. "New Year's Day". World e scan. Retrieved 13 November 2011.
 "The Thelemic Holy Season", 2004
 Ben, Tzvi (22 September 2006). "Rosh Hashanah: Prayers, Shofars, Apples, Honey and Pomegranates". Israelnationalnews.com. Retrieved 13 November 2011.
 Rintluanga., Pachuau, (2009). Mizoram : a study in comprehensive geography. New Delhi: Northern Book Centre. p. 9. ISBN 8172112645. OCLC 471671707
6۔ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسهٔ الوفا، چاپ دوم، ۱۴۰۳ ه. ق، ج۱۱، ص۳۵.
 ترجمهٔ تفسیر المیزان، جلد ۱۸، ص۳۹
7۔ مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج 4، 396.
8۔  انجیل یوحنا باب دوم.
9۔ شهرستانی، محمدبن عبدالکریم، ملل و نحل، ج ۱، ص ۲۲۲ - ۲۲۴ - ۲۲۵
10۔  مریم، آیه16.
11۔ انجیل متی (1: 18) تا (1: 25)
12۔ وَ أُمُّهُ صِدِّیقَةٌ(مائده، 75)وَ إِذْ قالَتِ الْمَلائِکةُ یا مَرْیَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفاک وَ طَهَّرَک وَ اصْطَفاک عَلی نِساءِ الْعالَمینَ
(آل عمران،42)
13۔ وَ بَرًّا بِوالِدَتی وَ لَمْ یَجْعَلْنی جَبَّاراً شَقِیًّا؛مریم،32
14۔ انجیل یوحنا باب دوم.
15۔ وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتی مِنْ بَعْدِی اسْمُهُ أَحْمَدُ(صف، 6)
16۔ توفیقی، حسین، آشنایی با ادیان بزرگ، ص 150. سلیمانی، عبدالرحیم، سیری در ادیان زنده جهان.
17۔ آل عمران، 52-53.
18۔ انجیل متی، باب 20 آیه 17؛ لوقا باب 25 آیه
19۔ لوقا» باب12، آیه 49 تا 53.
20۔ بنیاد مدرسه ی نظرآزمایی”( Forum Schulstiftung ) صفحات 39 تا62 ، شماره ی 45، سال انتشار: دسامبر 2006
21۔ ۔۶۴ آل عمران۔
خبر کا کوڈ : 769566
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش