0
Saturday 5 Jan 2019 23:29

کراچی میں آبادی کیساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات، 2018ء میں 1500 سے زائد اموات

کراچی میں آبادی کیساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات، 2018ء میں 1500 سے زائد اموات
رپورٹ: ایس حیدر

غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہوچکی ہے، جس طرح یہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، اسی طرح یہاں روز بروز گاڑیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ایک اندازے کے مطابق شہر کی سڑکوں پر روزانہ 30 سے 40 گاڑیاں اور 150 سے 170 موٹر سائیکلوں کا اضافہ ہو جاتا ہے، جو ٹوٹ پھوٹ کی شکار سڑکوں پر رواں دواں ہو جاتی ہیں۔ جس طرح آبادی اور گاڑیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اسی طرح یہاں پر جو چیز لمحہ فکریہ ہے، سال 2018ء میں ٹریفک حادثات میں شہر کے تین سرکاری اسپتالوں سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق شہر کے 100 سے زائد تھانوں اور 21 پولیس چوکیوں کی حدود میں سال 2018ء میں ہونے والے ٹریفک حادثات میں شہر کی مختلف سڑکوں اور دیگر مقامات پر ٹریفک حادثات میں 1500 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ جس میں ماہ جنوری کے مہینے میں 181 افراد شہر کے مختلف علاقوں میں ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے، فروری کے مہینے میں ٹریفک حادثات میں 101 افراد جاں بحق ہوئے، مارچ میں 117، اپریل میں 136، مئی میں 132، جون میں 124، جولائی میں 119، اگست میں 123، ستمبر میں 134، اکتوبر میں 126، نومبر میں 130 اور دسمبر میں 91 افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے۔

اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ اکثر و بیشتر واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں، جس میں ٹریفک حادثات میں زخمی ہونے والے یا جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثاء انہیں اسپتال بھی نہیں لے کر آئے، جو ریکارڈز کا حصہ نہیں بن پاتے، لیکن ایسے معاملات کی تعداد نہایت کم ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے کراچی میں ٹریفک حادثات کے حوالے سے مرتب کردہ سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پیدل سڑک عبور کرتے ہوئے 1321 افراد حادثات کا شکار ہو کر جاں بحق ہوئے، تیز رفتار گاڑیوں کے رش میں سڑکیں عبور کرتے ہوئے 2018ء میں 15756 پیدل چلنے والے افراد حادثات کا شکار ہوکر زخمی ہوئے، جن میں سے 9489 افراد معمولی نوعیت کے اور 6267 افراد شدید نوعیت کے زخمی ہوئے۔ پولیس ذرائع کے مطابق پیدل سڑکیں عبور کرتے وقت زخمی ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد 16 سال سے کم عمر بچوں کی ہے، جن میں اسکولوں کے بچے بھی شامل ہیں۔ پولیس نے ایم اے جناح روڈ، شارع فیصل، کورنگی روڈ، ماڑی پور روڈ، نیشنل ہائی وے، یونیورسٹی روڈ، راشد منہاس روڈ، چوہدری فضل الہیٰ روڈ اور آئی آئی چندریگر روڈ سمیت کراچی کی 24 سڑکوں اور شاہراہوں کو پیدل چلنے والوں کیلئے خطرناک قرار دیا ہے۔

پولیس کے مطابق تیز اور زیادہ ٹریفک کے باعث 24 سے 36 گھنٹو ں میں پیدل سڑک عبور کرنے والا ایک شخص اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، جبکہ گاڑیوں کے تصادم میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد الگ ہے۔ دو کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں ٹریفک کے بڑھنے اور ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ کرنے سے روڈ حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی میں ٹریفک حادثات میں 2014ء کے دوران 980، 2015ء میں 1123 جاں بحق ہوئے تھے، تاہم 2016ء میں 1243، سال 2017ء میں 1321 اور گزشتہ سال 2018ء میں حادثات میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 1500 سے زائد ہوگئی اور موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ ٹریفک حادثات میں بڑھتی ہوئی شرح اور اسکی روک تھام کیلئے کوئی مؤثر حکمت عملی نہ ہونے کے باعث تشویشناک حد تک اضافے کا خدشہ ہے۔ کراچی شہر میں کئے جانے والے سروے کے دوران شہریوں کی ٹریفک حادثات اور شہر میں موجودہ ٹریفک مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے جن مسائل کا سب سے زیادہ ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں کہ شہر کی اہم شاہراہوں پر قائم تجاوزات اور ٹریفک پولیس کی نفری میں کمی ہے، شہر کی بیشتر شاہراہوں پر پتھارے دار موجود رہتے ہیں، جنہوں مزید جگہ کو تجاوز کرتے ہوئے اپنی جگہوں کو بڑھایا۔

اسکے بعد رہی سہی کسر چنگچی، رکشہ اور ٹیکسی والے پوری کر دیتے ہیں، جو ہزار کوششوں کے باوجود اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتے، جب تک انہیں کوئی سواری نہ مل جائے، اس دوران پیچھے گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ جائیں اور شہری ہزار ہارنوں کی آوازیں سن سن کر اپنا بلڈپریشر بڑھاتے رہیں۔ دوسرا جو سب سے اہم مسئلہ ہے، وہ ہے شہر میں اسٹریٹ لائٹس لگے ہونے کے باوجود راتوں کو ان لائٹوں کا نہ جلنا، جو بھی ٹریفک حادثات کا بہت بڑا سبب ہے، کیونکہ ٹریفک لائٹس روشن نہ ہونے کے باعث لوگوں نے اپنی گاڑیوں میں ہیوی لائٹس لگائی ہوتی ہیں، جو راتوں کو اتنی تیز جلتی ہیں کہ انکی مخالف سمت سے آنیوالی گاڑی کئی میٹر دور سے دیکھنے سے قاصر ہو جاتی ہے اور اس دوران سڑکوں پر بنائے گئے لوگوں کی اپنی مدد آپکے تحت چھوٹے چھوٹے کٹس سے نکلنے والی گاڑی یا کوئی پیدل چلنے والا راہگیر حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب شہر میں شہریوں کی جانب سے ٹریفک رولز کی پاسداری نہ کرنا بھی بڑا سبب ہے، جس گاڑی کیلئے جو لین بنائی گئی ہیں، ان میں سے اکثر و بیشتر ڈرائیور کو اپنی لین اور اسکی معلومات ہی نہیں ہوتی۔

سڑکوں پر چلنے والے ہیوی ٹریفک کے ڈرائیورز نسبتاً ٹریفک رولز کی پاسداری کرتے ہیں، جو کہ کم از کم اپنی لین میں گاڑی چلاتے ہیں، جبکہ شہر میں چلے والی بسیں، کوچ، رکشے، ٹیکسی، موٹرسائیکلیں اور دیگر گاڑیاں اپنی لین سے بالکل مختلف لین میں چلتی نظر آتی ہیں، اسکے علاوہ جن مسائل کا سامنا شہریوں کو کرنا پڑتا ہے، اس میں غلط سمت ٹریفک میں گاڑیوں کا داخل ہونا ہے، کئی سال قبل شہریوں کی سہولت کیلئے بنائی گئی پریڈی اسٹریٹ کی مثال سب سے واضح ہے، جہاں شہری ایک طرف اس شاہراہ کے قیام کے بعد خوشیاں منا رہے تھے، وہیں اب وہی شہری کئی گھنٹوں تک اس شاہراہ پر ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں، کیونکہ سامنے سے غلط سمت سے سے آنے والے افراد کی تعداد درست سمت میں جانے والوں سے کئی زیادہ ہوتی۔ اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ شہر میں موجود ٹریفک پولیس کے افسران و اہلکاروں سے زیادہ اس شہر کے رہنے والے شہریوں کو بھی اپنے اندر شعور پیدا کرنا ہوگا، ٹریفک اصولوں کی پاسداری کرنی ہوگی، اسی طرح ہی ٹریفک و روڈ حادثات میں قیمتی جانوں کے زیاں کو روکا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 770448
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش