0
Tuesday 7 Jul 2009 12:16

امریکہ اسرائیل کی سرپرستی ختم کرے

امریکہ اسرائیل کی سرپرستی ختم کرے
امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی سرپرستی کوئی راز کی بات نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں یہودی ریاست کے قیام میں برطانیہ، فرانس،روس اور متعدد دوسرے یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ نے بنیادی کردار ادا کیا لیکن عالمی سطح پر یک طاقتی نظام کے بعد اس سرپرستی میں اس حد تک تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ذمہ دار امریکی حلقے اس معاملے میں علاقائی اور عالمی امن کے تقاضوں کو بھی فراموش کرتے دکھائی دیتے ہیں چنانچہ نائب امریکی صدر نے اسرائیلی سرپرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ خطرناک اشارہ دیا ہے کہ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کے خطرے سے نمٹنے کے لئے اگر فوجی کارروائی ضروری سمجھے تو امریکہ اس راہ میں ہرگز رکاوٹ نہیں بنے گا اور نہ اسے روکے گا ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کسی بھی آزاد ریاست کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا نہ ہی اسے کوئی ڈکٹیشن دے سکتا ہے اسرائیل کو ایران یا کسی بھی ملک کے بارے میں اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر خود فیصلے کرنے ہیں لیکن امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مائیک مولن کا کہنا ہے کہ ایسے حملے کے ناپسندیدہ نتائج سامنے آسکتے ہیں اور اس سے علاقے میں عدم استحکام پیدا ہو گا ،اس لئے مجھے ایران پر اسرائیلی حملے کے بارے میں شدید تحفظات ہیں میں اس اقدام کی کوئی پشین گوئی نہیں کر سکتا۔ ادھر اسرائیل نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب نے اسے ایران پر حملہ کرنے کے لئے اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دیدی ہے اس سے پہلے اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ کی سعودی حکام سے ملاقات کی جو رپورٹ دی تھی سعودی حکام نے اسے سختی سے مسترد کر دیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی ایک برطانوی اخبار کی طرف سے اسرائیل کو ایران پر فضائی حملے کے لئے اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت کی خبر کو قطعی بے بنیاد قرار دیا ہے۔
ایران شہنشاہیت کے خاتمے اور اسلامی انقلاب کے بعد سے ہی امریکہ اور اسرائیل کے ہدف پر ہے اور عراق کے سابق صدر صدام کو امریکہ نے ہی اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے نہ صرف حملہ کرایا بلکہ عراق کو ہرقسم کی فوجی امداد اور جدید اسلحہ بھی فراہم کیا لیکن ایران کا معاشی ،سیاسی اور دفاعی استحکام کے لئے ایٹمی پروگرام کا آغاز امریکہ اور اسرائیلی نگاہوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہا ہے اور پہلے دن ہی سے ایران کو نشانہ بنانے اور اس کا ایٹمی پروگرام تباہ کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جبکہ ایران کا دوٹوک موقف یہ ہے کہ وہ ایٹمی اسلحہ تیار کرنے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں رکھتا اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے چنانچہ بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے سربراہ محمد البرادی، ایجنسی کے ذمہ دار حکام اور اقوام متحدہ کے اسلحہ کے ماہرین ایران کا دورہ کرنے کے بعد اپنی رپورٹس میں یہ دوٹوک موقف پیش کر چکے ہیں کہ انہیں ایران میں ایٹمی اسلحہ کی تیاری یا موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا، نہ ہی ایران نے اپنی ایٹمی تنصیبات کے معائنہ کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی اس کے باوجود امریکہ اسرائیل اور دوسرے مغربی حلقوں کی طرف سے دھمکیوں کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا اس لئے کہ ان کے لئے ایران کی طرف سے یورینیم کی افزودگی کے لئے فنی مہارت پر دسترس حاصل کرنا ناقابل برداشت ہے۔ امریکہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ اس کے اثاثے بھی ضبط کر چکا ہے۔اس ایٹمی پروگرام کا سہرا صدر احمدی نژاد کے سر ہے اور دوسری مرتبہ صدارتی انتخابات میں ان کی کامیابی اسرائیل اور امریکہ کے لئے اس لئے بھی ناقابل برداشت ہے کہ وہ ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کا عزم کئے ہوئے ہیں اور ان کا یہ اقدام ان کی سیاسی مقبولیت میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے جس نے انہیں دوسری مرتبہ صدارتی انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ اس پس منظر میں جہاں امریکہ کے نائب صدر نے یہ کہہ کر کہ ایران کے جوہری خطرے سے نمٹنے کے لئے اگر اسرائیل نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی تو امریکہ اسے ہرگز نہیں روکے گا کیونکہ امریکہ کسی بھی آزاد ریاست کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا، نہ ہی کسی کو ڈکٹیشن دے سکتا ہے جہاں کھل کر اسرائیل کی تائید و حمایت اور سرپرستی کا مظاہرہ کیا وہاں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیکل مولن نے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی جارحیت کے خطرناک نتائج کی بھی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حملے کے ناپسندیدہ نتائج سامنے آسکتے ہیں اور علاقے میں عدم استحکام بھی پیدا ہونا ناگزیر ہے جہاں تک نائب امریکی صدر کے اس موقف کا تعلق ہے کہ امریکہ کسی بھی آزاد ریاست کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتا نہ ہی اسے کوئی ڈکٹیشن دے سکتا ہے، تاریخی اعتبار سے امریکی حکام کے قول و فعل میں واضح تضاد کا ثبوت ہے۔ امریکہ اس سے پہلے عراق پر اسرائیلی حملے کی بھرپور پشت پناہی کر چکا ہے اور ایران کے خلاف بھی عراق کے جارحیت میں اس کا ہاتھ تھا۔ اس وقت اس نے عراق اور افغانستان میں جس کھلی جارحیت کا ارتکاب کر کے لاکھوں بے گناہ افراد کو موت کی نیند سلایا اور دونوں ملکوں کی معیشت کو تباہ کرکے عوام کوا نتہائی سنگین صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے کیا یہ دو آزاد ریاستوں کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت نہیں اور عراق کے خلاف جارحیت میں تو اسرائیل براہ راست ملوث ہے اور وہ عراق کے معدنی وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے۔ عراق سے اسرائیل تک تیل کی پائپ لائن اس کا کھلا ثبوت ہے اور اگر امریکہ اپنے لے پالک اسرائیل کی طرف سے ایران پر حملہ کی صورت میں خاموشی اختیار کرتا ہے تویہ خاموشی دراصل ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی کھلی تائید و حمایت کے زمرے میں آئے گی۔ نائب صدر امریکہ کا موقف نہ صرف عراق، افغانستان اور ایران بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور فاٹا میں عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی قول و فعل کے تضاد کا کھلا ثبوت ہے۔ کیا ڈرون حملے ایک آزاد ریاست کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت نہیں؟ آئے روز امریکی وزراء اور جرنیلوں کے پاکستان کے دورے بھی اکثر سیاسی حلقوں کے نزدیک امریکہ کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی ڈکٹیشن ہی کا حصہ ہیں۔ اسرائیل آج معاہدہ اوسلو اور معاہدہ کیمپ ڈیوڈ کے تحت ایک آزاد فلسطینی ریاست کا وعدہ پورا نہیں کر پایا لیکن اس پر امریکی حکام مہر بلب ہیں اور اس کے برعکس حماس کی سرگرمیاں ان کے نزدیک دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں حالانکہ نہ صرف فلسطین بلکہ مقبوضہ کشمیر، عراق اور افغانستان میں موجودہ صورتحال بالخصوص دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اس کے بنیادی اسباب وعلل کا ازالہ ناگزیر ہے۔ عالمی سطح پر سیاسی مبصرین اور دانشور بھی تسلسل کے ساتھ اس موقف کا اعادہ کر رہے ہیں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ اور اس کے بنیادی اسباب و وجوہ کا خاتمہ ضروری ہے امریکہ کی طرف سے عراق، ایران، فلسطین اور لبنان کے خلاف اسرائیلی جارحانہ عزائم کی کھلی حمایت اور ہلا شیری سے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن کو بھی شدید خطرات لاحق ہوں گے اور سیاسی استحکام بری طرح متاثر ہو گا۔ ان حالات میں اقوام متحدہ ایسے عالمی ادارے کے ذریعے ان مسائل کے حل کو ترجیح دینی چاہئے ورنہ اس ادارے کا حشر بھی لیگ آف نیشنز جیسا ہوگا اور عالمی امن کے لئے نہایت خطرناک روایات جنم لیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ آنکھیں کھولے نہ صرف او آئی سی بلکہ عرب وزرائے خارجہ اور 56سے زائد اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس طلب کر کے، درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور اپنی آزادی سلامتی اور خودمختاری کی بقا کے لئے ٹھوس پالیسی وضع کی جائے۔

خبر کا کوڈ : 7705
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش