0
Saturday 5 Jan 2019 16:18

امریکہ۔۔۔ پاکستانی قوم اور حکمرانوں کی غلامانہ ذہنیت!

امریکہ۔۔۔ پاکستانی قوم اور حکمرانوں کی غلامانہ ذہنیت!
تحریر: محمد حسن جمالی
 
تجربہ طولانی پکار پکار کر یہ اعلان کررہا ہے کہ امریکہ کسی ملک کا خیر خواہ ہرگز نہیںـ اس نے جس ملک کے ساتھ بھی دوستی کے لئے ہاتھ بڑھایا ہے بالآخر اسے سر اٹھانے کے قابل نہیں رکھا۔ جس کا موجودہ آشکار نمونہ سعودی عرب ہےـ امریکہ کی دوستی وقتی اور عارضی ہوتی ہے، وہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے مختلف ملکوں کے سربراہوں سے اظہار محبت ضرور کرتا ہے مگر مفادات حاصل کرنے کے بعد یا اپنا مقصد پورا نہ ہونے کی صورت میں وہ انہیں نابود کرنے کو اپنا مسلمہ حق گردانتا ہےـ امریکہ کے بارے میں یوں کہنا بےجا نہ ہوگا کہ پوری دنیا میں جس ملک کی پہچان شرپسندی ہے وہ امریکہ ہے، جو فقط مسلمانوں کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا دیرینہ دشمن ہےـ یہ کرہ ارض پر موجود وہ بدنصیب ملک ہے جو دہشتگردی سے لیکر تمام انسانی فطرت کے خلاف کاموں کی سرپرستی کرنے میں نظیر نہیں رکھتاـ یہ تمام شرپسند عناصر کا علمبردار ہے جو زندہ ضمیر انسانوں کے ہاں اس وقت ام الفساد کے نام سے معروف ہےـ بلا تردید آج یمن شام عراق سمیت پوری دنیا میں ہونے والی جنگہوں اور قتل عام کا سرخیل امریکہ ہے، جس نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے مختلف ممالک کو ایک دوسرے کا دشمن بنایا، مسلمانوں کے درمیاں مذہبی نفرت ایجاد کی، اتحاد مسلمین پر ضربہ لگایا، مسلم معاشرے میں اسلامی پاکیزہ ثقافت کی جگہ اپنی ناپاک رسومات کو عام کرکے جوانوں کے شفاف ذہنوں کو آلودہ کیا، روشن خیالی کے نام سے ہماری تعلیمی درسگاہوں میں پڑنے والے طلبہ و طالبات سے حقیقی آزادی کی نعمت چھین لی، ہماری جدید نسل کو بیہودہ کاموں میں مصروف رکھ کر ان کے ارتقاء اور تکامل کی راہ میں روڑے اٹکائے۔

مختصر یہ کہ دنیا میں امریکہ "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی غلط پالیسی کے مطابق چل کر اپنے مفادات حاصل کرنے میں پیش پیش ہےـ مگر افسوس! پوری دنیا میں انسانیت کے خون سے ہولی کھیلنے والے بدنام زمانہ ملک امریکہ کے بارے میں آج ہمارے بصیرت کی قوت سے عاری کچھ نام نہاد مغربی تعلیم یافتہ لوگ تعریف کرتے نہیں تھکتےـ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ سے بڑھ کر کوئی ترقی یافتہ ملک نہیں، علم اور ٹیکنالوجی سے لیکر زندگی کے تمام شعبوں میں پیشرفت کے حوالے سے امریکہ اپنی مثال آپ ہے، اس کا اقتصاد اس قدر مضبوط ہے کہ ہر سال وہ دنیا کے مختلف ممالک کی مدد کرتا ہے، اگر کوئی سکون اور مسرت سے لبریز زندگی گزارنے کی خواہش رکھتا ہے تو اسے امریکہ کا رخ کرنا چاہیئے، یا کم از کم اس کے افکار کا خوگر بننے کی کوشش کرنا ضروری ہے، تعلیمی میدان میں استحکام کی چوٹی پر قدم رکھنے کے لئے امریکی نظام تعلیم کے مطابق پڑھنا واجب ہے، جب تک انسان امریکی زبان میں مہارت حاصل نہیں کرتا ہے تب تک وہ علمی قابلیت اور استعداد  کا حامل ہونا ممکن نہیں وغیرہ...پاکستان کے اندر اس طرح کی توہمات کا نہ فقط عام معاشرے کے پڑھے لکھے افراد کی اکثریت شکار ہے بلکہ ہمارے حکمرانوں سمیت کالجز اور یونیورسٹیز  کے فعال لوگوں کی اکثریت کا یہ پکا عقیدہ بنا ہوا ہے کہ پاکستان کے معاشرے کی ترقی و پیشرفت کا راستہ یہ ہے کہ لوگ انگریزی زبان پر مسلط ہو جائیں اور اسی زبان میں ہی اداروں میں فعال رہتے ہوئے کارکردگی دکھائیں۔

یہ اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستانی معاشرے میں حکمرانوں سے لیکر عام طبقے کے لوگ اپنی قومی زبان میں دوسروں سے ہمکلام ہونے کی بجائے ٹوٹے پھوٹے انگریزی کے الفاظ جوڑ کر بات کرنے اور گفتگو کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، وہ اپنی قومی زبان اردو میں بات کرنے سے احتیاط کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو کہیں ان کے غیر تعلیم یافتہ ہونے کا احساس نہ ہو جائےـ جبکہ یہ وہم و خیال کے سوا کچھ نہیں، حقیقت سے اس کا دور کا  بھی تعلق نہیں۔ ایسے افراد کو توہم پرستی کی بجائے حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہےـ حقیقت پر مبنی بات یہ ہے کہ ایسی ذہنیت غلامانہ ذہنیت کہلاتی ہے۔ یہ طے ہے جس قوم پر غلامانہ ذہنیت حاکم رہے، وہ کھبی بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتی۔ درست ہے امریکہ کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں نکلتا کہ ہم ترقی کا خواب دیکھتے ہوئے آنکھیں بند کرکے اس کی اندہی تقلید کریں اور اس کے غلام مطلق بن جائیں بلکہ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کی ترقی و پیشرفت کے رازوں کا کھوج لگائیں اور ان عوامل پر غور کریں جن کا امریکہ سمیت مغربی ممالک کی پیشرفت میں بنیادی کردار ہے، جب اس کی ترقی کے رازوں اور اسباب کو پالیں گے تو انہیں بروئے کار لانے کی کوشش بھی کریں۔ غور کرنے والے جانتے ہیں کہ امریکہ کی ترقی کا اہم راز یہ ہے کہ اس نے نہ فقط اپنا نظام تعلیم اپنی زبان میں استوار کر رکھا ہے بلکہ قومی اداروں میں کام کرنے والوں سے لیکر عام پبلک کو اپنی زبان میں ہی گفتگو کرنے پر پابند کررکھا ہے۔ اس کے باسی غیر ملکی زبان میں بات کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے  کہ امریکہ جن امور پر پوری توجہ سے شب و روز ایک کرکے کام کر رہا ہے، ٹھیک ٹھاک خرچ کر رہا ہے ان میں سے ایک اپنی زبان کی اشاعت ہےـ

امریکہ پوری دنیا میں اپنی زبان رائج کروانے کی کوشش کررہا ہے، چنانچہ اس ہدف میں اسے بہت زیادہ کامیابی ہاتھ آئی۔ آج کچھ ملکوں کو چھوڑ کر جگہ جگہ امریکی زبان استعمال کرنے پر لوگ افتخار کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ انگریزی زبان ایک پیشرفتہ زبان ہے جس کی وجہ سے اسے ضرور سیکھ لینی چاہیئے لیکن ترقی کا اصلی راز اسی کو قرار دینا زیادتی ہےـ ترقی کا حقیقی راز علم اور خود اعتمادی ہے، جو قوم خود اعتمادی کے ساتھ علمی میدان میں جتنا آگے جائے گی، ترقی اس کا مقدر بنتی چلی جائے گی اور وہی قومیں خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہو کر علمی میدان میں کمالات حاصل کر سکتی ہیں۔ جو غلامانہ ذہنیت کے زندان سے آزاد رہ کر اپنی زبان میں ہی علمی مدارج طے کریں گی۔ عالم خارج میں جس کی بہترین مثال چین، جاپان، روس اور ایران ہے۔ ان ترقی یافتہ ممالک نے عملی طور پر دنیا کی قوموں کو یہ ثابت کر دکھایا کہ کامیابی اور ترقی انگریزی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی بہتر طریقے سے کی جا سکتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے پرائمری سکولز سے لیکر کالجز و یونیورسٹریز تک میں نصاب تعلیم کی کتابیں فارسی میں ہیں، جنہیں اساتذہ فخر سے پڑھاتے ہیں اور شاگرد احساس فخر سے پڑھتے ہیں۔ اس ملک کی پارلیمنٹ کے ارکان سے لیکر دوسرے تمام اداروں میں لوگ فارسی میں ہی فخر سے گفتگو کرتے ہیں۔ فارسی زبان میں ہی علم کی روشنی سے منور ہوکر طالبعلم انجینئر، ڈاکٹر، سیاستدان، مفکر و.... بنتے ہیں۔

ان کے حکمران دوسرے ملکوں کے دورے کے موقع پر جہاں بھی خطاب کرنا پڑے اپنی زبان میں خطاب کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے اور سرکاری سرپرستی میں ایرانی دانشمند اپنی قومی زبان کی ترویج کے لئے وسیع پیمانے پر محنت کررہے ہیں۔ وہ جدید چیزوں کے لئے فارسی الفاظ اختراع کرکے ان کے استعمال کو معاشرے میں عام کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ مثلا جب کمپیوٹر آیا تو فارسی میں اس کا نام رایانہ اور موبائل کے لئے گوشی رکھ دیا گیا۔ اسی طرح ہر نئی ایجادات مارکیٹ میں آنے سے پہلے وہ فارسی میں ضرور ان کے لئے نام وضع کرتے ہیں، لیکن پاکستانی حکمران ابھی تک احساس کمتری کا شکار ہیں۔ وہ اپنی قومی زبان کو دوسرے ملکوں میں رائج کروانے کی سوچ تو کجا خود اپنے ملکی اداروں میں اسے رسمی کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ وہ اردو زبان میں تعلیمی اداروں کی نصابی کتابیں تیار کرکے بچوں کو پڑھوانے کو اپنی خفت سمجھتے ہیں۔ کانفرنسوں اور اپنی قوم سے خطاب وہ انگریزی میں کرنے کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے آج پاکستان کے ذہین بچوں کی صلاحیتیں پروان چڑھ کر شکوفا ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔ بہت سارے بچے ضائع ہو جاتے ہیں۔ ان میں بےاعتمادی اور احساس کمتری کی بیماری بڑھتی جارہی ہے، درنتیجہ ملک اور قوم کی ترقی کا پہیہ جام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران، قوم، خصوصا پڑھے لکھے افراد امریکہ کو سمجھیں اور تعلیمی میدان میں نظام تعلیم اپنی قومی زبان میں استوار کرنے کا حکومت سے مطالبہ کریں ـ فی الوقت پاکستانی قوم اور حکمرانوں پر غلامانہ ذہنیت حاکم ہے!
خبر کا کوڈ : 770590
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش