0
Monday 7 Jan 2019 22:24

وزیراعظم کی اہلیت کو درپیش چیلنج

وزیراعظم کی اہلیت کو درپیش چیلنج
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

جس طرح گذشتہ حکمران عوام کو گمراہ کرنے کیلئے اعداد و شمار اور جھوٹے وعدوں سے خوشحالی کی امید دلا کر اپنی اپنی باری لگا کر آتے جاتے رہے۔ اسی طرح ہماری معیشت اب بھی اعداد و شمار، جھانسوں اور خود فریبی کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ ہر آنے والی حکومت، سابق حکمرانوں کو ہی مورد الزام ٹھہراتی رہی اور عوام کو دلاسوں، جھوٹے وعدوں اور تسلیوں سے بہلا کر معاشی انقلاب کی خوشخبری سناتی رہی۔ عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہا۔ ملکی اسکیموں، غیر ملکی امدادوں کے باوجود ملکی معیشت کے حالات بہتری کے بجائے، خرابی کی طرف رواں دواں ہیں۔ موجودہ حکومتی وزراء اور رہنماء پُرامید ہیں کہ معیشت کے حالات اب بہتری کی طرف گامزن ہوں گے، مہنگائی کم ہو گی، روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو گا، پاکستان کی مرآمدات بڑھیں گی اور ملک کی صنعت اور کاروبار ترقی کرے گا، انکا سارا زور اس پر ہے کہ وہ کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چار پانچ ماہ کے دوران جو کچھ کیا، اُس سے تو بہتری کے بجائے معاشی حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔

موجودہ سیٹ اپ کے ذمہ دار جن سابق حکمرانوں کو چور، ڈاکو کہہ کہہ کر نہیں تھکتے، اُن کے مقابلے میں اِن ابتدائی مہینوں کے دوران مہنگائی کافی بڑھ چکی ہے، بجلی، گیس، ایل پی جی، سی این جی اور پیٹرول سب کچھ مہنگا ہو گیا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، ایک نکتہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، وہ سیاسی استحکام۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت کا سیاسی استحکام سے گہرا تعلق ہے، اگر حکومت مستحکم نہیں ہو گی اور سیاسی عدم استحکام کے حالات کا ملک کو سامنا ہو گا، تو کچھ بھی کر لیں، معیشت میں بہتری ممکن نہیں۔ حکمرانوں کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر آج پاکستان کے دوست ممالک ہمیں معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے مدد کر رہے ہیں تو ایسا بار بار ممکن نہیں ہو گا۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ایک یا دو سال کے بعد ہماری وہی معاشی حالت دوبارہ ہو، جس کا ہمیں آج سامنا ہے۔ سیاسی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کامیاب ہو، ہماری معیشت بہتر ہو، یہاں کاروبار بڑھے اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہو۔ لیکن ایسا اُسی صورت میں ممکن ہو گا جب عمران خان کی حکومت سیاسی استحکام لانے میں کامیاب ہو گی اور اپنے ایسے وزراء اور رہنمائوں کو روکے گی جو تنازعات پیدا کر کے حکومت کے لیے محض مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک میں سیاسی کشمکش اور سیاسی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اپوزیشن کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ جمہوریت کو نقصان ہمیشہ داخلی سیاسی کشمکش سے ہوا ہے، مفاد پرست عناصر اس سے فائدہ اٹھا کر انتشار کو ہوا دیتے ہیں، لہٰذا رسہ کشی اور عدم رواداری کے باوجود صورت حال قابو سے باہر نہیں ہونی چاہیے۔ ملک اس وقت احتساب کی آزمائش اور فیصلہ کن دورانیے میں ہے۔ حکومت بھی نیب اور ایف آئی اے کو ہی احتساب کرنے دیں اور بیانات سے سیاسی تلخی کو اتنا نہ بڑھائیں کہ سیاسی عدم استحکام کے حالات پیدا ہوں۔ جہاں نہ کوئی قانون سازی ممکن ہے اور نہ ہی معیشت اور کاروباری حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ صرف چند ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہونے والی مخلوط حکومت کے وزراء کس طرح اپنے مخالفین کی صوبائی حکومت کو ختم کرنے کی بات کر کے، دراصل اپنی ہی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ ایسے سیاسی ماحول میں معیشت اور کاروبار کی بہتری ناممکن ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو تحریک انصاف کی سیاسی قیادت اور وزراء کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کو گرانے کے بجائے اس کو اپنے ہی بوجھ تلے دبتا دیکھنے کے انتظار میں ہیں۔

نیب کے ہاتھوں گرفتار سابق وفاقی نے بھی کہا ہے کہ نااہل گروہ کو لانے والے اب مایوس ہیں، کاروباری طبقہ بھی معیشت کے حوالے سے بہت پریشان ہے، تحریک انصاف حکومت کے ترجمان برائے معاشی امور، ڈاکٹر فرخ سلیم نے بھی اپنے تازہ آرٹیکل میں معیشت کے جو اعداد و شمار پیش کیے، وہ انتہائی پریشان کن ہیں۔ بظاہر موجودہ حکومت کے حامی سابق عسکری بیوروکریٹس بھی آف دی ریکارڈ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی معاشی پالیسی اور حکومتی ارکان کی طرف سے سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا کیے جانے پر ریاستی اداروں کو بھی پریشانی لاحق ہے، تحریک انصاف کی حکومت کو ریاستی اداروں کی طرف سے بھی  یہ کہا گیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے سے گریز کریں اور معیشت کی بہتری پر توجہ دیں، یعنی وہ بھی حکومت کی معاشی پالیسی اور بلاوجہ کے سیاسی لڑائی جھگڑوں سے کافی نالاں نظر آتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے بیشتر اقدامات اور طرز حکمرانی سے اختلاف کے باوجود یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس ملک کی معاشی بد حالی کے ذمہ دار وہ سابقہ حکمران ہیں، جو یکے بعد دیگرے اس ملک پر اپنی حکمرانی کا سکہ چلا چکے ہیں۔

ایوب خان کے دور میں ترقی اور استحکام رہا لیکن پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے مشترکہ دور حکومت میں پیدا کی گئی مصنوعی خوشحالی معیشت کی داستان بھی مملکتِ خداداد کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں شامل اکثر اتحادی مشرف، زرداری اور نواز شریف کے ادوار میں بھی حلیف اور شریک اقتدار رہ چکے ہیں اور انتہائی دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے معاشی بحران کا سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال رہے ہیں، جیسے سابقہ حکومتوں میں وہ شریک اقتدار ہی نہ رہے ہوں۔ نجانے کس طرح وہ سابقہ حکمرانوں پر تنقید کے تیر برسا رہے ہیں۔ ملک کی معاشی صورتحال اور روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر وزیر خزانہ اسد عمر بھی راہ فرار اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انہیں اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ان کے تمام مشاہدے، اندازے اور دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ وہ جن امور پر کمال مہارت اور قابلیت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے، ان میں اپنی مہارت کو مناسب مظاہرہ وہ اب تک کر نہیں سکے ہیں۔ انہیں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ معاشی بد حالی کی وجوہات اور حکومتی اہداف کے حوالے سے عوام کو اعتماد میں لینا چاہیے اور انھیں یہ بتانا ہو گا کہ عوام کو کب تک اس صورتحال کا شکار رہنا ہو گا اور کب تک حالات حکومتی کنٹرول میں آ سکیں گے۔

برآمدات میں اضافے کو سب مشکلات کا حل قرار دینے والے حکومتی ذمہ دار یہ سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ ہمارا پورا زرعی نظام تعطل کا شکار ہے، کپاس ہمارے ملک کی ایک اہم نقد آور فصل ہے، جس کا جی ڈی پی میں حصہ 1.7 فیصد ہے، ٹیکسٹائل کے شعبے میں کپاس کا مرکزی کردار ہے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری نہ صرف ہمارے 60 فیصد برآمدات کا احاطہ کرتی ہے، بلکہ 40 فیصد مزدوروں کو روزگار بھی فراہم کرتی ہے۔ ملکی معیشت کے لیے آکسیجن کی حیثیت رکھنے والی کپاس کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے صرف کپاس کے شعبہ میں بہتری کے لیے ہی اقدامات کردیئے جائیں تو ہمیں امداد کے لیے دوست ممالک کے آگے بھی ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں رہے گی، نہ ہمیں عالمی طاقتیں بلیک میل کر سکتی ہیں۔ کپاس کی پیداوار میں دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہونے کے باوجود پاکستان کو 1.2 ارب ڈالرز کی کپاس برازیل، انڈیا اور امریکہ سے درآمد کرنا پڑتی ہے۔ عمران خان نے پہلی تقریر میں زراعت میں اصلاحات اور تحقیق کے فروغ کے لیے اقدامات کی نوید سنائی، لیکن تاحال اس کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ موجودہ حکومت ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سنجیدہ ہے تو اسے زراعت کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔

سیاسی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ برقرار رہے، عوا م کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا اور اعتماد میں لینا حکومتی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے اور عوام کو بھی ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ حکومت توقعات کے مطابق معاشی ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس لیے عوام کو تعاون کے ساتھ ساتھ تھوڑی بہت قیمت ادا کرنا ہو گی۔ ماضی میں عوام کو خوش کن اعداد و شمار اور دلفریب وعدوں بہلایا جاتا رہا ہے۔ ماضی کی اس گمراہ کن روایت کو اب ترک کر کے عوام کو آگاہ کرنا ہو گا کہ ہم کرپشن زدہ ملک ہیں۔ یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ہم ملزمان تک پہنچ چکے ہیں اور ریکوری تک عوام کا تعاون درکار ہے۔ قوم تعاون تو کیا بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔ کوئی حکومت سچ بولنے کی جرأت اور ہمت کا مظاہرہ بھی تو کرے۔ یہ قوم پورا سچ سننا چاہتی ہے۔ اسے ادھورے سچ اور خوش کن اور گمراہ کن اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے نہ بہلایا جائے۔ حکومت پورے سچ کے ساتھ اپنا اعتماد بحال کرنے پر قائل کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم نہ صرف انکے اعتماد پر پورا اترے گی، بلکہ ہر  آزمائش میں حکومت کیساتھ کھڑی ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 770785
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش