QR CodeQR Code

پاراچنار، ابراہیم زئی پر لشکرکشی کیخلاف سمیر میں گرینڈ جرگہ

9 Jan 2019 12:58

اسلام ٹائمز: 2005ء میں جب قبائلی علاقہ جات پر طالبان کی اجارہ داری قائم ہوئی تو طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود نے یہاں آکر ہماری زمین کو پاڑہ چمکنی اور مسوزئی قوم کے درمیان بانٹ دیا اور انکے درمیان کنٹرول لائن بھی قائم کر دی۔ اس دوران حکومت تماشا دیکھتی رہی۔ اپنے مابین جھگڑا ختم ہونے کے بعد دونوں غاصب اقوام نے بلا توقف غیر قانونی آبادکاری شروع کر دی۔ اس دوران ہم نے حکومت سمیت قومی اداروں سے بھی رجوع کیا۔ نتیجتاً علامہ عابد حسینی کی سرپرستی میں تحریک حسینی کی جانب سے سمیر عباس میں ایک طویل دھرنا دیا گیا۔


رپورٹ: ایس این حسینی

ابراہیم زئی پر پاڑہ چمکنی کی لشکر کشی کو گزرے 10 دن گزر گئے، مگر انتظامیہ کی جانب سے جارح اقوام کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ آنے کے ردعمل میں کل بمورخہ 8 جنوری 2019ء کو لوئر کرم خصوصاً بالش خیل اور ابراہیم زئی کی جانب سے کرم کی سطح پر ایک گرینڈ جرگہ منعقد کرایا گیا۔ جس میں انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی سمیت کرم ایجنسی کی تمام مذہبی اور سیاسی تنظیموں کے نمائندگان، سینیٹر سجاد حسین کے نمائندے، نیز مشران اور عمائدین نے بھرپور شرکت کی۔ جرگہ کا آغاز تلاوت کلام مجید سے ہوا، جس کے بعد بالش خیل کے مشر حاجی محمد حسن نے شرکائے جلسہ، عمائدین اور جوانوں کو اپنی مشکلات اور مسائل سے آگاہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ کاغذات مال حکومت کے پاس ہیں، لہذا حق اور ناحق کا علم پوری طرح سرکار کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1979ء میں جب ہماری حکومت کو افغان مہاجرین کے کیمپوں کے لئے زمین کی ضرورت پیش آئی، تو انہوں نے ہم ہی سے رابطہ کیا اور پھر ہم نے بغیر لیت و لعل کے بخیر و خوشی اپنی زمین پر مہاجر کیمپ کی اجازت دی، تاہم جب 2002ء میں افغان مہاجر رخصت ہونے لگے، تو انکے بنائے ہوئے ہزاروں مکانات پر پاڑہ چمکنی کے لوگوں نے قبضہ شروع کر دیا۔ ہمارے بار بار احتجاج پر حکومت نے کافی عرصہ بعد پاڑہ چمکنی کے خلاف کارروائی شروع کرتے ہوئے مہاجرین کے مکانات کو مسمار کرکے انہیں بیدخل کر دیا۔ جس سے وقتی طور پر مسئلہ تو ختم ہوگیا، تاہم کچھ ہی عرصہ بعد ہماری زمین پر مسوزئی اور پاڑہ چمکنی کے مابین لڑائی شروع ہوگئی۔ اس بار بھی ہم نے حکومت سے رجوع کیا اور کہا کہ یہ دونوں قومین جارح اور غاصب ہیں۔ لہذا ہماری زمین پر جھگڑا نہ کیا جائے۔

ابراہیم زئی قوم کی جانب سے حاجی سید حسین بادشاہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2005ء میں جب قبائلی علاقہ جات پر طالبان کی اجارہ داری قائم ہوئی، تو طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود نے یہاں آکر ہماری زمین کو پاڑہ چمکنی اور مسوزئی قوم کے درمیان بانٹ دیا اور انکے درمیان کنٹرول لائن بھی قائم کر دی۔ اس دوران حکومت تماشا دیکھتی رہی۔ اپنے مابین جھگڑا ختم ہونے کے بعد دونوں غاصب اقوام نے بلا توقف غیر قانونی آبادکاری شروع کر دی۔ اس دوران ہم نے حکومت سمیت قومی اداروں سے بھی رجوع کیا۔ نتیجتاً علامہ عابد حسینی کی سرپرستی میں تحریک حسینی کی جانب سے سمیر عباس میں ایک طویل دھرنا دیا گیا اور پھر اس وقت کے پی اے محمد بصیر خان نے دھرنا ختم کرنے کی شرط پر تمام غیر قانونی مکانات کو مسمار کرنے کا نہ صرف وعدہ کیا بلکہ باقاعدہ حکم نامہ جاری کیا۔ دھرنا ختم ہونے کے بعد کافی مکانات مسمار بھی ہوئے، تاہم کچھ عرصہ بعد یہ کارروائی روک دی گئی، بلکہ مزید مکانات بننے لگے۔

انہوں نے کہا کہ دوبارہ تجاوز پر ہم نے دوبارہ احتجاج کرکے دھرنا دیا، مگر جارح کو سزا دینے کی بجائے حکومت نے ہم پر ٹینکوں کی چڑھائی کر دی اور ایک خاتون سمیت ہمارے کئی جوانوں کو قتل کر دیا، صرف احتجاج کرنے پر ہمیں 6 ماہ تک قید کیا گیا، جبکہ جارح قوم کو نہ صرف جارحیت سے نہ روکا گیا بلکہ سرکاری مراعات اور سکیموں کی صورت میں انکی کمک بھی کی گئی۔ بجلی اور پانی فراہم کیا گیا، سڑکیں تعمیر کی گئیں اور ہر قسم کا تعاون کیا گیا، جو کہ آج تک جاری ہے۔ سید حسین بادشاہ نے مزید کہا کہ ہم ایک بار پھر جمع ہوگئے ہیں اور آپ سے کمک اور مشورے کے طلب گار ہیں۔ اس کے بعد قومی مشران اور عمائدین نے باری باری اٹھ کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جن میں انجمن حسینیہ کے سیکرٹری حاجی نور محمد، تحریک حسینی کے رہنما حاجی عابد حسین جعفری، ولی سید میاں، سید جاوید علی شاہ، سینیٹر کے نمائندے منصب علی، مولانا سید محمد حسین طاہری، سید صادق حسین لالا اور سابق سیکرٹری انجمن حسینیہ کیپٹن علی اکبر قابل ذکر ہیں۔

مقررین خصوصاً حاجی نور محمد اور حاجی عابد حسین جعفری نے اپنے اداروں (انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی) کی جانب سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہم نے جرنیل صاحبان، خصوصاً بریگیڈیئر اختر علیم صاحب کے ساتھ بار بار بات کی ہے اور اس مسئلے کا حل کاغذات مال کی روشنی میں فوراً نکالنے کی سفارش کی ہے، جبکہ انہوں نے بھی بار بار تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے، تاہم معلوم نہیں کہ ان کو کیا مشکل ہے کہ وہ اس حوالے سے ایک قدم بھی آگے نہیں جاسکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک پرامن قوم ہیں، تاہم اپنے حقوق اور ایک انچ زمین سے دستبردار ہونے کو کسی صورت میں تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمانڈنٹ ایف سی نے ہمیں پیش کش کی کہ اس علاقے میں حکومت کو کچھ زمین دیں، تاکہ وہاں ترقیاتی کام شروع ہوں اور اس کے بعد پاڑہ چمکنی کو مزید آبادکاری سے روک دیا جائے گا۔

جواباً ہم نے کہا کہ آپ پہلے کاغذات مال کی روشنی میں بارڈر اور کنٹرول لائن کا تعین کریں، نیز یہ تعین کریں کہ آپ جہاں ترقیاتی کام شروع کرنا چاہتے ہیں، وہ زمین ہماری ہے یا پاڑہ چمکنی کی۔ اس کے بعد زمین کے مالک ہی سے رابطہ کرکے کام شروع کریں۔ پروگرام کے آخر میں ایک قومی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کیلئے انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی سے دو دو، جبکہ قومی اور علاقائی مشران سے بھی کچھ نمائندے لئے گئے۔ نمائندے آج اس مسئلے کے حوالے سے انتظامیہ سے ملاقات کریں گے اور انہیں بالش خیل شاملات کے حوالے سے بریف کیا جائے گا۔ چنانچہ اسی کے ردعمل میں انتظامیہ نے آج صدہ میں شیعہ سنی جرگہ بلایا ہے، جو اس مسئلے پر گفت و شنید کرکے شاید ایک فیصلے تک پہنچ جائے۔


خبر کا کوڈ: 771051

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/771051/پاراچنار-ابراہیم-زئی-پر-لشکرکشی-کیخلاف-سمیر-میں-گرینڈ-جرگہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org