1
0
Thursday 10 Jan 2019 22:40

معاشرے کا المیہ اور ہمارا کردار

معاشرے کا المیہ اور ہمارا کردار
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
گذشتہ برس جب ننھی زینب کو قصور میں ایک درندے نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر گندگی کے ڈھیر پہ مار کے پھینک دیا تو ملک میں ایسی افسردگی اور غم کی فضا قائم ہوئی کہ ہر شخص کا یہ کہنا تھا کہ قاتل کو پکڑ کر فوری طور پر سرعام پھانسی دی جائے، تاکہ معاشرے میں موجود ایسے درندوں کو عبرت مل سکے۔ یہ مطالبہ زینب کے والدین کا بھی تھا، مگر عدلیہ نے ایسا نہیں ہونے دیا بلکہ زینب کے قاتل کو خاموشی سے پھانسی دی، جس وقت زینب کا کیس ہوا تو اس دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ اسی ظالم نے اور کئی بچیوں کیساتھ بھی ایسا ہی کیا تھا، جبکہ انہی دنوں ملک بھر میں اس طرح کے کیسز کی ایک سیریز سامنے آئی تھی، جس سے والدین میں ایک خوف کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ اسی قصور میں دو سو سے زائد بچوں کیساتھ زیادتی اور ان کی عریاں فلمیں بنائی گئی تھیں، جس میں بڑے خاندانوں اور موثر سیاسی شخصیات کے لوگ ملوث پائے گئے ہیں۔

ابھی چند دنوں میں ہی ایک بار پھر اس طرح کی خوفناک اور دردناک خبریں میڈیا اور سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہیں، کہیں تین سالہ بچی کو ہوس کا نشانہ بنا کر نالے میں پھینکا گیا ہے تو کہیں زیادتی اور جنسی ہوس مٹانے کے بعد کسی کم سن معصوم بچی کو گلا کاٹ کر پھینک دیا گیا ہے۔ ملک بھر میں ایسی خبریں تواتر سے موصول ہو رہی ہیں، بچوں سے جنسی زیادتی اور ان کی بلیو فلمیں بنانے کے سینکڑوں واقعات سرگودھا، راولپنڈی اور دیگر کئی شہرں میں سکینڈلز کی صورت میں سامنے آئے، مگر ان کا کیا نتیجہ نکلا کسی کو معلوم نہیں۔ معلوم نہیں کرپشن کی وجہ سے یا قانونی سقم کے باعث مگر ہم نے کسی ایک کیس میں نہیں سنا کہ فلاں گروپ جو اس قسم کی وارداتوں میں ملوث پایا گیا تھا، اسے گرفتار کرنے کے بعد سزا ہوئی ہے۔ ابھی ایک بہت ہی عجیب خبر یہ آئی کہ ایک ممانی نے اپنے ڈیڑھ سالہ بھانجے کو اس وجہ سے مار کر پھینک دیا کہ وہ اس کے بیٹے سے زیادہ خوبصورت تھا۔
 
اللہ اکبر! یہ کیسا زمانہ آگیا ہے، لاہور میں ایک اور چونکا دینے والی شرمناک خبر بھی سامنے آئی کہ دو لڑکیوں نے باہم شادی کر لی ہے اور ایک دوسرے کیساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی ہیں، اس پہ مستزاد یہ کہ ایک لڑکی نے اپنے والدین کے خلاف تھانے میں پرچہ بھی درج کروایا اور ماں کو مار بھی پڑوائی۔ ملک میں سیاسی حوالے سے جو صورتحال چل رہی ہے، وہ کوئی زیادہ ہنگامہ خیز نہیں۔ نئی حکومت ہے اور غلطیوں پہ غلطیاں کر رہی ہے اور ملک کے معاشی حالات کو سنوارنے کے چکر میں مزید بگاڑ پیدا ہونے کے خدشات محسوس کئے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین پر کرپشن کیسز کی بھرمار اور میڈیا ٹرائل جاری ہے، معاشرے میں پھیلتی یہ برائیاں ہماری سیاسی جماعتوں کا مسئلہ کب رہا ہے کہ وہ اس پہ میدان میں اتر آئیں۔ ہاں مجھے حیرانی اس بات پہ ضرور ہے کہ ہمارے ملک میں بیسیوں سیاسی و سماجی، دینی مذہبی جماعتیں تمام فرقوں کی موجود ہیں، معاشرہ میں پھیلتی بے راہ روی، بیہودگی، جنسی ہوس کے بدترین نمونے اور بالخصوص بچوں کیساتھ ہونے والے بھیانک کیسز اور وارداتیں تو ایسے مسائل ہیں، جن پر کام کرنے کیلئے تمام تر تفرقات اور مسائل و مشکلات یا رکاوٹوں کو دور کر کے ایسی کمپین کرنی چاہیئے کہ جس سے معاشرے میں ایک یکجہتی کا پیغام بھی جائے اور سوسائٹی میں اعتماد بھی پیدا ہوسکتا ہے، ملک بھر میں پھیلی خوف کی فضا بھی تھم سکے۔

کیا یہ کام کرنے کیلئے کسی فتوے کی ضرورت ہے، کیا یہ دینی جماعتوں کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ آخر معاشرہ سازی کا کام کس نے کرنا ہے، کیا علماء صرف اقتدار کی کرسی کے حصول کیلئے ہی اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ کیا صرف پارلیمنٹ ہی منزل ہے یا معاشرہ میں پھیلی برائیوں کا خاتمہ بھی کوئی کام ہے۔ اس ملک میں ان گنت سیاسی و دینی جماعتیں موجود ہیں، بہت سی این جی اوز بھی موجود ہیں، جن کا بنیادی نعرہ بھی معاشرہ میں جہالت کا خاتمہ ہے، تعلیم کا فروغ ہے، صحت کے نام پہ کتنی این جی اوز موجود ہیں۔ بہرحال سیاسی، فلاحی، دینی جماعتوں اور تحریکوں کو اس جانب آنا ہوگا، سیاست اگرچہ فل ٹائم جاب ہے، مگر سماج کو سدھارنے اور آبادی کیساتھ بڑھتے اخلاقی مسائل کو قابو میں لانا بھی سب کی ذمہ داری ہے۔ ماہرین جن میں علماء، سوشیالوجی کے ماہرین، ماہرین نفسیات سب مل کر اپنی آراء دیں اور نتیجہ خیزی ہو کہ آخر اس طرح کے مسائل سامنے آنے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں، کونسی وجوہات ہیں، پھر ان وجوہات اور عوامل کا تدارک کرنے کا منصوبہ ہو۔
 
معاشرہ سازی کے عمل میں شائد ہی کوئی بندہ فرقہ بازی یا تفرقات کو بہانہ بنائے، یہ تو سب کا مشترکہ مسئلہ ہے، یہ سب کی اولادوں کے مستقبل کا مسئلہ ہے، اگر سب نے توجہ نہ دی تو اس سیلاب میں ہر گھر کے بچے بہہ جائیں گے۔ دنیا جتنی تیز اور آگے کی طرف جا رہی ہے، اس کے سامنے بند نہیں باندھا جا سکتا، ایسا نہیں کہ کسی مسجد کے خطیب کا گھر ان وسائل و آلات سے محفوظ رہ سکے، جو برائیاں پھیلنے کا اسباب میں سے ہیں، صرف موبائل فون ہی کافی ہے اور انٹر نیٹ میں جتنی تیزی آرہی ہے، اس سے ایک اسلامی ملک کا معاشرہ بہت زیادہ متاثر ہوسکتا ہے۔ لہذا اب کام کا وقت ہے، جدید اشیاء سے استفادہ کرنے اور انکے ذریعے نئی نسل کو نئے آئیڈیاز کے ذریعے اسلام کی آفاقی و اخلاقی تعلیمات کا پابند کرنے کی منصوبہ بندی کا زمانہ آن پہنچا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک لوگ اسلامی فلموں اور تاریخی و اسلامی کرداروں کو فلمانے اور شکلیں بنانے جیسے ایشوز میں پھنسے ہوئے ہیں، جبکہ ہمارے دشمن ہمارے پاک پیغمبر اور مقدس ہستیوں کے کارٹونز بنانے سے نہیں چوکتے، اس کے باوجود ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ ہمارے دشمن جن کو کارٹونوں کی صورت میں پیش کر رہے ہیں، ہم انہیں خوبصورت انداز میں کیوں پیش نہیں کرتے، تاکہ اصل پہنچ جائے اور نقل دم توڑ جائے۔
 
 آخر میں قصور میں سات سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد بہیمانہ طور پر قتل کر دیا گیا تھا، اس موقعہ پر معروف شاعر قمر رضا شہزاد کا درد حاضر ہے۔
دعا و بدعا کے درمیان
ایک چیخ
جو کسی کے کان تک نہیں گئی
چہار سمت شور
گاڑیوں کے اس ہجوم میں رواں دواں
یہ خلقت خدا
رسول پاک ترے نام پر فدا
ادھر ادھر نظر کئے بغیر
بھاگتی ہوئی۔۔۔۔
مدد مدد کے لفظ سن رہی ہے
بولتی نہیں
یہ بے حسی۔۔۔ ہے یا کسی کا خوف ہے
سمجھ میں آنہیں رہا
گلی میں کھیلتی ہوئی گلاب کی کلی
ثواب اور گناہ کی حدوں سے دور
آندھیوں کی زد میں آگئی
دعا وب دعا کے درمیان کی گھڑی عذاب بن گئی
فضا میں ایک چیخ
اپنے باپ کو پکارتی ہوئی
مدد مدد کے لفظ گونجتے ہیں میرے کان میں
گزر گئے ہیں کتنے دن میں سو نہیں سکا
بھرے ہوئے ہیں اشک میری آنکھ میں
مگر میں رو نہیں سکا
قمر رضا شہزاد تو کئی دن سو نہیں سکے، مگر ہمارے علماء جنہوں نے انبیاء کی وراثت کا علم اپنے ہاتھوں میں تھاما ہوا ہے، انہیں بھی جاگنا ہوگا، انہیں بھی ان ننھی کلیوں اور معصوم پھولوں کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اللہ کریم ہمیں اس دھرتی پر گناہوں کا بوجھ کم کرنے کی توفیقات اور قوت سے نوازے۔
خبر کا کوڈ : 771400
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
معاشرتی موضوعات پر لکھنے کی بہت ضرورت ہے۔ یہ اس سلسلے میں ایک اچھی کاوش ہے۔
ہماری پیشکش