4
6
Friday 11 Jan 2019 12:31

علامہ اقبال اور ہمارے تعلیمی نظام

علامہ اقبال اور ہمارے تعلیمی نظام
تحریر: سید امتیاز علی رضوی
 
عموماً جب ہم تعلیم کا لفظ بولتے ہیں یا علم حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد درسگاہوں میں جا کر وہاں پر موجود کسی نہ کسی نظام کے تحت حصول تعلیم سے ہوتی ہے۔ یہ نظام علمی صلاحیت اور عمر و سن کے مطابق کی گئی درجہ بندی، مرتبہ نصاب (syllabus) اور تعلیمی منہج (curriculum) کے مطابق تعلیمی سرگرمی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگرچہ علم و تعلیم کو شائد اس دائرہ میں محدود کر دینا بھی مناسب نہ ہو، لیکن جدید دور کے انتظامی تقاضے اور اعداد و شمار کی سائنسی روش کو ملحوظ رکھا جائے تو تعلیم یا ایجوکیشن سے یہی شعبہ مراد ہوگا۔ اس مضمون میں ہم علامہ اقبال کے ان افکار پر نظر ڈالیں گے، جو انہوں نے دینی درسگاہوں، مغربی طرز پر بنائے گئے تعلیمی اداروں اور وہاں کے نظام کے بارے میں پیش کئے ہیں۔ اگرچہ بقول قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی ”اقبال نہ تو فن ِتعلیم کے ماہر تھے، نہ انہوں نے اس فن کی تحصیل کی تھی، نہ اس موضوع پر انہوں نے کوئی کتاب لکھی، بجز اس کے کہ کچھ مدت تک بحیثیت پروفیسر کالج میں درس دیتے رہے، کوئی مستقل تعلیمی فلسفہ انہوں نے نہیں پیش کیا۔“ لیکن اس کے باوجود علامہ اقبال کے تعلیمی افکار سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ سماجی فلسفی اور ایک ایسے مفکر ہیں، جن کی فکر پر پاکستان کی تشکیل ہوئی ہے اور ان کے افکار پر مذہبی و غیر مذہبی حلقے برابر سے اعتماد کرتے ہیں، بلکہ ان پر مسلکی اور علاقائی چھاپ بھی نہیں ہے، جو ایک معجزاتی بات ہے۔

بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ: ”اقبال نے تعلیم کے عملی پہلوؤں پر کچھ زیادہ نہیں لکھا، مگر ان کے افکار سے ایک تصور تعلیم ضرور پیدا ہوتا ہے۔ جس کو اگر مرتب کر لیا جائے تو اس پر ایک مدرسہ تعلیم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔“ پس علامہ اقبال نے تعلیم کی فنی اور عملی صورتوں پر اظہار خیال تو کیا ہے اور مسائل تعلیم پر بھی بات بھی کی ہے۔ علامہ اقبال کے فلسفہ حیات میں تعلیم کا ایک خاص مقام ہے۔ آپ نے تعلیم کے معاشرتی اثرات، اس کے ڈھانچے، اغراض اور معیار تعلیم پر بھی بات کی ہے۔ اپنے ابتدائی دور میں علامہ اقبال نے قوم کے تعلیمی پہلو پر کوئی خاص بات نہیں کی۔ اپنی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں بھی علامہ نے اس موضوع پر کچھ نہیں لکھا، البتہ اپنے آخری دور میں تعلیم کے موضوع کو بھرپور اہمیت دی ہے اور ”ضرب کلیم" میں تو ”تعلیم و تربیت“ کا ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جابجا ایسے اشعار ملتے ہیں، جن میں صحیح تعلیم اور اس کے مقاصد کی نشان دہی کی گئی ہے۔

فطری سی بات ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے دور کے نظام ِتعلیم پر بات کی ہے، لیکن شومئ قسمت کہ وہ نظام آج بھی اسی حالت میں موجود ہیں اور ہم زمانہ گذر جانے کے بعد بھی اس میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں لاسکے، لہذا آج بھی اس فرسودہ نظام کو علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت کا احساس باقی ہے۔ اہم یہ ہے کہ علامہ اقبال نے نہ صرف اس زمانے کے مشرقی نظام تعلیم، جسے آج کل دینی مدارس کے نظام کے نام سے جانا جاتا ہے، پر تنقید کی ہے بلکہ اپنی تنقید میں مغرب کے فلسفہ تعلیم اور اس کے نظام ِکار کو بھی سامنے رکھا ہے۔ علامہ اقبال نے دونوں تعلیمی نظاموں کو موازنہ کیا ہے اور ان کی خرابیوں اور خوبیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بہتر نظام تعلیم کے ذریعے نسل جوان کو زندگی کو کامیاب طریقے سے برتنے اور اس کی مزاحمتوں پر قابو پا لینے کی ضرورت پر اظہار خیال کیا ہے۔

علامہ اقبال کے زمانے میں بھی آج کی طرح دو نظام تعلیم پہلو بہ پہلو رائج تھے، ایک تو قدیم دینی نظام ِ تعلیم تھا، جو مذہبی مدارس میں تھا۔ چونکہ یہ صدیوں سے ایک ہی ڈگر پر چلا آرہا تھا اور وقت کی ضروریات کو پورا کرنا اس کے ایجنڈے میں تھا ہی نہیں، لہذا وقت کے تقاضوں نے اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی تھی، جبکہ اسے ایک مقدس مقام ملا ہوا تھا اور اسے اپنی جگہ مکمل نظام سمجھا جاتا تھا۔ دوسرا نظام حکمران انگریزوں کا رائج کردہ تھا، جس کا مقصد نوجوانوں کو حاکم انتظامی مشینری کے ڈھانچے کے لئے تیار کرنا تھا۔ یہ نظام ایسے لوگ مہیا کرنا چاہتا تھا، جو ذہنی طور پر حکمران قوم سے وابستہ ہوں۔ چونکہ ان دونوں نظاموں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا، جو انسان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام کرتا اور ملک و قوم کی امنگوں اور مقاصد کی ترجمانی کرتا، لہذا علامہ اقبال نے اسی زاویئے سے ان دونوں نظاموں پر بھرپور تنقید کی ہے۔ علامہ اقبال نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ دینی مدارس میں جس طریقہ سے تعلیم دی جاتی ہے، وہ طالب علموں کو ارکانِ اسلام اور فقہی مسائل سے تو آگاہ کر دیتی ہے، لیکن وہاں کے فارغ التحصیل دین کی روح سے آشنا نہیں ہوتے۔ اسی طرح مشاہدہ کائنات اور تسخیر کائنات کا جذبہ کبھی بھی ان میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ علامہ اقبال کی نظر میں ان مدارس کے فارغ التحصیل معاشرتی و سماجی زندگی کے مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت سے عاری رہتے ہیں اور بدلتے ہوئے زمانہ کے تقاضوں کا جواب نہیں دے سکتے۔

یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اس نظام تعلیم نے کئی ایسے علماء بھی پیدا کئے، جنہوں نے دینِ اسلام کو زندہ رکھا۔ خصوصاً اسلام کے بنیادی علمی مصادر کو محفوظ کیا اور اپنے بعد کی نسلوں تک منتقل کیا۔ لیکن ان مدرسوں کے تربیت یافتہ زیادہ تر لوگ وہی تھے، جنہیں علامہ اقبال کی اصطلاح میں ”مُلا“ کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے”مُلا” کو تنگ نظری، تعصب، جہالت اور رجعت پسندی کی نمایاں مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ اقبال نے ”بال جبریل“ میں ایک نظم ”مُلا“ انہی کو پیش نظر رکھ کر لکھی ہے۔ علامہ اقبال دین سے بیزار نہیں بلکہ “مُلا” سے بیزار تھے، کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ مُلا کے پاس دین کا نام تو ہے، دین کی حرارت نہیں، لہذا وہ دین کی روح سے بے گانہ ہے۔ اس کی عبادتیں بس رسمیں ہی رہ گئی ہیں۔ حیات کے ان اعلیٰ مقاصد تک مُلا کی پہنچ نہیں ہے، جو دین کا اصل نصب العین ہیں۔
اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ
تیری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال
تیری اذان میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام


جہاں دینی مدارس کی جامد، بے روح اور زمانہ کے تقاضوں سے نا آشنا تعلیمی نظام سے علامہ اقبال بیزار تھے، وہاں آپ جدید انگریزی تعلیم سے بھی نالاں تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تعلیم سراسر مادیت پر مبنی تھی اور دین و مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ علامہ اقبال کی نظر میں یہ نظام ِ تعلیم انسانوں کو خدا سے جوڑنے کے بجائے انہیں کائنات کی الہیٰ تعبیر سے دور کر رہا تھا۔ اس نظام تعلیم کی وجہ سے خطہ کے لوگ خصوصاً نوجوان نسل مشرقی روایات اور اعلیٰ اسلامی اقدار سے محروم ہو رہی تھی، جو ایک تاریخی اور قیمتی ورثہ تھا۔ علامہ اقبال کی نظر میں اس نظام تعلیم نے الحاد اور بے دینی پھیلانے کی بھرپور کوشش کی ہے، جس سے علامہ اقبال متنفر تھے۔
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظام ِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف


علامہ اقبال کی نظر میں مغربی تعلیم کی بنیاد مادیت پر ہے، جو نفس پرستی، تن پروری، تعیش و آرام کی دلدادگی کا سبق دیتی ہے، جو تخلیق انسان کے اعلیٰ مقاصد کو بے معنی کر دیتی ہے، پھر مغربی تہذیب کی اندھی تقلید جوانوں سے ان کا نصب العین چھین لیتی ہے اور انہیں اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔ یہ رویہ انہیں احساس ِکمتری میں مبتلا کر دیتا ہے اور ان شاہیں بچوں کو خاکبازی کا سبق دے کر انہیں توحید کے اعلیٰ نظریات سے بے بہرہ کر دیتا ہے۔
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ
شکایت ہے مجھے یا رب خُداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالین ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی


علامہ اقبال کے نظری فلسفہ کے لحاظ سے نظام تعلیم کو اپنے زیر تحصیل افراد کو اپنی قومی تاریخ اور مثبت روایات سے جوڑنا چاہیئے۔ آپ یہ سمجھتے تھے کہ مغربی نظام تعلیم ہماری سرزمین کے نوجوانوں کو اپنی ہی تاریخ و روایات سے بیگانہ کرکے مغربی طرز معاشرت، ان کی رفتار و گرفتار اور طرزِ حیات کا دلدادہ بنا رہی ہے۔ ہماری آئندہ نسل اس نظام تعلیم کے زیر اثر اپنی عظیم روایات سے بے بہرہ ہو کر مغرب کے غیر مؤثر معیار، بے اثر نظریات اور غیر مستحکم اقدار کی چمک دمک میں مگن ہوتی جا رہی ہے۔ اس طرح وہ اپنی فطری حریت، دلیری، شجاعت اور بلند پروازی کو چھوڑ کر ایک احساس ِ کمتری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ علامہ اقبال کی نظر میں ہم نے مغرب کی اس انداز سے تقلید کی ہے کہ مغرب کی خرابیوں کو اپنا لیا ہے اور خوبیوں کو چھوڑ دیا ہے۔
یہ بتانِ عصر ِحاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ، نہ تراش ِ آزرانہ


علامہ اقبال کی نظر میں مغربی تعلیم کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ اس نے حقوق نسواں کے نام پر عورت کا استحصال کیا ہے، خصوصاً عورت کو ایسا بنانے کی کوشش کی ہے، وہ اپنے ُاس فرض سے جان چھڑانے لگی ہے، جو نئی نسل کی تخلیق اور ان کی تعلیم و تربیت کی صورت میں خالق نے اس کے سپرد کیا تھا۔ علامہ عورت کو عشق و محبت کا پیکر سمجھتے تھے۔ عورت کے اسی فطری جذبہ کی وجہ سے اسے تخلیق اور تربیت میں حصہ دار بنایا گیا تھا، گویا اگر وہ اپنی اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتی ہے تو یہ دراصل عورت کے وجود ہی کی نفی ہے۔
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت


علامہ اقبال کی نظر میں مغربی تعلیم کے نقائص میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تدریس کی ذمہ داری جن لوگوں کے سپرد کی ہے، وہ خود بے راہ روی کا شکار ہیں۔ جو مضمون وہ پڑھاتے ہیں، وہ ان علوم کے ماہر ہیں اور نہ ان پر کوئی گہری نظر رکھتے ہیں۔ حتی کہ یہ لوگ تعلیم کے حقیقی مقاصد سے بھی ناآشنا ہیں اور جسے خود راہ کی خبر نہ ہوگی، وہ دوسرے کی رہنمائی کیونکر کرسکتا ہے۔ علامہ اقبال نے ”ضرب کلیم“ میں اساتذہ کے عنوان سے لکھا ہے۔
مقصد ہو اگر تربیت لعل و بدخشاں
بے سود ہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ، کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو


اپنے زمانے میں رائج دونوں تعلیمی نظاموں کے نقائص اور جوہری خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ علامہ اقبال نے ایک ایسے نظامِ تعلیم کے خدوخال کی طرف اشارہ کیا ہے، جو نسلِ نو کی خودی کی تربیت کرسکے۔ علامہ کا فلسفہ تعلیم ان کے فلسفہ خودی کے تابع ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ ”طیف اقبال “ میں اس سلسلہ میں کہتے ہیں: ”اقبال نے اپنے نظریہ تعلیم میں طریق کار کا سلسلہ تربیت خودی پر مبنی کیا ہے، خودی کی تربیت کے لیے ایک ایسا نظام درکار ہے، جس میں کلیت پائی جائے، جس میں حواس کی تربیت، وجدان اور جذبے کی تربیت کا پہلو بھی ہو اور ان روحانی رشتوں کا احساس بھی جو نفس ِانسانی میں قدرت کی طرف سے پائے جاتے ہیں۔ تربیت خودی کے اس نظام کو اقبال نے ”اسرار خودی“ اور ”رموزبے خودی“ میں اچھی طرح بیان کیا ہے۔“

لہذا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ علامہ اقبال ایک ایسے تعلیمی نظام کے خواہاں ہیں، جو محصل کی خودی کی تربیت کرے اور اسے استحکام بخشے۔ جو نظام تعلیم انسان کی خودی کی تربیت نہ کرسکے، وہ ان کے نزدیک نہ صرف بیکار ہے بلکہ نقصان دہ بھی ہے۔
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُسے پھیر
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
خودی ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل

علامہ اقبال کے اس معیار خودی پر پورا اُترنے والا نظام تعلیم کیسا ہو، اس سلسلہ میں خود علامہ اقبال کے ایک خط کا حوالہ درج ہے، جو انہوں نے خواجہ غلام حسین کے نام لکھا تھا: ”علم سے میری مراد وہ علم ہے، جس کا دارومدار حواس پر ہے، عام طور پر میں نے علم کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا ہے، اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے، جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہیئے، اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے۔"

درج بالا عبارت سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ حواس کے ذریعے علم کے حصول کے علامہ اقبال نہ صرف قائل تھے، بلکہ علم کی بنیاد کو حسی علم ہی قرار دیتے تھے، جبکہ یہ نظریہ جدید مغربی تعلیم کا خاصہ تھا، لیکن اس کے ساتھ آپ کو احساس تھا کہ اگر حسی علم کو دین کے تابع نہ کیا گیا تو علم کو غلط مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے گا، جو شیطنت ہے۔ اگرچہ دینی بنیاد پر قائم علم وحی کی طاقت پر بھروسہ کرتا ہے اور اس کی بنیاد ایمان اور وجدان پر ہے۔ علامہ اقبال کی نظر میں دینی علم اور مغربی تعلیم دونوں باہم متصادم نہیں ہیں، بلکہ ان دونوں کا ارتباط ضروری ہے۔
جوہر میں ہو لا الہ تو کیا خوف
تعلیم ہو گو فرنگیانہ


اقبال کے نزدیک نظام تعلیم ایسا ہونا چاہئیے، جس میں دینی تعلیم کے محاسن بھی ہوں اور دنیاوی تعلیم کی خوبیاں بھی۔ محض دینی یا صرف دنیاوی تعلیم اپنی جگہ کافی نہیں بلکہ ان میں گہرا ربط ہونا چاہئیے۔ علامہ اقبال کے نزدیک دینی اور دنیاوی تعلیم کو علیحدہ علیحدہ رکھ کر بہتر نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اُن کے نزدیک تعلیم کا بنیادی مقصد تو یہی ہے کہ وہ انسان کی قلب ماہیت اور روحانی اصلاح کرکے اس کے اندر حفظِ خودی کی خوبیاں پیدا کر دے۔ اسے توحید، علم، عشق، بلند ہمتی، سخت کوشی، پاک دامنی، فقر، رواداری اور درویشانہ قناعت جیسی صفات سے آراستہ کرکے ایک مثالی انسان بنا دے۔
علم از سامان حفظ زندگی است
علم از اسبابِ تقویم خودی است


علامہ اقبال حصول تعلیم کو صرف درسگاہوں تک محدود رکھنے کے بھی قائل نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ انسانیت کے بلند منصب کے لیے ضروری کتابی علوم کے علاوہ بزرگوں اور ان کے فیضانِ نظر کی تاثیر بھی ضروری ہے، کیونکہ یہ وہ چیز ہے، جو انسان کے قلب و نظر کی پرورش کرتی ہے۔ اس کے بغیر مکتب کی تعلیم عموماً نامکمل اور بے فائدہ رہتی ہے اور صاحب ِقلب و نظر بزرگوں کی ایک نگاہ بعض اوقات ایسا کام کر جاتی ہے، جو مدتوں کی مکتبی تعلیم بھی نہیں کرسکتی۔
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی!

علامہ اقبال کے نزدیک دین اور سائنس دو الگ الگ مضمون نہیں بلکہ ایک ہی مضمون کے دو حصے ہیں، کیونکہ قرآن میں بار بار انسانوں کو مطالعہ کائنات اور تسخیر فطرت کی دعوت دی گئی ہے۔ اقبال کے خیال میں دینی علوم، خدا، کائنات اور انسان تینوں کے مجموعی تشخص پر مشتمل ہیں اور انہیں الگ الگ نہیں کیا جا سکتا، اسی تصور کے زیر اثر اقبال نے ایک ایسے نظام ِ تعلیم کا خاکہ پیش کیا ہے، جس میں دین، سائنس اور حکمت کو ایک واحد مضمون کی حیثیت سے دیکھا گیا ہے۔

بطور خلاصہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال کی نظر میں تعلیم کا حقیقی مقصد انسانی سیرت و کردار کی تعمیر اور انسان کی تسخیر ِحیات کی صلاحیت کو تقویت پہنچانا ہے اور اس کے ساتھ ہی خدا، کائنات اور انسان کو ایک کلی نظام کی حیثیت سے دیکھنا ہے۔ چنانچہ محض مغرب کی مادی تعلیم یا محض دینی مدارس کی بظاہر روحانی تعلیم کو مقصود ٹھہرا لینا ہی درست نہیں، انسانی روح اور اس کے مادی ضروریات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں دیکھا جا سکتا کیا۔ یہ نظام تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ انسان کی مادی اور روحانی دونوں ضروریات کو پیش نظر رکھے اور جسمانی و روحانی تقاضوں کو یکساں اہمیت دے۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم کا مقصد انسان کو تسخیر کائنات کے لیے تیار کرنا بھی ہے۔ جس کا مطلب اسے ایسے سانچے میں ڈھالنا ہے کہ وہ خود کو مفید شہری بنا کر صالح معاشرے کو وجود میں لانے میں مدد دے اور تعلیم کا آخری اور بڑا مقصد خودی کی تقویت اور استحکام ہے۔
خبر کا کوڈ : 771483
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

جمیل احمد محمد حنیف
India
بہترین تحریر ہے۔ بہت خوب۔ بہت خوب قابل ستائش۔
محمد کامران بن جہان خان
Pakistan
بہت بہترین تحریر ہے۔
اقرا چیمہ
حوالہ جات بھی دیا کریں کہ کس کتاب سے مستفید ہوئے ہیں۔
حمید حسین
Pakistan
ما شاء اللہ بہت اعلیٰ اور عمدہ تحریر ہے۔۔ اللہ مزید ترقی عطا کرے۔۔
ہماری پیشکش