0
Sunday 13 Jan 2019 12:30

ڈالر کے تسلط کا ممکنہ خاتمہ اور اسکے محرکات

ڈالر کے تسلط کا ممکنہ خاتمہ اور اسکے محرکات
تحریر: نجیب الحسن زیدی

فارس نیوز ایجنسی (1) کے اقتصادی شعبے سے متعلق نامہ نگار کے مطابق نے رشیا ٹو ڈے (2) "Russia Today" RT  سے نقل کرتے (3) ہوئے لکھا کہ گذشتہ 2018ء ایسے حوادت کو اپنے دامن میں لئے ہوئے تھا کہ جنکے سبب دنیا جیوپولیٹکل بنیاددوں پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، ایک حصہ ان ملکوں پر مشتمل تھا کہ جنہوں نے حسب سابق بین الاقوامی معاملات میں ڈالر کو ایک  مالی تبادلہ کے ذریعہ کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کا استعمال جاری رکھا، جبکہ دوسرے حصے میں وہ ممالک آتے ہیں جو ڈالر کو پیٹھ دکھا رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کی بنا پر وجود میں آنے والی بین الاقوامی چپقلشیں اور واشنگٹن کی جانب سے تجارتی جنگ کے چھیڑے جانے کی بنا پر امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے مسائل سے تنگ آئے ہوئے ممالک اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اقتصادی معاملات کی انجام دہی اور لین دین میں ڈالر کے علاوہ کسی اور طریقہ کار کو عمل میں لاتے ہوئے ڈالر کو کنارے لگا دیں۔ چنانچہ گذشتہ سال 2018ء میں مختلف ممالک نے ڈالر کو تجارتی معاملات سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا اور اس کرنسی سے وابستگی و تعلق خاطر کو ختم کرنے کے لئے انہوں نے مختلف اقدامات کئے، ڈالر سے پیچھا چھڑانے والے ان ممالک میں ہر ایک کا اپنا الگ ہی زاویہ نظر ہے۔

چین:
 چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ کا سلسلہ، اور اس کے ساتھ روس کے خلاف امریکہ کی پابندیاں جو چین کا ایک بڑا تجارتی شریک ہے، اس بات کا سبب بنیں کہ بیجنگ کے عہدیدار ایسی سیاست کو اختیار کریں جسکی چلتے ڈالر سے وابستگی کو ختم کیا جا سکے۔ بیجنگ نے اس میدان میں ایک نرم سیاست اختیار کی اور چینی حکومت نے بغیر شور شرابے کے اس سیاست کو آگے بڑھانا شروع کیا، چین کے مرکزی بینک نے 2018ء میں امریکہ کی خزانہ داری کی وزارت سے خریدے گئے بانڈز (4) و تمسکات (negotiable instruments) کو جوکہ چین کے اختیار میں تھے، بازار میں بیج دیا۔ اس اقدام کے باوجود، چین آج بھی امریکہ کے سب سے زیادہ بانڈز رکھنے اور قابل خرید و فروخت تمسکات (negotiable instruments) والا ملک ہے، یہ اور بات ہے کہ چین کے اس عمل سے اس کا حصہ گذشتہ دو سالوں میں اپنے کمترین مقام پر پہنچ گیا ہے۔ چین نے ڈالر سے دوری کی حکمت عملی اس طرح بنائی کہ اپنے تبادلات میں ڈائریکٹ ڈالر کو ختم کرنے کی بجائے یو آن کو بین الاقوامی سطح پر لانے کی کوشش کرنا شروع کر دی ہے۔ چین گذشتہ چند سالوں میں چین یوآن (5) کو  ڈالر، جابانی ین(6)، یورو اور پونڈ کے ساتھ  بین الاقوامی کرنسی کی مخصوص فنڈ یا  باسکٹsdr-imf (7) میں جگہ دلانے میں کامیاب ہو گیا۔ گذشتہ چند مہینوں میں چین نے یوآن کی مضبوطی کے لئے وسیع پیمانے پر اقدامات کئے۔

ان اقدامات میں  سونے کے ذخیرے میں اضافہ، یوآن کے تحت تیل کی مارکیٹ کی تشکیل، اسی طرح اپنے تجارتی شرکاء کے ساتھ اپنی ملکی کرنسی یو آن سے استفادہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ چین اپنے منصوبہ کے ایک اور حصہ کی تکمیل کے لئے یوآن کی دنیا میں مضبوطی کی خاطر اپنے تجارتی شریکوں کے ساتھ سوئپ (8) کے امکانات کے سلسلہ سے پروگرامنگ میں مشغول ہے تاکہ اس کے ذریعہ یوآن کو رواج بخش سکے۔ ان تمام ہی موارد میں چینی متحرک انداز میں مشرقی ایشیا کے جنوبی ممالک کے ساتھ  علاقے کی جامع اقتصادی شراکت کے نام کے تحت آزاد تجارت کے ایک معاہدے (T.PP) (9) کو وجود میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ ڈیل ہو جاتی ہے اور معاہدہ کامیاب رہتا ہے تو چین بڑی ہی آسانی کے ساتھ آزاد تجارت میں امریکہ کی خالی جگہ لینے میں کامیاب ہو جائے گا، جو کہ امریکیوں ہی کے ذریعہ وجود میں آئی تھی، لیکن ٹرمپ کی حکومت اس سے دستبردار ہو گئی تھی۔ جامع اقتصادی شراکت علاقے کے 16 ایسے ممالک پر مشتمل ہوگی، جنکا زیادہ تر تعلق ایشیاء سے ہے، جنکی مجموعی آبادی ۴۔۳ /ارب ہے، اور انکا مجموعی اقتصادی تخمینہ، 49.5  ٹریلن ڈالر بیان کیا گیا ہے، جو کہ 40 فی صدد دنیا کی مجموعی ملکی آمدنی (10) دنیا کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔

روس:
 روس کے صدر جمہوریہ ولادیمیر پوٹین نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایک اسٹرٹیجک غلطی کا ارتکاب کیا ہے، اس لئے کہ دنیا میں ڈالر پر قائم اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ پوٹین نے ابھی تک  ڈالر میں ہونے والے تجارتی لین دین، یا پھر تجارتی معاملات میں ڈالر کی ممنوعیت کے سلسلہ سے کوئی بات نہیں کہی ہے، لیکن انٹون روس کے وزیر اقتصاد آنتھن گرامانوچ سیلونا و (11) نے گذشتہ سال کی ابتداء میں یہ اعلان کیا کہ روس کو چاہیئے اپنے اختیار میں موجود امریکی وزرات خزانہ کے بانڈز کو محفوظ اور بہتر پونجی جیسے روبیل و یورو یا دیگر قیمتی دھاتوں میں تبدیل کرا لے۔ روس نے اب تک کئی بار  ڈالر کو تا حد ممکن اپنے اقتصاد سے ختم کرنے کی سیاست کو اپناتے ہوئے ڈالر سے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے، 2014ء سے لیکر 2018ء دائمی طور پر مغرب کی جانب خاص کر امریکہ کی طرف سے روس کو پابندیوں کا سامنا رہا ہے اور دن بدن ان پابندیوں میں اضافہ ہی ہوتا گیا ہے۔ اسی تسلسل کی بنیاد پر اور امریکہ کی جانب سے مزید سخت پابندیوں کے لگائے جانے کی دھمکی اور روس کی سوئفٹس SWIFT (12)۔

ویزا کارڈ اور مسٹر کارڈ سے دسترسی ختم ہو جانے کی وجہ سے روس نے سوئفٹ کی جگہ SPFS نامی ایک قومی سسٹم کے متبادل کو پیش کیا ہے، اور MIR  کو بھی ویزا کارٹ اور مسٹر کارڈ کی جگہ ایک متبادل بنایا ہے۔ روس اپنے ان اقدامات کے بل پر کسی حد تک اپنے  ایکسپورٹ میں ڈالر کے استعمال کو کم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ روس کو، ہندوستان، چین اور ایران کے ساتھ، کرنسی سوآپ (swwap)، جیسے معاہدوں پر دستخط کرنے کی بنا کافی حد تک یہ کامیابی نصیب ہوئی ہے کہ وہ قومی کرنسی کو ڈالر کی جگہ استعمال کر سکے۔ روس نے ابھی یہ تجویز بھی رکھی ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ بھی تجارتی لین دین میں ڈالر کی جگہ یورو کو استعمال کیا جائے، ایک زمانہ وہ بھی تھا جب روس امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کئے جانے والے بونڈز کے 10 بڑے ملکوں میں شمار ہوتا تھا لیکن اب اس نے اپنی تمام پونجی کو نیلام کر دیا ہے اور اس  نیلامی کا بڑا حصہ  2018ء میں انجام پایا ہے۔ روس نے امریکی بونڈس(us Treasury bonds) کو بیچنے کے بعد حاصل ہونے والے سرمایہ کو بیرونی کرنسی کے ذخیرہ میں اضافہ اور روبل کو مضبوط بنانے کے لئے زیادہ سونے کو حاصل و ذخیرہ کرنے میں خرچ کیا ہے۔

ترکی:
گذشتہ سال کی ابتداء میں ترکی کے صدر جمہوریہ رجب طیب اردگان نے تجارت کی عالمی منڈی میں ڈالر کے تسلط کو ختم کرنے کے سلسلہ سے اپنے منصوبہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ترکی حکومت یہ چاہتی ہے کہ اپنے ساتھ شریک تجارتی حلیفوں کے ساتھ  ڈالر میں ہونے والے تجارتی تبادلوں کی ادائیگی کو ڈالر میں ادا نہ کرتے ہوئے اس مقصد کو حاصل کرے، ترکی کے صدر نے اعلان کیا کہ انقرہ  چین، روس اور یوکرین سے تجارتی لین دین میں ان ممالک کی قومی کرنسی میں ادائیگی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اسی طرح ترکی ایران کے ساتھ تجارتی لین دین میں ڈالر کو حذف کرنے کے سلسلہ میں مذاکرات کر رہا ہے، ترکی کے اس فیصلہ کے مختلف سیاسی و اقتصادی دلائل ہیں۔ 2016ء میں اردوگان کی حکومت کے خلاف ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد سے لیکر اب تک ترکی کے واشنگٹن سے تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق اردوگان کا ماننا ہے کہ امریکہ کا اس بغاوت میں ہاتھ تھا۔  دوسری طرف قومی سلامتی و سکیورٹی کے اسباب  کی بنیاد پر ایک امریکن پادری کو ترکی کی جانب سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دینے پر امریکہ نے پابندیاں عائد کر دیں، جس کی وجہ سے ترکی کی معیشت کو زبردست جھٹکا لگا۔ علاوہ ازیں  اردوگان نے مکرر ترکی کی پابندی کے خلاف بولنے کے  ساتھ ساتھ واشنگٹن کے ذریعہ تہران کے خلاف اقتصادی جنگ چھیڑے جانے اور ایران کو الگ تھلگ کر دیئے جانے پر امریکہ پر کڑی تنقید کی ہے۔ ترکی کی جانب سے روس سے S400 کے فضائی سسٹم  کو خریدے جانے کی وجہ سے بھی ترکی اور واشنگٹن کے تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ ان تمام مذکورہ  موارد کے ساتھ ترکی کی کوشش ہے کہ ڈالر کو لین دین سے ختم کر کے اپنی کرنسی کو مضبوط بنائے، ترکی لیرا  کی قیمت گذشتہ سال سے اب تک ڈالر کے مقابل آدھی رہ گئی ہے۔ ڈالر کے سامنے ترکی لیرا کی قیمت میں شدید گراوٹ، افراط زر (Inflation)  (13) کے زیادہ ہونے اور ترکی میں اشیاء اور سرویسز کی قیمت کے بڑھ جانے کے ساتھ ساتھ  پیش آئی۔

ایران:
ایران کی چھ بڑی طاقتوں کے ساتھ جوہری توانائی کے جامع معاہدے (14) JCPOA کے بعد عالمی منڈی میں واپسی کو ابھی زیادہ وقت بھی نہیں ہوا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس پہنچ کر امریکہ کو اس معاہدے سے دست بردار کر دیا۔ تیل کے ذخائر سے مالا مال ایران ایک بار پھر امریکہ کی شدید ترین پابندیوں کا سامنا کر رہا ہے، اور اتنا ہی نہیں، امریکہ کی طرف سے دھمکی بھی دی گئی ہے کہ جو ملک ایران کے ساتھ اس سلسلہ سے کوئی بھی تعاون کرے گا اسے بھاری مالی تنبیہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکی پابندیوں نے ایران کو مجبور کر دیا ہے کہ ایسے مکینزم کو تلاش کرے جس کے بموجب تیل کی فروخت کے بعد ڈالر سے ہٹ کر ادائیگی ممکن ہو سکے۔ ایران نے ہندوستان کے ساتھ تیل کی فروخت کے بعد روپیہ میں قیمت کی ادائیگی کے معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں، فی الحال عراق سے اس کے مذاکرات جاری ہیں۔ ایران اور عراق چاہتے ہیں آپسی لین دین میں دینار سے استفادہ کریں تاکہ بینکی سسٹم پر پابندی کی بنا پر ڈالر سے اپنی وابستگی کو کم کیا جا سکے۔

ہندوستان:
ہندوستان، دنیا کی چھٹی بڑی اقتصادی طاقت ہے، اور بین الاقوامی برادری میں اس  کا ایک بڑے امپورٹ کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے، یہ ذرا بھی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہندوستان ڈائریکٹ ہی بہت سارے جیو پولیٹکل جھگڑوں سے متاثر ہوتا ہے، اور ہندوستان کے تجارتی شریکوں پر لگائی گئی پابندیاں ہندوستانیوں کو شدید طور پر متاثر کرتی ہیں، گذشتہ سال کی ابتداء میں امریکہ کی جانب سے روس پر لگائی گئی پابندیوں کے عائد ہوتے ہی روس سے s400 سسٹم خریدنے پر ہندوستان نے ماسکو کو  روپیہ میں ادائیگی کی۔ اسی طرح ہندوستان ناچار ہوا کہ ایران سے تیل خریدنے کی قیمت بھی ایران پر لگی امریکی پابندیوں کی بنا پر ایک بار پھر روپیہ میں ہی چکائے۔ گذشتہ سال دسمبر کے مہینے میں بھی ہندوستان نے عرب امارات کے ساتھ ایک معاہدہ میں سوایپ (swwap) پر سائن کئے تاکہ تجارتی تبادل میں آسانی کے ساتھ دونوں ملکوں کےدرمیان تیسری کرنسی کے سلسلہ سے سرمایہ کاری کو کم کر سکیں۔ اس لحاظ سے کہ ہندوستانی خریدنے کی توانائی کے لحاظ سے دنیا کے تیسرے ملک میں شمار ہوتے ہیں، یہ تمام اقدامات عالمی منڈی میں ڈالر کے  تسلط کو قابل دید حد تک چیلنز کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
https://www.farsnews.com/news/13971012000416/
2۔ انگریزی اور عربی زبان میں ۲۴ گھنٹے پروگرام پیش کرنے والا روسی چینل۔تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: RT (formerly Russia Today) is a Russian international television network funded by the Russian government.
https://www.rt.com/about-us/contact-info/،
russiatoday.ru، rtarabic.com
4۔ وہ ضمانتی اوراق یا  تمسکات جنہیں ٹریزی باونڈس {us Treasury bonds} کہا جاتا ہے
5۔ چین کی سرکاری  کرنسی جسے خصوصی اور بین الاقوامی سیاق و سباق  کے تحت چینی یوآن (Chinese yuan) کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، تفصیل کے لئے دیکھیں: https://web.archive.org/web/20070320211302/http://www.cin.gov.cn/law/main/2004010802.h
6۔ امریکی ڈالر، یورو کے بعد دنیا کی تجارت میں تیسری سب سے زیادہ استمعال ہونے والی کرنسی ۔ "Foreign exchange turnover in April 2013: preliminary global results" (PDF). Bank for International Settlements. Retrieved February 7, 2015
7۔ { special drawing rights –international monetary fund }  جسے مختصر طور پر sdr –imf بھی کہا جاتا ہے
8 ۔currency swwap
 9۔ (trans-pacific free trade  partnership agreement (T.PP
10 ۔Gross net income (G.N.I)
11۔ Anton Germanovich Siluanov 
12۔ Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunication
13 ۔ معیشت میں موجود اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شرح تفصیل کے لئے: Barro, Robert J. (1997). Macroeconomics. Cambridge, Massachusetts: MIT Press. p. 895. ISBN 0-262-02436-5.
Blanchard, Olivier (2000). Macroeconomics (2nd ed.). Englewood Cliffs, N.J: Prentice Hall. ISBN 0-13-013306-X.
Mankiw, N. Gregory (2002). "Macroeconomics" (5th ed.). Worth. Measurement of inflation is discussed in Ch. 2, pp. 22–32; Money growth & Inflation in Ch. 4, pp. 81–107; Keynesian business cycles and inflation in Ch. 9, pp. 238–255.
14۔ ایران کے جوہری پروگرام پر جامع معاہدہ JCPOA comprehensive agreement on the Iranian nuclear program
خبر کا کوڈ : 771833
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش